تیسری ریجمنٹ: ایک عراقی قیدی ڈاکٹر کے واقعات – گیارہویں قسط

مجتبیٰ الحسینی

مترجم: سید مبارک حسنین زیدی

2019-12-12


ستمبر سن ۱۹۸۰ء کے آخری دنوں میں نشوہ گاؤں میں، میں اپنی افواج کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹوں کے درپے رہتا۔ ہر دن گزرنے کے ساتھ ساتھ، زمینی ، ہوائی حملوں اور عوامی فورسز کی گوریلا کاروائیوں کی وجہ سے ہماری زخمی اور مرنے والے ا فراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔ ہماری افواج کے خلاف ایرانی فوج کا سب سے پہلا حملہ  ۲۹ ستمبر سن ۱۹۸۰ء کو ۹۲ ویں زرھی ڈویژن کے ایک بریگیڈ  کے توسط سے  انجام پایا۔ بیسویں بریگیڈ کے یونٹوں ا ور اُس بریگیڈ کے درمیان نبرد آزمائی شروع ہوگئی اور کچھ گھنٹوں تک جاری رہی۔ یہ جھڑپ ایرانی فورسز کی عقب نشینی ، ٹینکوں کو چلانے والے ۱۴ لوگوں کی لاشوں کو چھوڑنے اور نیز مقداد بٹالین کے ۷ ٹینکوں کے منہدم ہونے اور دسیوں افراد کے مارے جانے اور زخمی ہونے کے ساتھ ختم ہوئی۔ تین دن بعد اُن ا فراد کے جسموں کی ہڈیاں لائیں گئیں جن کے جسم ٹینکوں  کے اندر جل گئے تھے۔ ان ہڈیوں کو گولہ بارود رکھنے والے صندوقوں میں رکھا گیا۔ یہ منظر اس قدر دلخراش تھا کہ حتی میں نے اس طرح کا منظر میڈیکل کالج کی اناٹومی لیب میں بھی نہیں دیکھا تھا۔

اکتوبر کا مہینہ شروع ہوا۔ ہما ری افواج بار بار اپنی پوزیشنوں  کو بدل رہیں تھی اور کبھی کبھار اُنہیں کوئی ضرب بھی لگ جاتی۔ یہاں تک کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے آہستہ آہستہ اپنے افواج کو ہماری افواج کے مقابلے میں جمع کرلیا؛ توپ خانے کے حملوں میں شدت آگئی اور ہیلی کاپٹروں نے پرواز کرنا شروع کردیا۔ "تاو" اینٹی ایئر کرافٹ میزائلوں سے بھی  بڑی مقدار میں کام لیا گیا۔ ان میں رات کو ہونے والی فضائی بمباری کا بھی اضافہ کرنا چاہیے۔ ان زمینی اورفضائی حملوں میں شدت آنے کی وجہ سے ہمارے افراد کے حوصلوں پر بہت زیادہ منفی اثر پڑا اور انہیں ناقابل تلافی نقصانات کو برداشت کرنا پڑا۔ یعنی اس عرصہ میں اسلامی جمہوریہ ایران نے نہ صرف عراقی افواج کی پیش قدمی کو روک دیا، بلکہ انہیں اس بات پر مجبور کیا  کہ وہ اپنے دفاع کیلئے محکم مورچوں میں پناہ حاصل کریں۔

جنگ شروع ہونے کے دو ہفتے بعد، صدام کی حکومت کو یقین ہوگیا کہ فوج اس سے زیادہ کچھ کرنے کی قدرت نہیں رکھتی؛ اور یہ کہ وقت کی گردش اُن کے فائدے میں نہیں ہے۔ ایسے میں ہمارے افراد صرف ایک چیز کے بارے میں سوچ رہے تھے وہ یہ کہ کس طرح جنگ کے شعلوں کو خاموش کیا جائے اور کس وقت دو ملکوں کے درمیان صلح اور امن قائم ہوگا؟ ایسی سوچ اُن جنگوں میں ہمارے تجربہ کا نتیجہ ہے جس میں عربوں نے اسرائیل کے خلاف شرکت کی تھی۔ اسی مسئلہ نے حملہ کرنے والی افواج کی صفوں میں ایک طرح کی سستی اور بے حالی کو ایجاد کردیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ بعثی حکومت نے اس کے جبران کیلئے کچھ سیاسی اور تبلیغاتی اقدامات انجام دیئے۔ جن میں سے:

۱۔ عراقی عوام اور افواج کیلئے خوشخبری کے عنوان سے ریڈیو کے ذریعہ امام خمینی کے انتقال کی خبر نشر کرنا۔ انھوں نے کہا: "ہمیں یقین ہوگیا ہے کہ خمینی۔۔۔ اس دنیا سے کوچ کرگئے  ہیں۔"

اُس وقت مجھے یہ خبر سن کر جھٹکا لگا۔ میں نے فوراً ریڈیو اٹھایا اورمیڈیکل سینٹر کے برابر میں موجود باغ میں چلا گیا۔ میں نے ریڈیو تہران کی فریکوینسی لگائی۔ وہاں سے اس خبر کی تردید آرہی تھی اور امام کی نئی تقریر نشر ہو رہی تھی۔  میں خوش حالی کے عالم میں تیزی کے ساتھ واپس پلٹا تاکہ امام سے محبت کرنے والے افراد کو خوشخبری سناؤں کہ وہ ابھی زندہ ہیں۔ میں یہ بات کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ امام کے انتقال کی جھوٹی خبر کا اعلان  ہمارے لئے ایک درد ناک جھٹکا اور جاہل اور بے شعور فوجیوں کی خوشی میں اضافہ  تھا۔ لیکن حقیقت سے پردہ ہٹ جانے کے بعد، یہ بناوٹی پروپیگنڈہ بے اثر ہوکر رہ گیا اور بعثیوں کا مذاق اڑایا گیا۔

۲۔ جنگ بند کرنے اور مذاکرات کرنے  کیلئے آمادگی کا اعلان۔اُس وقت شہید رجائی کی حکومت نے اس تجویز کی مخالفت کی اور اعلان کیا جب تک عراق کی فوج ایران کے قبضہ شدہ علاقوں سے نکل نہیں جاتی اس وقت تک کوئی مذاکرات انجام نہیں دیئے جائیں گے۔ عراق ، ایرانی حکومت کی درخواست کو ردّ کرتے ہوئے،سرزمین ایران کے کچھ علاقوں پر اپنی افواج کی موجودگی کے باوجود  اُسی طرح مذاکرات کے مسئلہ پر اصرار کرتا رہا۔

۳۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک گنگ اور مبہم قرارداد کے تحت جنگ لڑنے والے دونوں طرفین کو جنگ بند کرنے اور بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنے کی دعوت دی، عراق کو قبضہ شدہ علاقوں سے نکل جانے کا کہے بغیر اور یا یہ بتائے بغیر کہ کس نے جنگ کا آغاز کیا تھا۔ قرارداد کی دفعات کو نافذ کرنے کے لئے کسی طرح کے اقدامات انجام نہیں دیئے گئے تھے۔ تعجب کی بات بھی نہیں ہے۔ جب قدرتمند کامیابی حاصل کرنے سے ناکام ہوگئے تو یہ قرار داد اُن کے حلیف صدام کی طرف سے صادر ہوئی۔

اس مرحلہ کے بعد، ہماری افواج نے آہستہ آہستہ خود کو ایک لمبی جنگ کیلئے آمادہ کرلیا۔ اس سلسلے میں ایرانی سرزمین کے اندر مورچے  اور پناہ گاہیں  بنائی گئیں، راستے بنائے گئے اور جنگی سازو سامان اور کھانے پینے کا سامان رکھنے کیلئے انبار بنانے کیلئے اقدام کئے گئے۔ حکومت نے ایک بیانیہ صادر کرتے ہوئے مسلح فوجی افراد کی چھٹی غیر معینہ مدت تک کیلئے بند کردی۔ اُن دنوں میرے پاس ایک ریڈیو تھا ایک ایسے دوست کی طرح جسے مجھ سے لگاؤ ہوگیا تھا  اور وہ مجھے دنیا میں ہونے والے واقعات سے باخبر رکھتا تھا۔  میں زیادہ تر خبریں، روزمرہ کے حالات اور جنگ سے متعلق سیاسی –  فوجی تجزیوں کو امریکی، مونٹ کارلو اور لند ن ریڈیو سے سنتا تھا۔ ان تجزیوں سے یہ نتیجہ نکلتا تھا کہ جنگ سالوں تک جاری رہے گی۔ مثال کے طور پر امریکی ریڈیو چینل نے نیوز ویک کے سیاسی تجزیہ نگار کا بیان دیتے ہوئے کہا: "عراق اور ایران کے درمیان ہونے والی جنگ سالوں تک جاری رہے گی، کیونکہ دونوں ممالک تیل سے مالا مال ہیں اور عظیم وسائل اُن کے اختیار میں ہیں۔ دوسری بات یہ کہ قدیم زمانے سے سرحدی مسائل کی وجہ سے اور  دونوں ملکوں کےرہبروں کے درمیان سیاسی اور نظریاتی  منشور کی وجہ سے اختلاف پائے جاتے ہیں۔"

جنگ اُسی طرح جاری رہی اور ہر دن مرنے والے اور زخمیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔ میں اپنی فراغت کے اوقات کو ریڈیو سے خبریں اور رپورٹس سننے میں صرف کرتا اور یا میڈیکل سینٹر کے برابر میں موجود نہر سے مچھلی کا شکار  کیا کرتا۔

ان دنوں میں سے کسی ایک دن، دو پہر کے تین بجے، میں مچھلی پکڑنے  میں مشغول تھا کہ اچانک ایک ایمبولنس میڈیکل سینٹر کے اندر داخل ہوئی۔ عام طور سے ایمبولینسیں محاذی صفوں سے میڈیکل سینٹرتک طولانی راستہ ہونے کی وجہ سے شام کے وقت اس سینٹر میں پہنچا کرتی تھیں۔ میں جلدی سے سینٹر کے اندر پہنچا۔ مجھے بتایا گیا کہ پانچ زخمیوں کو لایا گیا ہے۔ میں ایمرجنسی وارڈ کے اندر داخل ہوا اور اُن کی دیکھ بھال کی۔ تھوڑی دیر بعد ایمبولینس کا ڈرائیور کمرے کے اندر داخل ہوا اور اُس نے مجھے بتایا کہ ایک ایرانی شخص بھی ایمبولینس کے اندر زخمی پڑا  ہے۔ اُس نے کہا: "میرے خیال سے وہ  مرچکا ہے۔"

میں تیزی کے ساتھ ایمبولنس کے قریب پہنچا۔ میں نے دیکھا کہ غیر فوجی لباس میں ، بڑی اور گھنی داڑھی والا ایک شخص اپنے خون میں غلطاں ہے۔ اس کی حالت سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ میں نے اُسے ایمرجنسی وارڈ میں لانے کا حکم دیا۔ بغور معائنہ کرنے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ وہ ابھی بھی سانسیں لے رہا ہے۔ اُسے خون کی اشد ضرورت تھی۔ اس کے پیٹ میں گولی لگی تھی۔ میں نے بہت کوشش کے بعد ایک ڈرپ ڈھونڈی۔ میں ضروری خون ملنے کیلئے انتظار کرنے لگا۔ میڈیکل سینٹر کے بہت سے افراد نے میرے گرد احاطہ کیا ہوا تھا اور اُس زخمی کی حالت کا نظارہ کر رہے تھے۔ میں نے کہا: "اس زخمی کو خون کی ضرورت ہے۔"

جاری ہے ۔۔۔



 
صارفین کی تعداد: 3207


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

فاو کے اسپتال کے میل نرس

راوی نے 1989(1368) میں شادی کی اور اس وقت وہ بیرجند میں امام رضا(ع) اسپتال میں ہیڈ نرس تھے. وہ اپنی ریٹائرمنٹ(سن2017 یا 1396) تک بیرجند کے رازی اسپتال میں خدمات انجام دیتے رہے. وہ اس وقت بیرجند یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کے ریٹائرڈ افراد کےمرکز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز(هیئت مدیره کانون بازنشستگان دانشگاه علوم پزشکی بیرجند) کا حصہ ہیں.
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔