’’زبانی تاریخ کے آثار کے مالی اور اخلاقی حقوق‘‘ کے سلسلۂ گفتگو کا ایک جائزہ
راوی کے حقوق کو نظر انداز کرنے سے متن میں ذوق سے کام لینے تک
مریم اسدی جعفری
ترجمہ: ضمیر علی رضوی
2025-6-7
2024 کے ابتدائی مہینوں میں زبانی کی ویب سائٹ نے ’’زبانی تاریخ کے آثار کے مالی اور اخلاقی حقوق‘‘ کے عنوان سے پبلشرز، زبانی تاریخ کے کام کرنے والوں اور ماہرین کے ساتھ انٹرویوز کا ایک سلسلہ منعقد کیا اور اسے شائع کیا۔ انٹرویوز میں بیان کیے گئے نظریات، زبانی تاریخ کے آثار کے مالی اور اخلاقی حقوق کے بارے میں مختلف اور ہم آہنگ نظریات پر مبنی تھے اور جب ہمیں لگا کہ آراء اور تنقیدیں دہرائی جارہی ہیں تو ہم نے اس سلسلۂ گفتگو کو روک دیا۔ آگے آنے والی رپورٹ میں زبانی تاریخ کے آثار کے مالی اور اخلاقی حقوق سے متعلق بیان ہونے والی آراء کا ایک خلاصہ پیش کیا گیا ہے۔ اگر آپ نئے نظریات شیئر کرنا چاہتے ہیں تو کمنٹس سیکشن میں اپنا نام اور نمبر درج کریں تاکہ آپ کے ساتھ انٹرویو کے لیے رابطہ کیا جاسکے۔ مختلف قسم کی آراء، زبانی تاریخ کے آثار کے مالی اور اخلاقی حقوق کی پاسداری کے میدان میں ایک منطقی طرز عمل اور فریم ورک کی تشکیل میں مددگار ثابت ہوں گی۔
پبلشرز کا نقطۂ نظر
چونکہ حکومتی پبلشرز زبانی تاریخ کے شعبے میں بڑے پیمانے پر سرگرمیاں انجام دیتے ہیں لہٰذا ’’سورۂ مہر‘‘، ’’فاتحان‘‘ اور ’’سورۂ سبز‘‘ (سورۂ سبز، ایک نجی پبلشر ہے لیکن فوج کے شہداء اور مسلط کردہ جنگ میں فوج کے کردار کے متعلق سرگرمیاں انجام دیتا ہے) پبلشرز کو منتخب کیا گیا ہے تاکہ ان کے اور زبانی تاریخ کے کام کرنے والوں اور راویوں کے درمیان ہونے والے معاہدوں کی چھان بین کی جاسکے۔
اس سے قبل، سورۂ مہر پبلیکیشنز، زبانی تاریخ کا کام کرنے والوں کے ساتھ کام کی خریداری کا معاہدہ کرکے ان کے ساتھ تعاون کرتا تھا اور اگلے ایڈیشنز میں زبانی تاریخ کا کام کرنے والوں اور راویوں کو کوئی اجرت نہیں دی جاتی تھی، تاہم حال ہی میں، اس پبلیکیشن نے کچھ مؤلفین کی ناراضگی اور فریقین کے حقوق کی پاسداری نہ کرنے سے پیدا ہونے والے مسائل کے سبب، اپنا طرز عمل تبدیل کرلیا ہے اور اب یہ پبلیکیشن، راوی اور زبانی تاریخ کا کام کرنے والوں میں نئے ایڈیشن کی اجرت تقسیم کرتی ہے۔ شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ سورہ مہر وہ واحد پبلشر ہے جو راوی کے لیے مالی حقوق کا قائل ہے۔
دوسری جانب، فاتحان اور سورۂ سبز پبلیکیشنز نے ایک ہی راستہ اپنایا ہے اور وہ، راوی کے لیے مالی حقوق کے قائل نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے اس نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ ان پبلشرز کے زبانی تاریخ کے آثار، دفاع مقدس کے شعبے سے متعلق ہیں، اس قسم کے اقدام کو غلط شمار کیا۔ یہ دو پبلشرز، مؤلف کے ساتھ براہ راست معاہدے کرکے زبانی تاریخ کا کام کرنے والے سے کتاب کے ذریعے دوبارہ کسی قسم کا مالی فائدہ حاصل کرنے کا حق لے لیتے ہیں اور اسے اور راوی کو کتاب تحفے میں دینے پر اکتفا کرتے ہیں۔ ان دو پبلشرز کے مطابق، روایت کے شعبے میں مالی معاملات کو شامل کرنا، روایات میں مبالغہ آرائی اور تخیل کا باعث بنے گا۔ دوسری جانب یہ دونوں پبلشرز، کتاب کی ڈسٹریبیوشن اور فروخت میں موجود مسائل کو براہ راست معاہدے کے مناسب ہونے کی ایک اور وجہ سمجھتے ہیں۔
زبانی تاریخ کا کام کرنے والوں اور ماہرین کا نقطۂ نظر
ان انٹرویوز میں اظہار خیال کرنے والے اکثر زبانی تاریخ کا کام کرنے والوں نے آرڈر دینے والے اداروں کے آثار کے متن اور کتابوں کو اشاعت کے لیے منتخب کرنے یا خارج کرنے میں ذوق سے کام لینے کی بھی شکایت کی ہے۔ بے شک یہ چیز راوی اور انٹرویوور کے حقوق کو نقصان پہنچاتی ہے۔ ’’معاہدوں کا غیر منصفانہ ہونا‘‘، ’’زبانی تاریخ کے عمل کے اخراجات اور اجرت کے درمیان عدم توازن‘‘، ’’نو آموز افراد کے لیے پبلشر یا آرڈر دینے والے سے معاہدے کی رقم پر بات کرنے کا ممکن نہ ہونا‘‘، ’’زبانی تاریخ کا کام کرنے والوں کے لیے معاہدوں کا ایک طرفہ ہونا اور آثار کے معیار پر اس کا اثر‘‘ بھی زبانی تاریخ کے شعبے میں سرگرم افراد کی شکایات میں شامل تھے۔ دوسری جانب، چونکہ راوی اور انٹرویوور کو نئی اشاعت سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا لہٰذا زبانی تاریخ کے ان دو ستونوں کے حقوق بھی ضائع ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح اخلاقی حقوق کی پاسداری جیسے کتاب کے زبانی تاریخ کے عمل میں شریک تمام افراد کے نام کتاب میں درج کرنا، راوی، انٹرویوور اور ایڈیٹر کا نام کتاب کے سرورق پر درج کرنا، سنسر نہ کرنا اور حکومتی اداروں کے فریم ورکس کو متن پر اثر انداز ہونے سے روکنا، اس گروہ کے اہم ترین مطالبات میں شامل تھے۔ زبانی تاریخ کی ایک کتاب کے انٹرویور، اجراء کرنے والے، ایڈیٹر اور دوسرے تعاون کرنے والوں کے مالی اور اخلاقی حقوق کی پاسداری اور ہر حصے کے لیے ماہر افراد کا انتخاب اور معقول اجرت کی ادائیگی، وہ دیگر نکات تھے جن کی جانب توجہ دلائی گئی۔ اس کے ساتھ زبانی تاریخ کے شعبے میں سرگرم افراد اور ماہرین نے زبانی تاریخ کے آثار کے مالی اور اخلاقی حقوق کو نظم دینے کے لیے ایک ذمہ دار ادارے کی ضرورت پر بھی زور دیا، تاہم انجمن زبانی تاریخ(اورل ہسٹری ایسوسی ایشن) کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے دو اراکین سے ہونے والی گفتگو کے مطابق، چونکہ اورل ہسٹری ایسوسی ایشن جیسی انجمنیں، تعلیمی انجمنیں ہیں اس لیے انہیں قانونی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں ہے۔ صرف ایک تجارتی انجمن ہی ان معاملات کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے زبانی تاریخ کے کام کرنے والوں کو معاہدہ کرنے کے صحیح طریقۂ کار اور اس شعبے کے قانونی چیلنجز سے آگاہ کرنے کے لیے خصوصی ورکشاپس یا کانفرنسز منعقد کرنے پر بھی زور دیا۔ آخر میں انہوں نے زبانی تاریخ کی تشکیل کے آغاز سے ہی یونیورسٹی سے جڑے افراد کے اس شعبے میں نہ ہونے کو ایران میں اس شعبے کی صحیح اور علمی پیشرفت کے فقدان کی ایک وجہ قرار دیا گیا۔ اس سلسلے میں ہم، تاریخ کے پروفیسرز کے ساتھ ایک الگ سلسلۂ گفتگو منعقد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
راوی کا نقطۂ نظر
شروع میں ہم، زبانی تاریخ کی کچھ بیسٹ سیلر کتابوں کے راویوں سے گفتگو کرنے کے متعلق پرعزم اور تردد کا شکار تھے۔ ایک طرف تو راویوں کی یادوں کے مالی اور اخلاقی حقوق کی صورتحال کے متعلق ان کے نظریات سے آگاہی ہماری لیے بہت اہمیت رکھتی تھی اور دوسری طرف، ہمیں پبلشرز اور انٹرویوورز کے مقابلے میں راویوں کے انٹرویوز لینے کے نتائج کی بھی فکر تھی۔ لہٰذا ہم نے زبانی تاریخ کا کام کرنے والوں اور ماہرین سے راویوں کے مالی اور اخلاقی حقوق کی وضاحت طلب کی۔ ان کے مطابق بعض اوقات، ذوق سے کام لینے کے سبب راوی کی بات صحیح طریقے سے منتقل نہیں ہو پاتی یا قلم، بیانیے پر اثرانداز ہوجاتا ہے۔ اسی طرح، معاہدوں میں راوی کے مالی اور اخلاقی حقوق مبہم ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی راوی کی یادوں کی بنا پر کوئی اسکرپٹ لکھا یا تیار کیا جاتا ہے تو کیا اس کے لیے راوی کی اجازت ضروری ہے اور کیا اسے کوئی مالی فائدہ حاصل ہوگا یا نہیں؟
عام طور پر، زبانی تاریخ کے آثار کی مالی اور اخلاقی ملکیت کا معاملہ، مرغی اور انڈے کے معاملے جیسا ہے! پبلشر سمجھتا ہے کہ اگر وہ نہ ہوتا تو کتاب، شائع ہی نہ ہوتی۔ انٹرویوور اور ایڈیٹر کہتے ہیں کہ اگر ہم نہ ہوتے تو متن تشکیل ہی نہ پاتا اور راوی اس بات پر زور دیتا ہے کہ اگر میری یادیں نہ ہوتیں تو کتاب ہی نہ بنتی! ماہرین کے نقطۂ نظر سے، بدقسمتی سے آرڈر دینے والے کی جانب سے راوی کے مالی اور اخلاقی حقوق کی مکمل پاسداری نہیں کی جاتی۔ مثال کے طور پر راوی کے لیے کسی قسم کے مالی حق کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا۔کچھ گنے چنے پبلشرز کے علاوہ۔ جبکہ کتاب راوی کی یادوں کی بنا پر تشکیل پائی ہے اور یقیناً پبلشر کو اس سے مالی فائدہ پہنچے گا، تو یادوں کے مالک کو اس کے عوض رقم کیوں نہیں لینی چاہیے؟ اس کے ساتھ ماہرین نے اس بات پر بھی زور دیا کہ تمام ممالک میں متن، راوی کی ملکیت ہوتا ہے لیکن ایران میں ایسا نہیں ہوتا اور کتاب، آرڈر دینے والے کی ملکیت ہوتی ہے۔خاص طور پر اشرافیہ کی زبانی تاریخ کے شعبے میں۔ کچھ زبانی تاریخ کے آثار کا آرڈر دینے والے، ایڈیٹنگ مکمل ہونے پر تیار شدہ متن کو راوی کو سونپتے ہیں اور مطالعے کے بعد راوی سے دستخط لے کر حتمی تصدیق حاصل کرلیتے ہیں تاکہ اشاعت کے بعد ممکنہ مسائل کا سد باب کیا جاسکے۔ زبانی تاریخ کی ویب سائٹ اس بارے میں آپ کی مزید مختلف آراء سننے کی منتظر ہے۔
صارفین کی تعداد: 27








گذشتہ مطالب
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
راوی کے حقوق کو نظر انداز کرنے سے متن میں ذوق سے کام لینے تک
عام طور پر، زبانی تاریخ کے آثار کی مالی اور اخلاقی ملکیت کا معاملہ، مرغی اور انڈے کے معاملے جیسا ہے! پبلشر سمجھتا ہے کہ اگر وہ نہ ہوتا تو کتاب، شائع ہی نہ ہوتی۔"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔

