جہد مسلسل کا مثالی نمونہ آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی
سلام علی ابراہیم
آج اسلامی جمہوریہ ایران عالمی ظالمانہ سسٹم کے خلاف دنیا بھر کے مظلوم عوام کی حقیقی آواز بن چکا ہے جن کا تعلق چاہے کسی بھی رنگ و نسل اور مذہب سے ہو۔ مظبوط علمی اور سیاسی شخصیت اور شجاعانہ اقدامات آیت اللہ ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی کا وہ خاصہ ہے جو ایک عالمی لیڈر میں بہت ہی کم نظر آتی ہے۔ایک شام بیتی یادوں کے نام
صحت و سلامتی کے محافظ
رہبر معظم نے آپ کا شکریہ ادا کیا ہے اور ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ: "ہم ان ڈاکٹر اور نرسنگ اسٹاف کے افراد کے نہایت شکر گزار ہیں جو ان کٹھن ایام میں خدمات سر انجام دے رہے ہیںبیتی یادوں کی شب" کے عنوان سے تین سو چونتیسواں پروگرام-3
سورج غروب ہو چکا تھا۔ میرے ہاتھوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ اگلے دس دنوں تک ایک ہاتھ اوپر کرنے کے لیے دوسرے ہاتھ سے سہارا دینا پڑتا تھا اور پھر واپس بہت آرام سے نیچے آتا تھا اور جو ہاتھ زخمی تھا اس کو دوبارہ واپس لانے سے تو چیخیں نکلتی تھیںبیتی یادوں کی شب" کے عنوان سے تین سو چونتیسواں پروگرام-2
چھے دن کے بعد ہمیں الرشید چھاؤنی لے گئے۔ وہیں پہ آقا حیدری اور آقاے کامبیز کمال وند بھی آگئے، ان کو دیکھ کر ہماری جان میں جان آگئی۔ در اصل ہماری بچپن کی دوستی اور محلہ داری بھی تھیبیتی یادوں کی شب" کے عنوان سے تین سو چونتیسواں پروگرام-4
عقوبہ میں آخری ایام میں انفرادی قید خانوں سے بھی آوازیں آنے لگیں کہ: ہمیں نہ بھلانا، ہم یہاں قید میں ہیں، کوئی پائلٹ ہے تو کوئی اعلی آفیسر۔۔۔، یہ ساٹھ لوگ تھے جو ہماری رہائی پر خوشی اور امید کی سی کیفیت میں تھے۔بیتی یادوں کی شب" کے عنوان سے تین سو چونتیسواں پروگرام-1
اس وقت قید نئی نئی شروع ہوئی تھی اور پتہ بھی نہیں تھا کہ کب رہا ہوں گے تو ایسے حالات میں اس تلاوت کی برکت سے ہماری بے چینی ایک سرور اور سکون میں بدل جاتی تھی اور یوں سختی کا وہ زمانہ گزارنا بہت آسان ہوجاتا تھا"بیتی یادوں کی شب" کے عنوان سے تین سو چونتیسواں پروگرام-1
ہم نے سید احمد سے پوچھا: "چھاؤنی میں تو پانی نہیں تھا، تم کہاں سے لے آئے؟"۔ کہنے لگا: " سچ پوچھو تو ان قیدیوں کی حالت مجھ سے دیکھی نہ گئی۔ یہ پانی میں دفتر کے واٹر کولر سے نکال کر لایا ہوں"۔ آپ یقین کریں وہ آدھا گلاس پانی ہمارے لیے اس قدر با برکت تھا کہ اس نے ہمیں اس گرمی میں نجات دی اور پانی پینے کے بعد سب کی حالت بہتر ہوگئی۔325ویں یادوں بھری رات (پہلا حصہ)
سرحدی محافظ۔ ۔ ۲
ہم کافی عرصہ فاو میں رہے وہاں ہمارےساتھ شاہرود کا ایک نوجوان بھی تھی۔ واقعی بڑا ہی چنچل تھا۔ مجھ سے کہا ہم چاہتے ہیں اڑ جائیں میں سمجھا یہ فرار کرنا چاہتا ہے۔ میں نے کہا میں تمہیں نہیں جانے دونگا۔ تمہیں یہیں رہنا پڑے گا۔ اس نے کہا: اگر تم اڑنا نہیں چاہتے تو نہ اڑو یہاں بیٹھو اور مورچہ صاف کرو325ویں یادوں بھری رات (پہلا حصہ)
سرحدی محافظ۔۱
یادوں بھری رات کا ۳۲۵واں پروگرام مورخہ ۲۴ جون ۲۰۲۱ کو حوزہ ہنری میں منعقد ہوا جس کی میزبانی داؤد صالحی نے کی۔ اس پروگرام کا موضوع ’’ سرحدی محافظ‘‘ تھا۔ اس پروگرام میں بریگیڈئیر جنرل جلال ستارہ صاحب، کرنل ابوالقاسم خاتمی اور ناجا کے ثقافتی مشیر علی کاظم حسنی نے شرکت کی اور اپنے تاثرات اور تجربات بیان کئے۳۲۵ ویں یادوں بھری رات حصہ دوم
سرحدی رجمنٹ میر جاوہ میں مجلس عزا کی یادیں
یادوں بھری رات کا ۳۲۵واں پروگرام بروزجمعرات ۲۴ جون ۲۰۲۱ء حوزہ ہنری کے صحن میں منعقد ہوا۔ اس کی میزبانی کے فرائض محترم داؤد صالحی نے انجام دئیے۔ اس پروگرام کا موضوع، فوج کے سرحدی محافظ تھا۔ اس پروگرام میں بریگیڈئیر جنرل جلال ستارہ صاحب، کرنل ابوالقاسم خاتمی اور ناجا کے ثقافتی مشیر علی کاظم حسنی نے شرکت کی اور اپنے تاثرات اور تجربات بیان کئے۔1
...
گذشتہ مطالب
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
فاو کے اسپتال کے میل نرس
راوی نے 1989(1368) میں شادی کی اور اس وقت وہ بیرجند میں امام رضا(ع) اسپتال میں ہیڈ نرس تھے. وہ اپنی ریٹائرمنٹ(سن2017 یا 1396) تک بیرجند کے رازی اسپتال میں خدمات انجام دیتے رہے. وہ اس وقت بیرجند یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کے ریٹائرڈ افراد کےمرکز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز(هیئت مدیره کانون بازنشستگان دانشگاه علوم پزشکی بیرجند) کا حصہ ہیں.حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے
"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام