’’جب میں دوسری بار گھر لوٹا تو حامد بڑا ہوچکا تھا اور بیٹھنے لگا تھا۔ تیسری بار وہ گھٹنیوں چلنا سیکھ رہا تھا۔ آخری بار جب میں جنوب اور سنندج سے واپس آیا تو حامد باآسانی گھٹنیوں چل رہا تھا۔ جب میں اس کے پاس گیا تو وہ مجھ سے دور بھاگ گیا۔
میں جو کچھ لکھ رہا ہوں وہ کچھ قالینوں،لالٹینوں، کھانے کے برتنوں، لباس اور بنیادی ضروریات کی اشیاء کی فہرست ہے جو ہم نے شادگان میں بے گھر ہونے والے لوگوں کے لیے تیار کی ہے، لیکن چونکہ سڑکوں پر عراقی فوج کا قبضہ ہے اس لیے ہمیں آبادان اور سد بندر کے پاس سے ہوتے ہوئے کافی لمبا راستہ طے کر کے وہاں پہونچنا ہوتا ہے
افسران، جیل کے محافظوں، اور کیمپ کے اہلکاروں نے جو چاہا وہ ان قیدیوں کے ساتھ سلوک کیا اوریہ لوگ کسی اصول، قانون یا بین الاقوامی ضابطے کے پابند نہیں تھے۔
اور کتاب تفسیر المیزان کی تو آپ بات ہی نہ کریں ، جتنی بڑی گالیاں اس کتاب اور اس کے مصنف کو دے سکتے تھے دیتے تھے ، اس کتاب میں سے کوئی بھی بات پکڑ لیتے اور تنقید کرتے ہوئے کہتے کہ یہ شخص بھلا مفسر ہے؟! ایک مفسر بھلا ایسی گھسی پٹی بات کر سکتا ہے؟! مختصر یہ کہ انہوں نے جوانوں کو ان کتابوں کے خلاف اکسانے کا بیڑا اٹھایا ہوا تھا۔ وہ کسی کو یہ کتابیں پڑھنے کی بالکل اجازت نہیں دیتے تھے
انہوں نے منطقی بات کی اور کہا کہ"اس صورتحال اور اس قسم کی خبروں سے ہم یہاں صحیح فیصلہ نہیں کرسکتے، ہم دوسرے ملک میں ہیں،یہاں اجنبی ہیں، جو فیصلہ بھی طے ہوگا سب مل کر ہی اس پر عمل درآمد کریں گے"۔
واعظ نے جب خود کو اس حالت میں پایا تو بلند آواز میں کہا: "اے مسلمانو! جو دور و نزدیک سے اس مقدس شہر میں آئے ہو، جب اپنے شہر واپس جاؤ تو لوگوں کو بتانا کہ اب ہمیں امام جعفر صادقؑ کے مذہب کے سربراہ کی مصیبت بیان کرنے کی بھی اجازت نہیں!"
ایک ماہ کے دوران، جب یہ پل کارون پر موجود تھا، روزانہ عراقی طیارے بمباری کے لیے آتے اور اسے تباہ کرنے کی کوشش کرتے؛ اس بات سے بے خبر کہ ہم صرف رات کو پل استعمال کرتے تھے۔ جب دن نکلتا، ہم پل کو بکسل کیبل سے اپنے کنارے کھینچ لیتے اور کارون کے گھنے نباتاتی پردے میں چھپا دیتے۔ اس طرح، پورے آپریشن کے دوران، عراقی پل کو نقصان نہ پہنچا سکے۔
میں (اکبر براتی) بھی اپنی پہلی سرکاری سرگرمی کے طور پر مرکزی کمیٹی کے بازرسی شعبے کا رکن تھا۔ کچھ افراد کو تہران میں کام سونپا گیا، کچھ کو دیگر صوبوں میں بھیجا گیا تاکہ وہاں کمیٹیوں کی تشکیل میں مدد کریں۔ کچھ افراد کو مرکزی کمیٹی میں ہی ذمہ داریاں دی گئیں
جنگ، اب صرف دستی بموں کی جنگ بن چکی تھی۔ وہ پھینکتے، ہم پھینکتے۔ صبح کے وقت، گولہ باری اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے عراقیوں نے قسم کھا لی ہو کہ جو کچھ بھی ان کے پاس ہے، ہم پر اور اس پہاڑی پر نچھاور کر دیں گے۔
اپنے دیگر ساتھیوں کی طرح وہ بھی طھران کا پتہ پوچھ رہا تھا۔ جیسے ہی ہماری نظریں ادھر ہوئیں اس نے اندھیرے میں دوڑنا شروع کردیا اور علی دنیا دیدہ کا برسٹ اسکا پیچھا کرنے لگا۔
دوستوں نے تجویز دی کہ مسجد کے ہال کے مردانہ حصے سے خواتین کی طرف جاکر اپنا عبا عمامہ وغیرہ اتاروں اور کوٹ پینٹ پہن کر باہر نکل جاؤں اور وہ مجھے خواتین والے حصے سے ہی باہر نکالنا چاہ رہے تھے تاکہ مجھے گرفتار نہ کیا جاسکے۔
میں جو کچھ لکھ رہا ہوں وہ کچھ قالینوں،لالٹینوں، کھانے کے برتنوں، لباس اور بنیادی ضروریات کی اشیاء کی فہرست ہے جو ہم نے شادگان میں بے گھر ہونے والے لوگوں کے لیے تیار کی ہے، لیکن چونکہ سڑکوں پر عراقی فوج کا قبضہ ہے اس لیے ہمیں آبادان اور سد بندر کے پاس سے ہوتے ہوئے کافی لمبا راستہ طے کر کے وہاں پہونچنا ہوتا ہے
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔