آمل شہر کا قیام

انتخاب: فاطمہ بہشتی
مترجم: سیدہ رومیلہ حیدر

2025-8-6


26 جنوری 1982ء کو اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد جو سب سے اہم سیاسی و سیکیورٹی سے متعلق واقعات رونما ہوئے  ان میں سے ایک ایران کے کمیونسٹوں کی یونین (جسے سربہ داران یا جنگلی کے نام سے جانا جاتا ہے) کا امول شہر پر حملہ تھا، خاص طور پر پاسداران انقلاب کے مراکز اور شہر میں بسیج کے مراکز پر، جو شہر پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ تقریبا دو دن بعد ، پاسداران انقلاب اور بسیج کی شدید مزاحمت اور انقلاب اور شہر کے دفاع میں امول کے عوام کی مدد اور تعاون سے، منافقین کو شکست ہوئی۔ ذیل میں ہم دو راویوں کی یادداشتیں پڑھیں گے۔

 

راوی: بابائی صاحب

من مانی کارروائی


ہم حسینیہ ارشاد میں جمع ہوئے اور پاسداران انقلاب کو فون کیا اور انہوں نے ہمیں کل صبح آنے کو کہا۔ میں اسے برداشت نہیں کر سکا، میں نے کہا کہ میں پاسداران انقلاب کے پاس نہیں جاؤں گا، لیکن میں شہر کے وسط میں جا کر دیکھوں گا کہ کیا ہو رہا ہے۔ حسن بابائی (اسلامی انقلاب کمیٹی کے رکن) میرے ساتھ آئے۔ میں تازہ ہی امول ہلال احمر کا سربراہ بنا تھا۔ ہم نیاکی محلہ سے سبزہ میدان تک گاڑی چلا کر محکمہ بجلی پہنچے۔ ہم 17 شہریور چورنگی اور امام خمینی ہائی اسکول گئے، جہاں ہم نے دیکھا کہ ہائی اسکول کے سامنے 5-6 لوگ کھڑے ہیں، ہم قریب پہنچے، دیکھا وہ گاڑیوں کا معائنہ کر رہے تھے. ہم نے سوچا کہ ہمیشہ کی طرح بسیجوں نے چیک پوسٹیں قائم کر رکھی ہیں۔ نیشنل بینک کے قریب کئی گاڑیاں کھڑی تھیں۔


مجھے حاج غلام حسین منصوری کی نیسان گاڑی کی پہچان تھی۔ سپاہ کی امول کور کے لاجسٹکس کے ساتھ ان کا بہت تعاون تھا۔ جب ان کی باری آئی تو وہ غصے میں آ گئے کیونکہ پاسداران انقلاب اور بسیج انہیں جانتے تھے اور معائنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ انہوں نے انہیں پاسداران انقلاب کا کارڈ، خریداری کے انوائسز اور دستاویزات فراہم کیں۔ وہ اب بھی نہیں پہچان پائے کہ یہ لوگ جنگل ہیں۔

نیشنل پارک کے بائیں جانب پیکان تھی، جس میں کئی مسافر سوار تھے۔ انہوں نے اپنے سروں پر ہاتھ رکھے تھے اور میں نے سوچا کہ پاسداران انقلاب کو ان پر شک ہو گیا ہے۔ انہوں نے ہمیں پہچان لیا، لیکن وہ اشارہ یا چیخ نہیں سکتے تھے اور ہمیں متوجہ نہیں کر سکتے تھے۔

15 میٹر کے فاصلے پر حاج آغا منصوری نیسان گاڑی کی طرف آئے تاکہ اسے بند کرسکیں اور اسکی چابی انہیں دے دیں۔ اچانک، پیکان کے مسافروں نے انہیں اشارہ کیا کہ وہ جنگل ہیں۔ منصوری صاحب نے جب ہمیں دیکھا تو انہوں نے کہا کہ آپ کیوں آئے ہیں؟ اور میں نے بھی پوچھا، "آپ یہاں کیوں کھڑے ہیں؟" انہوں نے کہا، "یہ جنگل ہیں"۔  حسن بابائی نے اپنی پستول سے گولی چلائی اور کہا، "ہم کمیٹی کے لوگ ہیں" (پھر بھی، حسن بابائی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ جنگل ہیں)۔

جنگلیوں نے یہ سوچ کر کہ وہ محاصرے میں ہیں، ہم پر اندھادھند فائرنگ شروع کردی۔ فائرنگ کے دوران پیکان کے مسافر، جنہیں کافی عرصہ پہلے پکڑا گیا تھا، فرار ہو گئے، جن میں سے دو زخمی ہو گئے، اور ہم بھی زندہ بچنے میں کامیاب ہو گئے۔ اور اس وجہ سے کہ ہماری وجہ سے خدا کا فضل گرفتار لوگوں کے شامل حال ہوا، یہ واقعہ میرے لئے ایک بہت ہی دلچسپ اور میٹھی یاد بن گیا، کیونکہ انہیں پھانسی دی جانی تھی. [1]

راوی: شکری

قابل فخر نوجوان

شہر کے زیادہ تر باشندوں کی طرح ہمارے چار رکنی گروپ نے بھی فائرنگ کی آواز سنی۔ میری بیوی اور بچوں کے جواب میں، جو پریشان تھے اور فائرنگ کی وجہ پوچھی، میں نے کہا: "یقینا پاسداران انقلاب کے جوانوں نے منافقین کی کمین گاہ ڈھونڈ نکالی ہے اور ان کا تعاقب کیا جا رہا ہے۔ البتہ، میرا اس کے علاوہ کوئی اور ارادہ نہیں تھا۔

صبح جب میں نے خیابان ھراز کو عبور کر کے دفتر (ہلال احمر) پہنچنے کے لئے رضوانیہ محلے میں داخل ہوا تو میں نے اسدی کے سابقہ گھر کے سامنے بسیجوں کے لباس میں ملبوس کئی افراد کو دیکھا۔ ایک گھر جو کبھی شہید فاؤنڈیشن کا مرکز ہوا کرتا تھا اور کچھ عرصے تک شہید گرلز سیکنڈری اسکول تھا۔ جب میں نے انہیں اسدی کے بیٹے کے ساتھ دیکھا تو مجھے لگا کہ وہ پاسداران انقلاب کے جوان ہیں اور مجھے احساس ہوا کہ گزشتہ رات میرا اندازہ درست تھا اور میں اسی ارادے سے ان کے پاس گیا۔

میں شہید جان نثار سے مشابہت رکھنے والے ایک مسلح جوان کے پاس گیا اور مجھے اسے پہچاننے میں غلطی ہوگئی اور چونکہ میں نے رضاکارانہ طور پر ان کے ساتھ تعاون کیا تھا، اس لیے میں مسکراتے ہوئے ان کے پاس پہنچا۔ مسلح شخص، جو مجھے اپنا ساتھی سمجھ تھا، ہنسنے لگا۔ جیسے ہی میں قریب پہنچا، میں نے اسے سلام کیا اور کہا، "مت تھکنا بھائیو! حتما تم لوگوں نے ان کمینگاہوں سے اس گندگی کو نکال کر دریائے ھراز میں بہا دیا ہوگا جو مشرق اور مغرب کے اشارے پر چل رہے تھے۔

مسلح شخص مسکرایا اور کرد لہجے میں بولا، "نہیں جناب! یہ وہ حکومت ہے جو امریکہ سے احکامات لیتی ہے۔ میں انکے بیگز اور لب ولہجے اور حلیے سے متوجہ ہوا کہ میں نے غلطی کردی ہے۔ بات چیت تھوڑی اور آغے بڑھی تو وہ کہنے لگا؛" شہر ہمارے ہاتھ میں اور عوام ہمارے ساتھ ہے"۔ میں نے کہا، "اگر شہر آپ کے ہاتھ میں ہے، تو یہ فائرنگ کس لئے ہے۔"

 

اس نے اپنی بندوق کی بیرل میری طرف اشارہ کیا اور اپنی بندوق کو دھمکی آمیز اشارے کے ساتھ ہلانے لگا۔ میں نے کہا، "یہ میرے دفتر کا راستہ ہے، کیا میں وہاں جا سکتا ہوں؟" میں نے احساس کیا کہ وہ بندوق چلانے کے لیے تیار ہوچکا ہے، میں نے شہادتین پڑھی اور روانہ ہو گیا۔

 

میں پچھلی گلی سے دفتر پہنچا، دفتر کا دروازہ بند تھا۔ دفتر کی چابی میرے پاس تھی۔ میں تالا کھول رہا تھا کہ اسپتال کے پرعزم ساتھیوں میں سے ایک بندوق لے کر پہنچ گیا۔ اس وقت، اس نے سپاہ کے دو سپاہیوں کو دیکھا جو بجلی کے دفتر کے ساتھ واقع نالے کے راستے دفتر کے احاطے کی باڑ تک پہنچے تھے۔ وہ تینوں نیشنل بینک اور سینما کی طرف بڑھے۔ دفتر کے سامنے، ایک نوجوان چلایا: "دو زخمی بینک کے بائیں جانب فٹ پاتھ پر گرے ہیں۔" میں بھاگا۔ دو پندرہ یا سولہ سال کے نوجوان بھی میرے پیچھے بھاگے اور بینک کے بائیں جانب فٹ پاتھ پر میرے ساتھ آ گئے۔ ان کی مدد سے، میں نے زخمیوں میں سے ایک کو اپنے کندھوں پر اٹھایا اور انہیں 17 شہریور ہسپتال لے گیا۔

جس چیز نے اس یاد کو میرے ذہن میں زندہ و جاوید کر دیا ہے وہ ان دو پیارے نوجوانوں کی ہمت ہے جنہوں نے زخمی آدمی کو زمین سے اٹھاتے ہوئے ہم پر گولیوں کی بوچھاڑ کے باوجود کسی خوف یا ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا اور نہ ہی زخمی کو پڑے رہنے دیا اور نہ ہی ایک قدم پیچھے ہٹے۔ ان کی ہمت اتنی قابل قدر اور قابل فخر تھی کہ میں نے زخمی آدمی کو لے جانے سے پہلے ان کے پیارے ماتھوں کو چوما اور ان کی تعریف کی۔



 
صارفین کی تعداد: 92


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
"آش پشت جبھہ" کتاب سے یادوں کا ٹکڑا

انقلابی ٹیچر، طاغوتی پرنسپل

راوی: شھناز زکی
قدس سیکنڈری اسکول کے صحن میں داخل ہوئی۔ اسکول کی پرنسپل اپنے دفتر کی کھڑکی کے شیشے سے مجھے گھور گھور کر دیکھ رہی تھیں۔ ایس الگ رہا تھا کہ میرے ہر قدم پر وہ زیر لب کوئی چیز مجھ پر نثار کررہی تھیں۔ میں دفتر میں داخل ہوئی۔ پرنسپل اور انکی اسسٹنٹ کوٹ اور دامن پہنے ہوئے کاندھوں پر بال پبیلائے ایک دوسرے کے ساتھ ایک ہی لائن میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ میں نے اپنا پوسٹر پرنسپل کے سامنے رکھا۔ انہوں نے اپنا سر اٹھائے بغیر مجھ سے کہا: " خالی کلاس نہیں ہے محترمہ، ساری
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔