’’نیوز انٹرویو‘‘ اور ’’زبانی تاریخ کے انٹرویو‘‘ میں فرق

مقصد اور مواد سے، سوال کے طریقۂ کار تک

مریم اسدی جعفری

ترجمہ: ضمیر علی رضوی

2025-4-22


زبانی تاریخ کی سائٹ ۔ جو افراد، زبانی تاریخ کے ماحول میں قدم رکھنا چاہتے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایک نیوز انٹرویو اور ایک زبانی تاریخ کے انٹرویو میں فرق ہوتا ہے۔ زبانی تاریخ کے انٹرویور کی حیثیت سے نیوز انٹرویو کی طرح ایک تحریر شدہ انٹرویو پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے۔ اس ہنر کو حاصل کرنے کے لیے بھی معلومات میں اضافے، مشق اور تکرار کی ضرورت ہوتی ہے۔ درج ذیل نوٹس میں ہم نیوز انٹرویو اور زبانی تاریخ کے انٹرویو کے درمیان فرق کو ملاحظہ کریں گے۔ میں اس بات کی تاکید کرتی ہوں کہ یہ ایک رپورٹر کے نوٹس ہیں اور ان کا کوئی سائنسی یا تحقیقی پہلو نہیں ہے۔

عام طور پر، نیوز انٹرویوز اور زبانی تاریخ کے انٹرویوز میں متعدد اختلافات پائے جاتے ہے:

 

1 ۔ مقصد اور مواد:

 نیوز انٹرویو کا بنیادی مقصد موجودہ واقعات اور حادثات کی جدید اور مستند معلومات کا حصول ہوتا ہے۔ نیوز انٹرویو میں اکثر سوالات کا تعلق، تازہ خبروں اور جاری واقعات سے ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف، زبانی تاریخ کے انٹرویو کا بنیادی مقصد تاریخی نقطہ نظر سے راوی کی یادوں، مشاہدات، تجربات اور شواہد کو ریکارڈ کرنا ہوتا ہے۔ اس قسم کے انٹرویو میں عام طور راوی کے ماضی، تاریخی واقعات اور ذاتی تجربات کے متعلق سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، پلاسکو کے حادثے کے وقت جب رپورٹر، ذمہ داران سے انٹرویو لے رہے تھے، تو ان کا مقصد، زخمیوں کی صورتحال اور آگ بجھانے میں لگنے والے وقت جیسی معلومات کا حصول تھا، لیکن زبانی تاریخ کا انٹرویور، پلاسکو کے حادثے کے کئی سال گزرنے کے بعد اس وقت کے ذمہ داران سے گفتگو کرتا ہے تو وہ اس حادثے کی وجوہات و اسباب اور تہران کے معاشرے اور پلاسکو یونین کے کارکنوں پر اس کے اثرات اور اس کے ساتھ فائر فائٹر عملے کی زبانی، ان کہی تفصیلات کو سامنے لانے کی کوشش کرے گا۔

 

2 ۔ شیڈیولنگ اور وقت کا محدود ہونا:

جیسا کہ اشارہ ہوا، نیوز انٹرویو عام طور پر واقعے کے نزدیک وقت میں انجام دیا جاتا ہے۔ عجلت کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ انٹرویور کو وقت کی قلت ہو اور وہ خبر کی ترجیح اور اہمیت کی بنا پر سوالات پوچھے لیکن زبانی تاریخ کے انٹرویو میں، وقت کی قلت بہت کم ہی ہوتی ہے اور یہ انٹرویوز، راوی سے درست اور جامع شواہد ریکارڈ کرنے کی خاطر، لیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر کسی واقعے کو کچھ دن گزر جائیں اور وہ اپنی تازگی کھو دے تو پھر اس میں خبری مکالمے کے لیے کوئی کشش باقی نہیں رہتی لیکن زبانی تاریخ کے ایک انٹرویور کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں ہوتی اور جب تک راوی زندہ ہیں وقت کی گنجائش موجود رہتی ہے۔

 

3 ۔ سوالات پوچھنے کا طریقۂ کار:

ایک نیوز انٹرویو میں عام طور پر واقعات سے متعلق اور سیدھے سوالات پوچھے جاتے ہیں اور رپورٹر کا مقصد، سامعین کے عمومی سوالوں کا جواب دینا ہوتا ہے۔ زبانی تاریخ کے انٹرویو میں عام طور پر سوالات، تاریخی اور ذاتی یادوں کو سامنے لانے کے لیے پوچھے جاتے ہیں اور ممکن ہے کہ سوالات، آزاد اور وسیع ہوں۔ زبانی تاریخ کے انٹرویو میں سوال پوچھنے کا انداز، راوی کی یادوں، تجربات اور ذاتی نقطۂ نظر پر مرکوز ہوتا ہے۔

 

4 ۔ ذرائع کا استعمال:

صحافی معلومات اکٹھا کرنے کے لیے مختلف ذرائع جیسے: سرکاری دستاویزات، کتابوں اور انٹرنیٹ ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ زبانی تاریخ کے انٹرویو میں بھی بعض جگہوں پر دستاویزات اور تاریخی ذرائع کو بطور حوالہ استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن معلومات کا بنیادی ذریعہ، راوی کی یادیں اور ذاتی تجربات ہوتے ہیں اور در حقیقت، راوی کے بیانات خود ایک طرح کا دستاویز ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، زبانی تاریخ کا انٹرویور، ایک راوی سے گفتگو شروع کرنے کے لیے راوی سے متعلق، مختلف دستاویزات کی طرف رجوع کرتا ہے لیکن بیچ میں ہوسکتا ہے کہ انٹرویور راوی کے بیانات یا راوی کے پاس موجود دستاویزات جیسے تصویر، آڈیو یا ویڈیو یا نوٹس کی وجہ سے تیار کردہ سوالات میں تبدیلی لے آئے۔

 

5 ۔ انٹرویو سے مستفید ہونے کا طریقہ:

نیوز انٹرویوز، تحریری اور ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے شائع کیے جاتے ہیں اور مضامین، خبرناموں، ریڈیو اور ٹیلیویژن پروگرامز کے ذریعے سامعین تک پہنچائے جاتے ہیں لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ کبھی کبھار نیوز انٹرویوز کی تاریخ تنسیخ ہوتی ہے اور ان میں سے صرف تاریخی پس منظر رکھنے والے نیوز انٹرویوز کا مطالعہ، محققین اور اہل علم کے لیے مفید ہوتا ہے۔ زبانی تاریخ کے انٹرویوز بھی عام طور پر کتاب، مضامین اور دستاویزی فلموں کی صورت میں محفوظ کیے جاتے ہیں، اس فرق کے ساتھ زبانی تاریخ کے انٹرویوز کی تاریخ تنسیخ نہیں ہوتی۔ اس لحاظ سے زبانی تاریخ کے انٹرویوز زیادہ پائیدار ہوتے ہیں۔

ان اختلافات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نیوز انٹرویو اور زبانی تاریخ کے انٹرویو، مقصد، مواد، وقت کی محدودیت اور یہاں تک کہ ریکارڈنگ اور سوالات کے طریقۂ کار کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود، دونوں قسم کے انٹرویوز میں پیشگی مطالعہ اور اچھی تیاری بہت ضروری ہے اور راوی اور انٹرویو دینے والے کے ساتھ ایک مؤثر رابطہ قائم کرنا، ایک بنیادی اصول ہے۔

 



 
صارفین کی تعداد: 96


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

آپریشن ’’مطلع الفجر‘‘

راوی: مولاداد رشیدی
دشمن اس علاقے کی عسکری اہمیت کو جانتا تھا اور ایک بڑی شکست جس کے نتیجے میں اسے سرپل ذہاب اور مغربی گیلان جیسے بڑے علاقے سے پیچھے ہٹنا پڑتا، سے بچنے کے لیے اس نے اپنی پوری طاقت لگادی تھی۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔