انقلاب کے دوران فیروزآباد کے کوروش سینما کی تباہی(حصہ اول)
تین حکایات اور چار یادوں کے مطابق
جعفر گلشن روغنی
ترجمہ: ضمیر علی رضوی
2025-4-29
سینما گھر مختلف قسم کی ایرانی اور غیر ملکی فلمیں جن میں عام طور پر ناچ گانا اور غیر اخلاقی مناظر ہوتے تھے، دکھا کر پہلویوں کی مقصودہ ثقافت کی اشاعت و ترویج میں اہم کردار ادا کر رہے تھے۔ ان میں سے اکثر فلموں کی نمائش، شہر نشین اور مذہبی فکر رکھنے والے افراد کی مذہبی ثقافت اور معاشرے کے ماحول سے متصادم تھی۔ پہلوی حکومت کے انقلابی مخالفین اور اس سے لڑنے والوں میں یہ جذبہ پیدا ہوگیا کہ پہلویوں کے ان زہریلے ثقافتی مراکز کو ہر ممکن طریقے سے تباہ کرکے مٹانا ہوگا جو مخاطبین کو ناجائز دنیوی خواہشات اور لذتوں کی پیروی کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ اس طرح سینما گھروں کو آگ لگانا یا اس کی کھڑکیاں شیشے توڑنا اور ان کے اندر توڑ پھوڑ بھی کچھ انقلابیوں کی سرگرمیوں کی فہرست میں شامل ہوگیا تھا۔ شہر فیروزآباد، صوبۂ فارس کے ان شہروں میں شامل تھا کہ جہاں سینما گھر موجود تھا، وہاں کے مذہبی اور انقلابی جوان، کوروش سینما کے نام سے مزید ان سرگرمیوں کو برداشت نہیں کر پائے اور اسی لیے انہوں نے اسے آگ لگانے کا فیصلہ کرلیا۔ البتہ وہ لوگ محتاط اور چوکس تھے کہ اس کام کو کسی بھی حال میں تماشائیوں کی موجودگی میں انجام نہ دیا جائے کہ کہیں کوئی ہلاک یا زخمی نہ ہوجائے اور پہلوی حکومت، اسے انقلابیوں اور مخالفین کے خلاف ایک حربے کی طرح استعمال نہ کرے۔ 8 ستمبر 1978(17 شہریور 1357) کے واقعے میں تہران کی عوام کے قتل عام کے بعد، حکومت، اس کے کارندوں اور انقلابیوں کی لڑائی اب آشکار ہوچکی تھی۔ مختلف شہروں میں مارچز اور احتجاجی مظاہرے ہونے لگے۔ پہلے کی طرح لوگ، حکومت کی علی الاعلان اور آشکار طور پر مخالفت سے ڈرتے یا گھبراتے نہیں تھے بلکہ حالات ایسے ہوچکے تھے کہ لوگوں میں گرفتاری اور نظربندی کا خوف بھی بہت کم ہو چکا تھا اور لوگ ہر موقع پر علی الاعلان مخالفت کرتے تھے۔ فیروزآباد شہر کے متعلق، ساواک کی رپورٹ کے مطابق وہاں کے باسی بھی دوسرے شہروں کی طرح آہستہ آہستہ متحرک ہونے لگے تھے اور انہوں نے علی الاعلان احتجاج اور مارچز شروع کردیے تھے۔ ساواک شہر لار، کازرون، آبادہ اور جہرم کی طرح صوبۂ فارس کے شہروں کے متعلق اپنی 4 ستمبر(13 شہریور) کی رپورٹ میں لکھتی ہے: ’’دوسرے شہروں جیسے نی ریز، داراب اور فیروزآباد میں پرامن احتجاج ہوئے ہیں۔‘‘[1] تین دن بعد بھی ’’کازرون شہر کے علاوہ کہ جہاں بازاروں کی دکانیں اور شہر کی سڑکیں 7/9/1978(16/6/1357) کی صبح سے بند ہیں، شیراز اور صوبۂ فارس کے دوسرے شہروں(جیسے فیروزآباد) میں دکانیں کھلی ہیں اور زندگی معمول کے مطابق ہے۔‘‘[2] 10 ستمبر(19 شہریور) کو خبر دی گئی کہ شیراز، کازرون، جہرم اور لار کے علاوہ ’’صوبۂ فارس کے دوسرے شہروں میں اکثر دکانیں کھلی ہوئی ہیں اور زندگی معمول کے مطابق ہے‘‘۔[3] 11 ستمبر(20 شہریور) کو جہرم کے علاوہ ’’اکثر دکانیں کھلی ہیں۔‘‘[4] 13 ستمبر(22 شہریور) کو ’’دکانیں کھلی ہیں اور زندگی معمول پر ہے‘‘[5] اور 18 ستمبر(27 شہریور) کو بھی ایسی ہی صورتحال تھی۔[6]
فیروز آباد شہر میں بغیر کسی بڑے احتجاج کے پرسکون حالات اسی طرح چلتے رہے یہاں تک کہ 1 اکتوبر 1978(9 مھر 1357) کو عوام نے احتجاج شروع کردیا۔ ’’1 اکتوبر 1978(9 مھر 1357) کو رات 8 بجے مذہبی طبقے کے قریب 600 افراد نے صوبۂ فارس کے فیروزآباد شہر کی سڑکوں پر مارچ شروع کردیا ہے اور روح اللہ خمینی کی حمایت میں نعرے بازی کی ہے۔ مذکورہ شہر میں کچھ مظاہرین نے ایک شراب کی دکان کے شیشے بھی توڑ دیے ہیں جنہیں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے منتشر کردیا ہے۔‘‘[7] آگے فیروزآباد کی پولیس نے رپورٹ پیش کی ہے کہ: ’’8 اکتوبر(16 مھر) کو ’’کلاسوں میں اساتذہ کے حاضر نہ ہونے کی وجہ سے کچھ بوائز سیکنڈری اسکولوں میں صورتحال کشیدہ ہے اور کچھ اسکولوں میں کہ جن میں وزارت تعلیم کے ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر نے تقریریں کی ہیں، صورتحال پہلے سے زیادہ کشیدہ ہے اور پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں سے نکلتے وقت طلباء نے (آیت اللہ)خمینی کے حق میں نعرے بازی کی ہے کہ جنہیں پولیس اہلکاروں اور جینڈرمیری کی مددگار فورس نے طلباء کو منتشر کردیا ہے اور کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔‘‘[8] اس کے تین دن بعد گورنر ہاؤس، جوانوں کے احتجاج کو کچھ یوں بیان کیا: ’’صبح 09:30 بجے فیروزآباد کے کچھ جوان اس شہر کی مرکزی سڑک پر (آیت اللہ) خمینی کے حق میں نعرے بازی کر رہے تھے، پولیس کو دیکھتے ہی انہوں نے پولیس موبائل پر پتھراؤ کردیا جس کے نتیجے میں پولیس موبائل کی ایک لائٹ ٹوٹ گئی اور پولیس نے کاروائی کرتے ہوئے مظاہرین کو منتشر اور دو اشتعال انگیزوں کو گرفتار کرلیا ہے۔‘‘[9] صوبائی پولیس نے مزید رپورٹ دی: ’’ 16۔10۔1978(24۔07۔1357) کو شام 07:15 بجے فیروزآباد کے کچھ طلباء کہ جن کا اشتعال انگیز، ادبیات کا استاد عبد العزیز شبان بتایا گیا ہے، نے صادرات بینک، رستاخیز پارٹی کے بورڈز اور ملی بینک کے شیشے توڑے ہیں۔‘‘[10] دو دن بعد 18 اکتوبر(26 مھر) کو رات کے وقت، ہادی احمدی ولد اسماعیل اور نادر احمدی ولد ہادی سپہ بینک کے ملازم[جو شاید باپ بیٹے تھے] نے فیروزآباد پولیس آفیسر، سیکنڈ سارجنٹ نصر اللہ نخعی کے گھر کے سامنے ان کی پیکان گاڑی کو نذر آتش کردیا اور جس کے نتیجے میں انہیں گرفتار کرلیا گیا ہے۔[11] اس کے بعد صوبۂ فارس کے دیگر شہروں جیسے جہرم، کازرون اور فسا میں بھی پولیس اور فوج کی گاڑیوں کو نذر آتش کرنے کے واقعات سامنے آئے۔[12]
کچھ طلباء کے ہاتھوں، کوروش سینما گھر کو نذر آتش کیے جانے کا واقعہ بھی انہی دنوں رونما ہونے واقعات میں شامل تھا اور یہ واقعہ پہلوی حکومت کے خلاف تحریکوں کو تیز کرنے میں اس حد تک مؤثر ثابت ہوا کہ شہریوں میں جنوری 1979(بھمن 1357) کے دوران فیروز آباد میں ساواک کی عمارتوں، پولیس ہیڈکوارٹر اور گورنر ہاؤس پر حملہ کرنے کی جرأت آگئی اور انہوں نے انقلاب کی فتح سے پہلے ہی ان جگہوں کو قبضے میں لے لیا۔
فیروز آباد کے کوروش سینما گھر میں آگ لگنے کے حوالے سے تین بیانات موجود ہیں: پہلا بیان اس واقعے کے حوالے سے صوبۂ فارس کے پولیس ڈیپارٹمنٹ کی مختصر رپورٹ اور ساواک کی ضمنی رپورٹ سے متعلق ہے۔ دوسرا بیان ’کیھان‘ اخبار میں شائع ہونے والی ایک چھوٹی سی خبر سے متعلق ہے اور تیسرا بیان، چار شہریوں کی یادوں سے متعلق ہے کہ جن میں سے ایک شخص، سینما گھر کو نذر آتش کرنے والوں میں شامل تھا۔ لہٰذا تاریخی لحاظ سے یہ قابل غور واقعہ ہے کیونکہ اس کے متعلق دونوں طرح کے بیانات سامنے آئے ہیں، ایک طرف سے حکومت کے کارندوں نے اس کے بارے میں بات کی ہے اور دوسری طرف سے حکومت کے مخالفین نے۔ پہلے بیان کہ جس میں پولیس ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ پر شیراز کے گورنر میجر جنرل اسفندیاری کے دستخط موجود ہیں جس میں بتایا گیا ہے: ’’فارس کے پولیس ڈیپارٹمنٹ کے مطابق فیروزآباد کا کوروش سینما جو کچھ عرصے سے بند تھا، اسے 24 اکتوبر(2 آبان) رات 10 بجے نذر آتش کیا گیا، تین افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور تقریبا تین ملین ریال کا نقصان ہوا ہے۔‘‘[13] ساواک، چند دن بعد تیار ہونے والی اپنی ضمنی رپورٹ میں سینما گھر کو نذر آتش کرنے والوں کے بارے میں یوں لکھتی ہے: ’’سعید عبنری اور اس کا بڑا بھائی، جو ’ششم بہمن‘ سیکنڈری اسکول کے طالب علم ہیں، انہوں نے کچھ عرصہ قم میں طالب علم رہنے والے اور گزشتہ ستمبر فیروزآباد میں میٹرک کرنے والے جعفر کتیرائی کے ساتھ، جواد امیرسالاری ولد عبد الحسن، ادبیات کے استاد عزیز شبان، پردے کی دکان کے مالک شاہپور رضائی، فیروزآباد کی زرعی کمپنی کے ٹیکنیشن نور الدین، بظاہر مذہبی لیکن درحقیقت کمیونسٹی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں اور یہ لوگ سرکاری عمارتوں کو نذر آتش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور کوروش سینما کو بھی انہی لوگوں اور ان کے ساتھیوں نے نذر آتش کیا ہے۔ 26 اکتوبر 1978(4 آبان 1357) کو صبح 09:45 بجے مذکورہ افراد سڑکوں پر پھر رہے تھے اور طالب علموں، دوسرے بدمعاش اور آوارہ جوانوں کو احتجاجی مظاہرے پر اکسا رہے تھے اور اسی دن قریب 12 بجے ان لوگوں نے رساخیز پارٹی کے آفس کی سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکار سے بلا وجہ لڑائی کی اور لوگوں کے بیچ بچاؤ سے فریقین الگ ہوگئے۔ ان مظاہروں کو شروع کرنے والا شخص، منوچہر حیدری ہے کہ جسے سپاہ دانش کے ایک اہلکار مسیح اصلاحی کے ساتھ کئی بار دیکھا گیا ہے جو 28 اکتوبر 1978(6 آبان 1357) کو مظاہرے کے دوران گولی لگنے سے زخمی ہوا تھا اور مذکورہ افراد بھی حیدری کے کارندے ہیں۔‘‘[14] ساواک کی ضمنی رپورٹ کے حوالے سے یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ اس رپورٹ میں سینما گھر کو نذر آتش کرنے والوں کے افکار اور مقاصد میں تضاد دکھائی دیتا ہے جیسے کہ کتیرائی کو پہلے قم کا طالب علم کہا گیا اور پھر اس کی سرگرمیوں کو بظاہر مذہبی لیکن اصل میں کمیونسٹی بتایا گیا۔ وہ بات جسے پہلوی دور میں مذہبی جدوجہد کرنے والوں کی کردار کشی کے لیے بہت زیادہ استعمال کیا جاتا تھا یہاں تک کہ ان لوگوں کے لیے ’’اسلامی مارکسسٹ‘‘ جیسی متضاد اصطلاح بھی وضع کی گئی اور اسے فروغ دیا گیا اور محمد رضا پہلوی بھی اس اصطلاح کو اپنے مخالفین کی کردار کشی کے لیے استعمال کرتا تھا۔
دوسرا بیان، واقعے کے اگلے دن فیروزآباد کے ’کیہان‘ اخبار میں شائع ہونے والی ایک چھوٹی سی خبر ہے: ’’فیروزآباد کا کوروش سینما جو مارچ(فروردین) سے بند ہے، گزشتہ رات اسے پٹرول چھڑک کر نذر آتش کردیا گیا اور آگ لگانے والے خود بھی اس آگ میں جھلس کر زخمی ہوگئے۔‘‘[15] یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان دنوں کیہان اخبار، ان اخباروں میں شمار ہوتا تھا جو احتجاجوں، مخالفتوں اور ہڑتالوں یعنی انقلاب سے متعلق واقعات کی خبریں شائع کرتا تھا اور سب سے زیادہ پڑھا جانے والا اخبار سمجھا جاتا تھا حالانکہ اسے سرکاری اخبار سمجھا جاتا تھا۔ اس اخبار کی اہمیت کے حوالے سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ 5 جون 1963(15 خرداد 1342) کو امام خمینی (رہ) کی گرفتاری اور ان کی تصویر شائع ہونے کے بعد حکومت نے پریس میں ان کی تصویر شائع کرنے پر پابندی عائد کردی تھی یہاں تک کہ 15 سال بعد، کیہان اخبار، امام خمینی(رہ) کی تصویر شائع کرنے کی پابندی کو توڑ کر 29 اگست 1978(7 شہریور 1357) کو امام خمینی کی تصویر شائع کرنے والا پہلا اخبار بن گیا۔ ایک ماہ بعد، ’اطلاعات‘ اخبار نے بھی امام خمینی کی تصویر شائع کرنے کی جرأت کی۔
تیسرا بیان، سینما کو نذر آتش کرنے کے طریقۂ کار اور اس واقعے کے منصوبہ ساز اور اس میں شامل سید محمد صادق دشتی کے حالات کے متعلق، چار لوگوں کی یادوں کے تذکرے کا حاصل ہے۔ تیسرا بیان، شہید سید محمد صادق دشتی کے والد، والدہ اور ان کے بڑے بھائی اور اس واقعے میں شامل اور اکیلے زندہ بچے، قاسم توانائی کی یادیں ہیں۔ اگر یہ تیسرا بیان نہ ہوتا تو ہمیں فیروزآباد کے کوروش سینما کو نذر آتش کرنے والوں کے نام، شناخت اور تفصیلات کے بارے میں کبھی بھی پتہ نہ چلتا۔ محمد رضا حسینی کی تحریر، کتاب ’’آقا صادق: روایتی از زندگانی جھادگر شھید سید محمد صادق دشتی‘‘(آقا صادق: شہید سید محمد صادق دشتی کی مجاہدانہ زندگی کی ایک حکایت) کی عنایت سے آج ہمارے پاس تیسرا بیان موجود ہے۔ قاسم توانائی کی یادوں کے مطابق، اس منصوبے پر عمل درآمد سے کچھ عرصہ پہلے چار لوگوں کا ایک گروہ تشکیل پایا تھا کہ جس میں قاسم توانائی، جعفر اسماعیل زادہ، اسماعیل کتیرائی اور سید محمد صادق دشتی شامل تھے۔ ’’ایک دن صادق(دشتی) ہمیں اپنے گھر لے گیا اور ہمیں ایک سید مولانا کی تصویر دکھائی اور کہا: ’’یہ امام خمینی ہیں۔ وہی جنہوں نے شاہ اور اس کے ساتھیوں کے خلاف قیام کیا ہے اور انہیں حامیوں اور مددگاروں کی ضرورت ہے۔ میں (اپنے بڑے بھائی) سید نور الدین کے ذریعے شیراز شہر سے رابطے میں ہوں اور میں ان کی تصویریں اور اطلاعیے فیروزآباد لاتا ہوں لیکن فیروزآباد اور آس پاس کے شہروں میں انہیں بانٹنے کے لیے مجھے مدد کی ضرورت ہے۔ کیا آپ لوگ اس کام کے لیے تیار ہیں؟۔۔۔ ہم چار لوگوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور وعدہ کیا کہ ہم ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔ اسکول کے بعد تقریباً روزانہ ہی صادق کے گھر ہماری میٹنگ ہوتی تھی۔‘‘[16] اس گروپ کی تشکیل کے دو تین دن بعد، فیروزآباد اور صوبۂ فارس کے دوسرے شہروں جیسے فراشبند اور قیر وغیرہ میں امام خمینی کی تصویریں اور اطلاعیے بانٹنے کا کام شروع ہوگیا اور دوسرے لوگ بھی اس گروہ میں شامل ہوگئے۔ فیروزآباد کے در و دیوار پر نعرے لکھنا بھی ہماری سرگرمیوں میں شامل ہوگیا۔ ’’ایک رات، ہم نے ساواک کے آفس کی دیوار پر ’مرگ بر شاہ‘ ، ’تا خون در رگ ماست خمینی رہبر ماست‘ کے نعرے لکھ دیے۔ اگلی صبح ہم جعفر کے ساتھ ساواک کے آفس کے سامنے گئے، فیروزآباد کی ساواک کا چیف جلالی، کچھ اہلکاروں سے نعرے مٹوا رہا تھا اور بہت غصے سے انہیں اور نعرے لکھنے والوں کو گالیاں دے رہا تھا۔‘‘[17]
آگے قاسم توانائی سینما گھر کو نذر آتش کرنے کے فیصلے کی وجہ کے بارے میں کچھ یوں بتاتے ہیں: ’’پورے ملک میں لوگوں پر شدید ظلم و ستم اور قتل عام کی خبریں سن کر ہمارا خون کھول اٹھا اور میٹنگ میں طے پایا کہ اب ہمیں عملی مقابلے کے مرحلے میں داخل ہونا پڑے گا اور بدبخت فوجی اور سیکیورٹی سربراہان کو راستے سے ہٹانا ہوگا۔ ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ہمیں بالترتیب تین کام انجام دینے ہوں گے: پہلا کوروش سینما کو نذر آتش کرنا، دوسرا جلالی کا قتل اور تیسرا فیروزآباد پولیس چیف ’قربانی‘ کا قتل۔ طے پایا کہ پہلے کام کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کے بعد، اگلے کام کی منصوبہ بندی کی جائے گی۔‘‘[18] اسی میٹنگ میں یہ فیصلہ بھی لیا گیا کہ بیس لیٹر کے دو گیلن پیٹرول کے ذریعے، سینما کو نذرآتش کیا جائے گا۔ البتہ وہ غلطی سے اس منصوبے پر عمل درآمد کا دن اور وقت یعنی 4 آبان 1357 اور آدھی رات، غلط بتا رہے ہیں جبکہ ساواک کا بتایا ہوا 2 آبان کا دن اور رات 10 بجے کا وقت درست ہے۔
توانائی صاحب اس منصوبے پر عمل درآمد اور اپنی گرفتاری کے بارے میں کچھ اس طرح بتاتے ہیں: ’’رات ڈیڑھ بجے کے بعد، ہم سینما کے قریب پہنچے۔ منصوبے کے مطابق، صادق سینما سے کچھ دور سڑک کے کنارے چھپ گیا۔ میں، جعفر اور کتیرائی پیٹرول سے بھرے بیس لیٹر کے دو گیلنز لے کر سینما کے ٹکٹ کاؤنٹر کے پاس چلے گئے اور صادق کے ٹارچ کے سگنل کا انتظار کرنے لگے۔ کچھ سیکنڈز بعد، ٹارچ کا سگنل ملا اور ہم نے کام شروع کردیا۔ ہم شیشہ توڑ کر سینما کی لابی میں داخل ہوگئے۔ کتیرائی، صادق کے خطرے کے سگنل پر نظر رکھا ہوا تھا۔ میں اور جعفر گیلنز لے کر اندر چلے گئے۔ ہمارا پلین تھا کہ میں سینما کے گراؤنڈ فلور پر پیٹرول چھڑکوں گا اور جعفر سیڑھیوں اور چھجے پر۔ کام کے تناؤ سے میرے دل کی دھڑکن کانوں میں صاف سنائی دے رہی تھی۔ آکسیجن کی جگہ صرف پیٹرول کے بخارات میرے پھیپھڑوں میں جارہے تھے۔ میں بہت پریشان ہوا اور میں نے جلدی سے پورے بیس لیٹر خالی کردیے اور دروازے پر آگیا۔ جب میں کتیرائی کے پاس پہنچا تو میں نے اسے سے کہا: کاش ہم پیٹرول کی جگہ مٹی کا تیل لائے ہوتے۔ اس نے پوچھا: کیوں؟ میں اسے جواب دے ہی رہا تھا کہ دھماکے کی لہر نے ہمیں لابی کے دروازے اور کھڑکیوں کے ساتھ اڑا کر سڑک پر پھینک دیا۔ جب ہمیں ہوش آیا تو ہم نے دیکھا کہ جعفر چھجے سے اڑ کر سڑک پر آگرا ہے اور اس کا پورا بدن جل رہا ہے۔ ہم جلدی سے اس تک پہنچے، آگ بجھانے کے بعد کتیرائی کی مدد سے میں نے اسے اپنے کندھے پر ڈالا اور ہم پچھلی گلیوں سے ہوتے ہوئے کتیرائی کے والد کے پرانے خالے پڑے گھر کی طرف دوڑے۔ راستے میں جعفر نے آہستہ سے میرے کان میں کہا: ’’مجھے پانی میں ڈال دو‘‘ مجھے پتہ چل گیا کہ وہ ہوش میں آچکا ہے۔ گلی کے ایک کونے میں گزشتہ روز کی بارش کا بہت سارا پانی جمع تھا ، ہم نے اسے پانی میں لٹا دیا لیکن وہ دوبارہ بے ہوش ہوگیا۔ ہم نے اسے اٹھایا اور دوبارہ چل پڑے۔ جب ہم گھر پہنچے اور لائٹ جلائی تو جعفر کا چہرہ دیکھ کر خوف سے ہم دونوں کی سانس رک گئی۔ اس کا پورا چہرہ اور بدن جل چکا تھا۔ نہ اس کے بال بچے تھے، نہ بھنویں اور نہ ہی پلکیں۔ بہت تکلیف دہ منظر تھا۔ جیسے جیسے ہم اس کے چہرے اور بدن پر مرہم لگاتے جا رہے تھے تو ہماری انگلیوں کی حرکت سے اس کی کھال اترتی جارہی تھی۔ ہم نے جلدی سے اسے اس کے گھر پہنچا دیا جو پاس میں ہی تھا۔ اس کے گھر والے سمجھ گئے کہ کیا ہوا ہے لیکن پھر بھی وہ اسے اسپتال لے جانے پر مجبور ہوگئے۔ صادق کے حال سے بے خبر اور جعفر کے لیے پریشان ہم نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا۔ طے پایا کہ کتیرائی، شیراز میں اپنے رشتہ داروں کے گھر چلا جائے گا اور میں اپنے گھر اور کچھ دنوں تک ہم گھر سے باہر نہیں نکلیں گے۔ سڑکیں، سیکیورٹی فورسز سے بھری ہوئی تھیں اور وہ ہر کسی کو گرفتار کر رہے تھے۔ میں بہت مشکل سے گھر پہنچا۔ میرے گھر والے حیران پریشان، مجھے دیکھ رہے تھے؛ میں انہیں سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ ہم کس طرح اس مصیبت میں پھنسے لیکن وہ بالکل میری بات کا یقین نہیں کر رہے تھے۔ میں مجبور ہوگیا کہ انہیں چھت پر لے کر جاؤں اور آگ کے شعلوں میں لپٹا سینما دکھاؤں۔ پھر میں پریشانی کی حالت میں اپنے کمرے میں چلا گیا اور رو رو کر جعفر اور صادق کے لیے دعائیں کرتا رہا۔
جاری ہے۔۔۔
تاریخ شفاھی :: انھدام سینما کوروش فیروزآباد در انقلاب (oral-history.ir)
[1] انقلاب اسلامی به روایت اسناد ساواک، ج10(شهریور ماه 1357)، تهران، مرکز بررسی اسناد تاریخی وزارت اطلاعات، 1381ش، ص437.
[2] همان، ج11(16 تا 31 شهریور 1357)، تهران، مرکز بررسی اسناد تاریخی وزارت اطلاعات، 1381ش، ص17.
[3] همان، ج11، ص 129.
[4] همان، ج11، ص 178.
[5] همان، ج11، ص 233 .
[6] همان، ج11، ص363.
[7] همان، ج12 (1 تا 15 مهر 1357)، تهزان، مرکز بررسی اسناد تاریخی وزارت اطلاعات، 1382ش، ص 256؛ سیر مبارزات یاران امام در آینه اسناد به روایت ساواک، ج12(7 مهر تا 26 مهر 1357)، موسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چ دوم، 1399ش، ص63 .
[8] انقلاب اسلامی به روایت اسناد ساواک، ج13(16 تا 30 مهر1357)، تهران، مرکز بررسی اسناد تاریخی وزارت اطلاعات، 1382ش، ص55.
[9] همان، ج13(16 تا 30 مهر1357)، ص244.
[10] همان، ج13(16 تا 30 مهر1357)، ص515.
[11] همان، ج13(16 تا 30 مهر1357)، ص 607 .
[12] همان، ج14(1 تا 10 آبان1357)، تهران، مرکز بررسی اسناد تاریخی وزارت اطلاعات، 1383ش، ص74 .
[13] همان، ج14(1 تا 10 آبان1357)، ص 74 .
[14] سیر مبارزات یاران امام در آینه اسناد به روایت ساواک، ج13(27 مهر تا 15 آبان 1357)، موسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چ دوم، 1399ش، ص381و382).
[15] کیهان، شماره 10595(3 آبان 1357)، ص22.
[16] آقا صادق: روایتی از زندگانی جهادگر شهید سید محمدصادق دشتی، تحقیق و تدوین، محمد رضا حسینی، تهران، راهیار، 1399ش، ص25.
[17] همان، ص 26.
[18] همانجا.
صارفین کی تعداد: 44








گذشتہ مطالب
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
آپریشن ’’مطلع الفجر‘‘
راوی: مولاداد رشیدیدشمن اس علاقے کی عسکری اہمیت کو جانتا تھا اور ایک بڑی شکست جس کے نتیجے میں اسے سرپل ذہاب اور مغربی گیلان جیسے بڑے علاقے سے پیچھے ہٹنا پڑتا، سے بچنے کے لیے اس نے اپنی پوری طاقت لگادی تھی۔
"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔

