ایک یاد، ایک خبر اور پانچ سرکاری رپورٹس پر مبنی

دامغان شہر کا 11 محرم(12دسمبر) سن 1978  کا واقعہ

جعفر گلشن روغنی

ترجمہ: ضمیر علی رضوی

2025-7-7


محرم کے مہینے کی آمد اور امام خمینی کے اس پیغام کے نشر ہوتے ہی عوامی مارچز، ریلیوں اور احتجاجی مظاہروں میں پہلے سے زیادہ تیزی آگئی، جس میں انہوں نے واعظوں، خطیبوں اور جدوجہد کرنے والوں سے پہلوی حکومت کا اصلی چہرہ سامنے لانے میں اس مہینے سے زیادہ سے فائدہ اٹھانے کا کہا تھا۔ یہاں تک کہ 9 اور 10 محرم(10 اور 11 دسمبر1978) کے احتجاجی مظاہروں میں تہران کے اکثر لوگوں نے شرکت کی، پہلوی حکومت کے خلاف نعرے لگائے اور ایک طرح کا ریفرنڈم منعقد کردیا۔ ملک کے دیگر شہروں کی طرح دامغان شہر میں بھی سید الشہداء کی عزاداری کے ایام اور امام خمینی کے پیغام کے زیر اثر ایک الگ ہی صورتحال تھی، احتجاج اور مارچز بڑھ چکی تھیں۔ یہ بات اس لیے اہمیت کی حامل ہے کیونکہ محرم کی آمد سے پہلے شہر میں پہلوی حکومت کی غلام اور حامی فورسز کا ایک خاص مقام، اثر و رسوخ اور سرگرمیاں تھیں، اس حد تک کہ ایسا لگتا تھا کہ شہر، شاہ کی حامی فورسز کے کنٹرول میں تھا اور ساواک متعدد بار شہر میں ان کی موجودگی کے بارے میں بتا چکی تھی۔ مثال کے طور پر 21 نومبر 1978 کو شام 4 بجے حکومت کے کچھ مخالفین نے چھوٹے چھوٹے مظاہرے کیے اور پولیس نے انہیں منتشر کردیا، اس کے بعد ’’حیدرآباد گاؤں سے ڈنڈے لاٹھیاں لیے کچھ لوگ شہر میں داخل ہوئے اور انہوں نے ’شاہ زندہ باد‘ کے اور قومی نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر مارچ کیا اور دامغان کے محب وطن لوگ بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے جس کے نتیجے میں حامیوں اور مخالفین میں جھڑپیں شروع ہوگئیں اور محب وطن لوگوں نے ان دکانوں کے شیشے توڑ دیے جن میں [امام] خمینی کی تصویریں آویزاں تھیں۔ اس دوران علی آراستہ جو [امام] خمینی کا ایک متعصب انتہا پسند حامی ہے اور ہیڈ کوارٹر میں اس کا سابقہ رہا ہے اس پر ایک محب وطن نے پیچھے سے حملہ کردیا اور اس کے سر پر خنجر سے وار ہوا جس کے باعث اس کے سر سے خون بہا اور اسے پولیس اسٹیشن بھیج دیا گیا۔ ان مظاہروں میں دامغان کے تمام محب وطن افراد نے شرکت کی اور ایک اچھا تأثر دیا۔‘‘[1]

اس کے بعد 22 نومبر 1978 کے روز ساواک کا ایک ایجنٹ ’’صوبۂ سمنان کی دامغان کاؤنٹی کے گاؤں اور شہر کے باسیوں کا وطن دوست اور قومی مظاہرہ‘‘ کے عنوان سے اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے: ’’22 نومبر 1978 کو [صبح] 8 بجے سے صوبۂ سمنان کی دامغان کاؤنٹی گاؤں اور شہر کے قریب ہزار افراد نے اس شہر میں وطن دوست اور قومی مظاہرے شروع کیے۔ مظاہرین نے امام علی(ع) اور شہنشاہ آریا مہر(محمد رضا پہلوی) کی تصویریں اٹھا رکھی تھیں، انہوں نے ’’جاوید شاہ‘‘(شاہ زندہ باد) اور ’’دریغ است ایران که ویران شود‘‘(افسوس کی بات ہوگی کہ ایران تباہ ہوجائے) کے نعرے لگائے اور جن دکانوں میں [امام] روح اللہ خمینی کی تصویریں آویزاں تھیں ان کے شیشے توڑ دیے۔ اس دوران کچھ مولویوں اور بنیاد پرست افراد نے بھاگ کر [امام] روح اللہ خمینی کے حامی اور انتہا پسند مولانا محمد علی عالمی کے گھر میں پناہ لے لی۔ اسی روز دوپہر 1 بجے مظاہرین نے مرکز کو ایران کی آئینی سلطنتی حکومت اور آئین کی حمایت پر مبنی ایک ٹیلی گراف بھیجا اور منتشر ہوگئے۔‘‘[2] ’اطلاعات ہفتگی‘ میگزین کی رپورٹ کے مطابق ’’پولیس کے حمایت یافتہ، ڈنڈا بردار ایک گروہ نے کچھ دکانوں اور گاڑیوں پر حملہ کردیا۔ وہ لوگ، عوام سے زبردستی حکومت کے حق میں نعرے لگوانا چاہ رہے تھے۔‘‘[3]

23 نومبر کو بھی اسی طرح کے مظاہرے ہوئے جن میں ’’زندہ و جاوید باد سلطنت، چو ایران نباشد تن من مباد، دریغ است که ایران ویران شود‘‘(پہلوی سلطنت زندہ باد، پہلوی سلطنت پائندہ باد، اگر ایران نہ رہے تو میں بھی نہ رہوں، افسوس کی بات ہوگی کہ ایران تباہ ہوجائے) جیسے نعرے لگائے گئے۔ اسی طرح 24 نومبر کو دامغان میں مظاہرے ہوئے اور جنہیں حکومت حامیوں کے دوسرے مارچز کی طرح علاقے کے اعلیٰ حکام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں خاص طور پر جینڈرمیری کی حمایت حاصل تھی اور یہ مظاہرے حکومتی ہدایات کے مطابق ہوئے۔[4] اسی دن کے ’اطلاعات‘ اخبار کے مطابق ’’ پولیس کے حمایت یافتہ، ڈنڈا بردار ایک گروہ نے دامغان میں کچھ دکانوں اور گاڑیوں پر حملہ کردیا اور ان کے شیشے بھی توڑ دیے۔ دامغان میں حکومت حامی گروہوں نے توڑ پھوڑ اور آتش زنی کی۔ شاہرود اور دامغان کے دیہاتوں سے ان دو شہروں میں بھیجے گئے مظاہرین، ڈرائیوروں سے حکومت کے حق میں نعرے لگانے کو کہہ رہے تھے اور نعرے نہ لگانے کی صورت میں ان کی گاڑیوں کے شیشے توڑ رہے تھے۔‘‘[5] پارس نیوز ایجنسی نے بھی رپورٹ دی کہ اس دن کچھ گروہوں نے حکومت کی حمایت میں کچھ سڑکوں پر مارچز کیے۔‘‘[6]

دامغان سٹی پولیس کے چیف میجر نسیم، سینٹرل پولیس انٹیلیجنس ڈیپارٹمنٹ کو بھیجی اپنی رپورٹ میں کچھ مولویوں کی حکومت مخالف سرگرمیوں کے بارے میں لکھتے ہیں، اور آگے لکھتے ہیں ’’اس کاؤنٹی کے تقریباً سارے ہی عوام، محب شاہ اور محب وطن تھے اور جب بھی کوئی واعظ منبر پر شاہ کے لیے دعا نہیں کرتا تھا تو لوگ اس سے وضاحت طلب کرتے تھے۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں: ’’اس کاؤنٹی میں محب شاہ اور محب وطن عوام کی جانب سے 21[نومبر] سے 24[نومبر] مسلسل چار دن چلنے والے  مظاہروں کے بعد دکانداروں نے شہنشاہ آریامہر(محمد رضا پہلوی) اور اعلیٰ شاہی خاندان کی تصویری آویزاں کرکے، جھنڈے لہرا کر اور چراغاں کرکے جشن منایا اور یہاں تک کہ عوام، نماز جماعت میں بھی نہیں گئے، صرف چند بوڑھے مرد اور بوڑھی خواتین ہی نماز پڑھنے مسجد گئے اور باسیوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔‘‘[7]

’بورس‘ اخبار نے بھی ان لوگوں کے مظاہروں کو ’’وطن دوست اور قومی مظاہروں‘‘ کی ہیڈلائن کے ساتھ کچھ یوں بیان کیا: ’’دامغان کے دس ہزار سے زیادہ لوگوں نے شہنشاہ آریا مہر(رضا شاہ) کے لیے ایثار اور قربانی کا اظہار اور آئین اور شاہی حکومت کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اس شہر کی سڑکوں پر عظیم الشان مظاہرے کیے۔ مظاہرین پہلے ششم بہمن اسکوائر پر جمع ہوئے، انہوں نے ہاتھوں میں پرچم، امام المتقین حضرت علی (ع) اور شہنشاہ آریا مہر(شاہ) کی تصویریں اٹھا رکھی تھیں اور ’’شاہ زندہ باد‘‘ اور ’’سلطنت پہلوی زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں سے گزرے اور آخر میں انہوں نے ایک بیانیہ جاری کیا۔ اس بیانیے میں دامغان کی عوام نے آئین اور شاہی نظام کے لیے اپنی حمایت کا اعلان کیا۔‘‘[8] بورس اخبار کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق: ’’بدھ (22 نومبر 1978) کی شام بھی دامغان کے عوام کی جانب سے بڑے پیمانے پر حکومت کے حق میں مظاہرے ہوئے جو رات 8 بجے تک جاری رہے۔‘‘[9]

اس طرح کی مارچز کے حوالے سے انقلابی افراد کا ردعمل، بڑی تعداد میں شرکت کرکے پہلوی مخالف نعرے لگانا ہوتا تھا۔ دامغان کے ایک انقلابی جوان حسین سہمی اپنی یادوں میں بتاتے ہیں: ’’اب لوگ ڈرتے نہیں تھے اور شاہی حکومت کی مخالفت مزید آشکار ہوچکی تھی۔ انقلابی افراد کی سرگرمیاں بھی مزید بڑھ چکی تھیں۔ شاہی حکومت بھی اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کار لاچکی تھی۔ ایک دن حکومت کے کچھ حامی شہر میں جمع ہوئے اور سیکورٹی فورسز کی پشت پناہی کے ساتھ انہوں نے شاہ کے حق میں نعرے بازی کی۔ ان کا زیادہ تر نعرہ ’’شاہ زندہ باد‘‘ تھا۔ ان کے مقابلے پر ہم ’’شاہ مردہ باد، خمینی زندہ باد!‘‘ کے نعرے لگارہے تھے۔ شاہ مخالف افراد کی بڑی تعداد کی وجہ سے وہ لوگ جلدی سے اس اسکوائر سے بھاگ گئے اور آگے نہیں جا پائے۔‘‘[10]

ماہ محرم(2 دسمبر 1978) کے آتے ہی اور اس کے بعد 9 اور 10 محرم کو ملک بھر میں شاہ مخالف مظاہرے پھیل گئے اور دامغان بھی کچھ تأخیر کے ساتھ انقلابی شہروں کی صف میں شامل ہوگیا۔ اس سے قبل، دامغان کے مارچز میں کبھی اتنا خون نہیں بہا اور نہ ہی اتنے لوگ شہید یا زخمی ہوئے تھے، لیکن 11 محرم کی، پرانی رسم و رواج کے مطابق ہونے والی عزاداری کی تقریبات کے دوران ہونے والے مظاہرے میں دامغان شہر کی انقلابی تاریخ کا ایک خاص واقعہ رونما ہوا۔ خوش قسمتی سے ہمارے پاس اس خونی واقعے کے بارے میں ایک یاد، ایک شائع شدہ خبر اور پہلوی حکومت کے سیکیورٹی اداروں کی پانچ رپورٹس موجود ہیں، جو اس دن کے واقعے کی مختلف زاویوں تصویر کشی کرتی ہیں۔

پرانے رسم و رواج کے مطابق ان دنوں آس پاس کے گاؤں کے لوگ، دامغان شہر آتے تھے اور عزاداری کی تقریبات میں شرکت کرتے تھے۔ حسین سہمی کی یادوں کے مطابق 11 محرم سن 1978 کی خاص عزاداری میں: ’’عزاداری کی تقریبات میں شرکت کرنے کے لیے اکثر دیہاتوں کے لوگ شہر آئے۔ عزاداری کی تقریبات میں محلۂ شاہ کے امام بارگاہ سے تابوت برآمد ہوا۔ انقلابی افراد نے تابوت برآمد ہوتے ہی انقلابی نعرے لگانے شروع کردیے۔ جلوس کے دوران، بڑی تعداد میں لوگ جلوس میں شامل ہوئے۔ قریب دو گھنٹے بعد، یہ مظاہرین بُکَیر بن اعین کے مزار کے قریب پہنچے۔ جیسے ہی انہوں نے تابوت زمین پر رکھا تو پولیس کی بھاری نفری نے ہجوم کے سامنے بندوقیں تان کر صف آرائی کرلی۔ اچانک گولیوں کی آوازیں عوام کے نعروں کے ساتھ مل گئیں۔ پولیس اہلکاروں نے ہوائی فائرنگ کے بعد، مظاہرین پر فائرنگ کردی۔ یہ پہلی بار تھا کہ جب دامغان کی عوام اس طرح کے صورتحال کا سامنا کر رہی تھی۔ ہجوم کچھ پیچھے ہٹا اور پولیس اہلکار اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زخمیوں کو اپنے ساتھ لے گئے۔ اس فائرنگ کے دوران دو افراد شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔ ایک شخص، جس کا اس مظاہرے میں اہم کردار تھا وہ علی معلم[دامغانی] تھے۔ وہ بھاگنے والے لوگوں کو حوصلہ دے رہے تھے۔ انہوں نے اپنے کوٹ کے بٹن کھول دیے، انہوں نے اپنے کوٹ اندر کچھ دستی گرینیڈ چھپا رکھے تھے۔ انہوں نے کہا: ’’ہم آپ لوگوں کا ساتھ دینے کے لیے ہیں، ڈریے نہیں۔‘‘[11]

ساواک اور سیکیورٹی اداروں نے بھی اپنی رپورٹس میں دامغان کے 11 محرم کے واقعے کا ذکر کیا۔ جوائنٹ اسٹاف ہیڈکوارٹر کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹ، جس پر (ساواک کے) تیسرے ڈیپارٹمنٹ کے چیف، لیفٹیننٹ جنرل خواجہ نوری نے دستخط کیے ہیں، کے مطابق اس دن ’’عزاداری کے دستے دامغان شہر کی سڑکوں سے گزر رہے تھے، 11:30 بجے جب دستے شہر سے باہر نکل رہے تھے تو کچھ حکومت مخالف مسلح افراد نے ملک مخالف نعرے لگاتے ہوئے حکومت کے حامی دستوں پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں سارجنٹ محمد خدابندہ لو اور دس شہری زخمی اور دو شہری گولی لگنے سے ہلاک ہوگئے۔ پولیس اہلکاروں کی ہوائی فائرنگ اور واٹر کینن کے ذریعے مظاہرین کو منتشر کردیا گیا۔‘‘

 قومی محاذ(جبھه ملی) کے نیوز لیٹر نے بھی اس واقعے کو کچھ یوں رپورٹ کیا[12]: ’’11 محرم کے دن حسینی عزادار دستے، شہر کی سڑکوں سے گزرے، وہ عزاداری میں مشغول تھے، پولیس نے بغیر کسی وارننگ، لوگوں پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں دو افراد ہلاک اور بیس سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں جن میں سے کچھ کی حالت، نازک ہے۔‘‘[13]

لیکن ساواک اہلکار، دامغان کے 11 محرم کے واقعے کی تین رپورٹس میں مزید تفصیلات بتاتے ہیں:

پہلی رپورٹ جس کا عنوان ’’ملک مخالف مظاہرے‘‘ ہے کچھ یوں ہے: ’’12 اور 13 دسمبر 1978 کے روز حاجی محمد حسین زارع زادہ، حسن زارع زادہ، حاجی محمد زارع زادہ، حاجی رمضان طالبی، سید مسیح شاہچراغی، [سید محمود] ترابی، محمود ذوالفقاری، مہدی امیدوار اور [محمد] علی معلم [دامغانی] کی قیادت میں ملک مخالف مظاہرے ہوئے… ان مظاہروں میں دامغان کے کچھ رہائشی اور آس پاس کے دیہاتوں کے کچھ افراد نے شرکت کی اور ملک مخالف نعرے لگائے… دامغان کے اکثر ملک مخالف مظاہروں کی قیادت مذکورہ بالا افراد نے کی ہے۔‘‘[14]

دوسری رپورٹ جو سمنان سے ساواک کے ’’انتہاپسند سیاسی اور مذہبی تنظیموں اور گروہوں کے ڈیپارٹمنٹ‘‘ کو بھیجی گئی تھی، اس میں زخمیوں اور شہداء کے بارے میں کچھ یوں بتایا گیا ہے: ’’درج ذیل میں 12 دسمبر 1978 کو ہونے والے تصادم میں زخمی یا ہلاک ہونے والوں کی تفصیلات کی اطلاع دی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ مظاہرین کے منتشر کرنے کے بعد دو رائفلیں ملیں جنہیں پولیس نے ضبط کرلیا۔ اسلحے کی قسم، بور اور نمبر آگے عرض کیا جائے گا:

1۔ احمد عبدیائی، پیشہ کسان، گاؤں عبدیا، گھٹنے پر ہلکا زخم۔

2۔ علی اصغر صباحی، عمر 25 سال، پیشہ بے روزگار۔ دامغان کا رہائشی۔ ہلکا زخم۔

3۔ نصرت اللہ خلیل نژاد، عمر 10 سال، پہلو اور بائیں ہاتھ پر زخم، پیشہ بے روزگار۔

4۔ حسن امینیان، عمر 21 سال، پیشہ طالب علم، ران پر زخم۔

5۔ محمد رضا طاہری ولد علی اصغر، پیشہ نامعلوم، دونوں گھٹنوں پر چھرے لگے۔

6۔ صدیقہ محرابی، عمر 19 سال، خاتون خانہ، بائیں پہلو پر چھرے کا زخم۔

7۔ بہمن کوہستانی، عمر 17 سال، پیشہ طالب علم، کندھے پر چھرے کا زخم۔

8۔ محمد خدا بندہ لو، پیشہ پولیس، کان پر چھرے کا زخم۔

9۔ محمد ذوالفقاری ولد علی اکبر، پیشہ لوہار، سر اور ہاتھ پر چھرے کا زخم۔

10۔ احمد افتری(اختری) ولد حبیب اللہ، اسٹیل مل مزدور، ہلاک، چار غیرملکی ڈاکٹرز کے مطابق اسے تیز دھار آلے جیسے کلہاڑی سے مارا گیا ہے۔

11۔ مہدی، نامعلوم، رہائش مشہد، ہلاک۔

12۔ پرویز کُردزادہ ولد اسماعیل، پیشہ نامعلوم، سر پر اینٹ کا زخم۔‘‘[15]

تیسری رپورٹ جو انقلاب اسلامی کے دستاویزی مرکز کے محافظہ خانے میں موجود ہے، میں بھی یہ واقعہ اس سے مختلف اور زیادہ تفصیلات کے ساتھ بیان ہوا ہے: ’’12 دسمبر 1978 کے روز، صوبۂ سمنان کے دامغان شہر کے آس پاس کے دیہاتوں سے قریب 400 افراد ہر سال کی طرح اس سال، امام حسین(ع) کی عزاداری کی تقریبات میں شرکت کرنے کے لیے اس شہر میں جمع ہوئے۔ پھر سید حسن شاہ چراغی اور سید محمود ترابی نامی، [امام]روح اللہ خمینی کے حامیوں اور انتہاپسند مولویوں کے اشتعال دلانے پر یہ گروہ، ملک مخالف نعرے لگاتا ہوا شہر کے قبرستان چلا گیا، وہاں ان کا سامنا کچھ محب شاہ اور محب وطن دیہاتیوں سے ہوا، ان دو گروہوں میں تصادم کے دوران، مخالفین نے دو حامی دیہاتیوں کو قتل اور دو افراد کو زخمی کردیا۔ پولیس اہلکاروں کی مداخلت اور ہوائی فائرنگ سے دونوں گروہ منتشر ہوگئے اور اس تصادم کے نتیجے میں دو افراد ہلاک ہوگئے۔‘‘[16]

شائع ہونے والی مندرجہ بالا رپورٹس میں 11 محرم دامغان شہر کے واقعے کے شہداء سے متعلق، صحیح اور مکمل معلومات پیش نہیں کی گئیں، لیکن کتاب ’’فرھنگ اعلام شھدا‘‘ سے ان دو شہداء کے بارے میں کافی معلومات مل جاتی ہیں۔ پہلے شہید، احمد اختری تھے جو ’’20 ستمبر 1960 کو دامغان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد حبیب اللہ کریانہ اسٹور چلاتے تھے اور ان کی والدہ کا نام سکینہ تھا۔ وہ ہائی اسکول کے فورتھ ایئر کے طالب علم تھے۔ 21 دسمبر کو اپنے آبائی علاقے میں شاہی حکومت کے خلاف مظاہرے کے دوران گولی لگنے سے ان کی شہادت ہوئی۔ ان کی تدفین اسی کاؤنٹی کے گلزار شہداء(قبرستان) میں ہوئی۔‘‘[17] احمد اختری کے بارے میں قابل غور بات یہ ہے کہ وہ 12 دسمبر کو زخمی ہوئے اور ان کی شہادت، 21 دسمبر کو ہوئی۔ دوسرے شہید، حسین امینینان ہیں، شہید فاؤنڈیشن میں موجود معلومات کے مطابق ان کا نام ’حسین‘ ہے جبکہ ساواک کے دستاویزات میں ان کا نام ’حسن‘ بتایا گیا ہے۔ ’’وہ 15 اگست 1957 کو دامغان کاؤنٹی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سیف اللہ کسان تھے اور والدہ کا نام عذرا تھا۔ وہ صرف پرائمری تک پڑھے تھے، وہ بھی کسان تھے۔ 12 دسمبر 1978 کو اپنے آبائی علاقے میں شاہی حکومت کے خلاف مظاہرے کے دوران گولی لگنے سے ان کی شہادت ہوئی۔ ان کی تدفین اسی کاؤنٹی کے گلزار شہداء(قبرستان) میں ہوئی۔‘‘[18]

 

                               

 [1]سیر مبارزات یاران امام خمینی در آینه اسناد به روایت ساواک، ج14(16 آبان 1357 ـ 3 آذر 1357)، تدوین: مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، تهران، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چ دوم، 1399، ص440.

 [2]همان، ص471 و 472 ؛ انقلاب اسلامی به روایت اسناد ساواک، ج17(1 تا 10 آذر 1357)، تهران، مرکز بررسی اسناد تاریخی وزارت اطلاعات، 1384، ص30.

 [3]اطلاعات هفتگی، ش 1920، 22 دی 1357، ص4 و11.

 [4]انقلاب اسلامی به روایت اسناد ساواک اسناد ساواک، ج14( 1 تا 10 آبان 1357)، تهران، مرکز بررسی اسناد تاریخی وزارت اطلاعات، 1383، ص125.

 [5]روزنامه اطلاعات، ش 15753، 16دی 1357، ص4.

 [6]بولتن خبرگزاری پارس، ش 250، 4 آذر 1357، ص17.

 [7]آرشیو مرکز اسناد انقلاب اسلامی، اسناد طبقه ‌بندی نشده، به نقل از کتاب انقلاب اسلامی در استان سمنان به روایت اسناد، دفتر چهارم: از آذر تا بهمن 1357، به کوشش مرتضی حاجیان نژاد، قم، انتشارات زمزم هدایت، 1396، ص51.

 [8]روزنامه بورس، ش 4193، 5 آذر 1357، ص16.

 [9]همانجا.

 [10]سهمی، حسین، ساعت 5 بود (خاطرات)، به کوشش حسینعلی احسانی، تهران، سوره مهر، 1399، ص34و35.

 [11]همان، ص35 و36 .

 [12]انقلاب اسلامی به روایت اسناد ساواک اسناد ساواک، ج20 (21 تا 25 آذر 1357)، تهران، مرکز بررسی اسناد تاریخی وزارت اطلاعات، 1385، ص9.

 [13]خبرنامه جبهه ملی، ش 39، 22 آذر1357، ص2.

 [14]انقلاب اسلامی به روایت اسناد ساواک اسناد ساواک، ج20 (21 تا 25 آذر 1357)، تهران، مرکز بررسی اسناد تاریخی وزارت اطلاعات، 1385، ص56.

 [15]همان، ص 57.

 [16]آرشیو مرکز اسناد انقلاب اسلامی، شماره بازیابی سند 00861156، به نقل از کتاب روزشمار انقلاب اسلامی در استان سمنان، به کوشش مرتضی حاجیان نژاد، دفتر سوم: وقایع مربوط به آذر و دی و بهمن 1357، قم، انتشارات زمزم هدایت، 1396، ص82 و83.

  [17]فرهنگ اعلام شهدا: استان سمنان، تنظیم  دفتر پژوهشهای فرهنگی بنیاد شهید و امور ایثارگران، تهران، 1392، ص11.

 [18]همان، ص27.



 
صارفین کی تعداد: 4


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
ایک یاد، ایک خبر اور پانچ سرکاری رپورٹس پر مبنی

دامغان شہر کا 11 محرم(12دسمبر) سن 1978  کا واقعہ

س دن ’’عزاداری کے دستے دامغان شہر کی سڑکوں سے گزر رہے تھے، 11:30 بجے جب دستے شہر سے باہر نکل رہے تھے تو کچھ حکومت مخالف مسلح افراد نے ملک مخالف نعرے لگاتے ہوئے حکومت کے حامی دستوں پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں سارجنٹ محمد خدابندہ لو اور دس شہری زخمی اور دو شہری گولی لگنے سے ہلاک ہوگئے
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔