مہدی فرہودی کی یادوں کا ٹکڑا

کامیابی کے بعد

میں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ میں، ساواک کے سابقہ دفتر گیا اور  ڈاکٹر نژاد حسینیان، مجید حداد عادل، علیرضا محسنی، علی عزیزی، حاجی کاظم، معیری صاحب اور دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ہم نے اس جگہ کو اپنی تحویل میں لے لیا۔

پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 45

احمدیان صاحب کے بعد مفتی زادہ صاحب نے ’معاشرے کو بعثت انبیاء اور رسولوں کے منصوبوں کی ضرورت‘ کے عنوان سے اپنی گفتگو کا آغاز کیا اور بالکل واضح طور پر طاغوت، شیخ اور پہلوی حکومت پر حملہ کردیا اور موجودہ دور میں طریقت اور تصوف کو شاہ کی آمریت کی خدمت قرار دے دیا۔

’’زبانی تاریخ کے آثار کے مالی اور اخلاقی حقوق‘‘ کے سلسلۂ گفتگو کا ایک جائزہ

راوی کے حقوق کو نظر انداز کرنے سے متن میں ذوق سے کام لینے تک

عام طور پر، زبانی تاریخ کے آثار کی مالی اور اخلاقی ملکیت کا معاملہ، مرغی اور انڈے کے معاملے جیسا ہے! پبلشر سمجھتا ہے کہ اگر وہ نہ ہوتا تو کتاب، شائع ہی نہ ہوتی۔

پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 44

اس کے رویے سے میں پریشان ہوگیا اور میں نے فوراً جواب دیا: ’’مصر!‘‘ کیونکہ اس خاتون کے پاس آنے والے زیادہ تر لوگ، غیر ملکی یونیورسٹیز کے گریجویٹس تھے۔ پھر انہوں نے مزید پوچھا: ’’یعنی آپ نے مصر میں تعلیم حاصل کی ہے اور حوزۂ علمیہ سنندج نے اس کی تصدیق کی ہے؟‘‘

زبانی تاریخ کے کام اور درپیش مشکلات۔3

پرائیویسی

زبانی تاریخ کی سائٹ نے یادوں یا زبانی تاریخ کے کاموں کی تیاری کے حوالے سے مشکلات اور چیلنجز سے مزید آگاہی کے لیے اس شعبے کے بعض ماہرین اور کارکنوں کے ساتھ گفتگو کی ہے جسے مختصر نوٹس کی صورت میں سامعین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔

فتح اللہ جعفری کی روایت

22 ستمبر 1980(31 شھریور1359)، مسلط کردہ جنگ کا آغاز

اگرچہ دویرج سے گزرنے میں دشمن کو ڈر تھا اور اسے احتیاط کرنی پڑی لیکن عراقی بعث فوج نے چم سری کی سرحدی چیک پوسٹ پر قبضے کے بعد دریائے دویرج کے مشرقی بلند مقامات پر کنٹرول حاصل کرلیا تھا۔

پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 43

عید کے دن، میں نے لوگوں کو عید الاضحیٰ کی نماز پڑھائی۔ موسم بہت ٹھنڈا تھا اور میں ہیٹر کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ ہیٹر کے آس پاس سیمنٹ کا فرش تھا اور کارپٹ نہیں تھا۔ گاؤں کے ایک باسی نے جسکا لقب [۔۔۔] تھا ایک خاص غرور کے ساتھ دو میٹر کی دوری سے ایک تومان کے دو سکے آہستہ سے میری طرف اچھالے جو ہیٹر کے پاس زمین پر گرے اور ان کی آواز آئی۔ جب سکے گر گئے تو اس نے تکبر والے لہجے میں مجھ سے کہا: ’’ماموستا، ایک تومان میری طرف سے اور ایک تومان میرے بھائی کی طرف سے ہے۔‘‘

زبانی تاریخ اور فن کے رابطے پر ایک گہری نظر(آخری حصہ)

فن پارے میں توازن

کیا زبانی تاریخ کو بھی اپنے تمام اجزاء میں توازن، تناسب اور ہم آہنگی کی ضرورت ہے؟ اس قسم کے فن پاروں میں کس طرح توازن پیدا کیا جاتا ہے؟ بنیادی طور پر، زبانی تاریخ میں توازن کی کیا خصوصیات ہیں؟

کتاب کا ایک مختصر جائزہ

’’دیوار کے اس پار (آن سوی دیوار)‘‘

حبیب اللہ بیطرف کی زبانی ’امریکی سفارتخانے پر قبضہ‘

یونیورسٹی طلباء نے اس کام کے لیے بہت سی ملاقاتیں رکھیں اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مختلف وجوہات کی بنا پر امریکی سفارتخانے پر قبضے کے لیے بہترین وقت، 4 نومبر(13 آبان) ہے۔

زبانی تاریخ کے فوائد

زبانی تاریخ کا ایک اور فائدہ، واقعات کو شفاف بنانا اور تاریخ کی تحریف کے امکان کو کم کرنا ہے۔ اس بات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کہ تحریری تاریخ، بنیادی طور پر مؤرخین کے مخصوص گروہ کی طرف سے لکھی جاتی ہے اور واقعات کو طویل عرصہ گزر جانے کے بعد لکھی جاتی ہے، واقعات کی تبدیلی اور تحریف کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 42

میں نے ان سے عرض کیا: ’’جناب ماموستا پہلے بات تو یہ ہے کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ نہ میں شاہ ہوں اور نہ جناب عالی بادشاہ۔ حقیر ہرگز آپ کے لیے کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کرسکتا۔ میں آپ کا طالب علم ہوں اور مہمان بھی۔ اگر آپ مجھ سے ناراض ہیں تو میں کل ہی گاؤں چھوڑ کر جانے کو تیار ہوں۔‘‘

12 فروری 1979 کو انقلاب اسلامی کمیٹی کی تشکیل کے متعلق(23 بھمن 1357)

اکبر براتی کی یادوں کا ٹکڑا

کہیں کہیں مساجد کی شوریٰ کو سیکیورٹی کے لئے آئے جوانوں سے مشکلات اور اختلاف رائے ہوتا تھا۔ انہیں مسجد میں میٹنگز کرکے ان مشکلات کو حل کرنا ہوتا تھا۔ کبھی کبھار ضروری ہوجاتا تھا کہ وہ مرکزی کمیٹی کے پاس واپس جائیں اور مشورہ کرکے آیت اللہ مہدوی کنی سے رائے لیں یا انہیں اختیار دیا جاتا تھا کہ وہ لوگ خود فیصلہ لیں۔ حقیر بھی اپنی پہلی باضابطہ سرگرمی کے لحاظ سے مرکزی کمیٹی میں نگرانی کے شعبے میں تھا۔
 
مہدی فرہودی کی یادوں کا ٹکڑا

کامیابی کے بعد

میں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ میں، ساواک کے سابقہ دفتر گیا اور  ڈاکٹر نژاد حسینیان، مجید حداد عادل، علیرضا محسنی، علی عزیزی، حاجی کاظم، معیری صاحب اور دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ہم نے اس جگہ کو اپنی تحویل میں لے لیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔