بیت المقدس آپریشن اور خرمشہر کی آزادی
انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ
مترجم: یوشع ظفر حیاتی
2025-8-9
جب ہم فتح المبین آپریشن کے بعد کرمانشاہ پہنچے، تو سرپل ذہاب کے علاقے کا دورہ کرنے کے بعد ایلام چلے گئے۔ جس طرح میں نے عرض کیا، بیت المقدس آپریشن میں ابھی تک 27 ویں بریگیڈ مغربی علاقوں میں نبرد آزما تھی اور ہم بھی اب تک ان جوانوں سے رابطے میں تھے جو اس سے پہلے ساتویں ضلع میں مشغول تھے اور اب اس بریگیڈ کے ذمہ دار بن چکے تھے۔ اس لحاظ سے مجھے بیت المقدس آپریشن کی ساری خبریں ملتی رہتی تھیں اور میں 29 یا 30 اپریل 1982 کو 27 ویں بریگیڈ کی مدد کے لئے جنوب کی طرف چلا گیا۔ وہاں بھی فتح المبین آپریشن کی طرح صحت اور تعاون کی فورسز نے 27 ویں بریگیڈ کی مدد کی اور وہ بریگیڈ کے اختیار میں تھے البتہ اس زمانے میں وہ بہت زیادہ منظم کام کررہے تھے۔
پچھلے انٹرویو میں میں نے ذکر کیا تھا کہ بیت المقدس آپریشن کے ساتھ ہی ساتویں ضلع میں محمد بروجردی کے جانشین جناب خلیفہ بھی دار فانی کو الوداع کہہ گئے اور محسن حاجی بابا بھی شہید ہو گئے۔ اس کے ساتھ ہی بروجردی نے مجھے مغربی خطے کے شہدا کے اہل خانہ کے لیے تعریفی سند تیار کرنے کو کہا۔ میں نے سند تیار کی اور اسے شہید اشرفی کے پاس لے گیا جنہوں نے اس پر دستخط کیے۔ آخر کار میں آیت اللہ نوری ہمدانی، جو اس وقت ہمدان کے جمعہ کے امام تھے، سے اسناد پر دستخط کروانے کے لیے ہمدان گیا۔ ہم اس علاقے میں ایک خطاط بھی لائے اور اس نے اسناد کا متن لکھا۔ لہٰذا بیت المقدس آپریشن کے دوران مجھے ایک دن کے لیے تہران آنا پڑا اور سپاہ کے پرنٹنگ پریس جانا پڑا، جو حسینیہ ارشاد کے بغل میں تھا، تاکہ پرنٹنگ کا کام کر سکوں۔
بہرحال میں بیت المقدس آپریشن کے دوران جنوب چلا گیا لیکن میری تہران اور کرمانشاہ کے درمیان رفت و آمد مسلسل رہتی تھی۔ جس رات آپریشن شروع ہوا میں جنوب میں نہیں تھا، لیکن میرے ساتھی وہیں موجود تھے۔ میں 27 ویں بریگیڈ میں تھا۔ بریگیڈ کا پڑاؤ دارخواین کی سہ راہ کے بعد "اٹامک انرجی" نامی ہیڈکوارٹر میں تھا۔ 27 ویں بریگیڈ آپریشن بیت المقدس کے لئے نصر بیس میں حسن باقری کی کمان میں تھی۔ مہدی زین الدین کو بھی اسی آپریشن کے درمیان دیکھا تھا۔ وہ نصر بیس کی انٹیلیجنس کے انچارج تھے۔ میں ایک عام مجاہد کے عنوان سے 27 ویں بریگیڈ میں خدمت انجام دینا چاہ رہا تھا لیکن دوستوں نے ایسا نہیں کرنے دیا البتہ بروجردی نے بھی منع کیا تھا۔
جس دن خرمشہر آزاد ہوا میں کرمانشاہ میں تھا اور بروجردی نے ایک کام کے سلسلے میں مجھے واپس بلایا تھا۔ میرے خیال میں اس سے ایک دو دن پہلے محمود شہبازی کی شہادت کی خبر ملی۔ وہ بیت المقدس آپریشن کے دوران شہید ہوئے تھے۔ آپریشن بیت المقدس کے مراحل بہت تیزی سے اور ایک کے بعد ایک کامیابی سے انجام پارہے تھے، خرمشہر کی آزادی بھی نزدیک نظر آرہی تھی۔ خرمشہر کی آزادی کا دن بہت عجیب تھا۔ کرمانشاہ میں ناقابل بیان خوشی کا جشن کا سماں تھا۔
23 مئی 1981 کو خرمشہر آزاد کروالیا گیا۔ ہم دوبارہ جنوب گئے اور وہاں کا دورہ کیا۔ اکثر افراد کا خیال تھا اب جنگ کا فیصلہ ہوجائے گا۔ عوام بہت خوش تھی اور لوگ سڑکوں پر نکل کر علاقائی رقص میں مشغول تھے۔ بیت المقدس آپریشن اسلامی انقلاب کے لئے ایک فیصلہ کن آپریشن تھا۔
بیت المقدس آپریشن اور جون 1981 ہونے والے دیگر آپریشنز کے ساتھ ساتھ شہدا اسپیشل بریگیڈ کی ذمہ داری یہ تھی کہ ایک آپریشن کے لئے سر پل ذہاب جائے تاکہ دشمن پر دباؤ ڈالا جاسکے اور ہم قصر شیریں کو آزاد کروا سکیں۔ چونکہ ہم خرمشہر واپس لے چکے تھے اور اگر اب ہم قصر شیریں بھی واپس لے لیتے ہیں تو اس سے ہمیں بہت فائدہ پہنچتا۔ اسپیشل شہداء بریگیڈ نے اپنی تین بٹالینز کو اس علاقے میں تعینات کیا ہوا تھا لیکن اب تک آپریشن نہیں کیا گیا تھا چونکہ خرمشہر کی آزادی کے بعد دشمن قصر شیریں سے عقب نشینی کرچکا تھا۔ بنا بر ایں، یہ بریگیڈ بھی واپس آگئی اور بوکان ڈیم کی آزادی کے لئے کردستان چلی گئی۔
ایک دن اسپیشل شہداء بریگیڈ کا دورہ کرنے سرپل ذہاب گیا۔ ابوذر گیریژن میں تھے کہ ہمیں بتایا گیا عراق قصر شیریں خالی کرکے پیچھے ہٹ گیا ہے۔ ہم بھی بلا فاصلہ قصر شیریں جانے کے لئے نکل گئے۔ سرپل ذہاب ہائی وے سے قصر شیریں تک کا علاقہ نا امن تھا۔ چونکہ عراقی چوٹیوں پر قابض تھے اور ہائی کی جانب مسلسل فائرنگ کررہے تھے۔ ایک سڑک پایین دراز کے علاقے سے گذر رہی تھی اور جوان اس ہی سڑک کو استعمال ررہے تھے۔ جس دن قصر شیریں آزاد ہوا عوام بہت زیادہ خوش تھی۔ خاص طور پر وہ لوگ جو جنگ کی وجہ سے قصر شیریں سے کرمانشاہ آئے ہوئے تھے۔ جب ہم قصر شیریں پہنچے تو ہماری حیرت کی انتہا نہیں رہی۔ میں نے انقلاب سے پہلے قصر شیریں کا علاقہ دیکھا ہوا تھا، لیکن جنگ نے اس شہر کو ایک ریت کے ٹیلے میں تبدیل کردیا تھا۔ شہر میں کچھ بھی باقی نہیں بچا تھا، ہر چیز کو دھماکے سے اڑا دیا گیا تھا اسکے بعد عقب نشینی کی گئی تھی۔
صارفین کی تعداد: 87








گذشتہ مطالب
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
انقلابی ٹیچر، طاغوتی پرنسپل
راوی: شھناز زکیقدس سیکنڈری اسکول کے صحن میں داخل ہوئی۔ اسکول کی پرنسپل اپنے دفتر کی کھڑکی کے شیشے سے مجھے گھور گھور کر دیکھ رہی تھیں۔ ایس الگ رہا تھا کہ میرے ہر قدم پر وہ زیر لب کوئی چیز مجھ پر نثار کررہی تھیں۔ میں دفتر میں داخل ہوئی۔ پرنسپل اور انکی اسسٹنٹ کوٹ اور دامن پہنے ہوئے کاندھوں پر بال پبیلائے ایک دوسرے کے ساتھ ایک ہی لائن میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ میں نے اپنا پوسٹر پرنسپل کے سامنے رکھا۔ انہوں نے اپنا سر اٹھائے بغیر مجھ سے کہا: " خالی کلاس نہیں ہے محترمہ، ساری
"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔

