لشکر علی بن ابی طالب ع میں کربلا بٹالین کے کمانڈر علی اصغر خانی کی یادداشت کا ایک حصۃ
شہید مہدی زین الدین کے بارے میں
انتخاب: سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی
2025-9-4
میں تمہاری بٹالین کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ میں نے حیرت سے دیکھا اور پوچھا: "ہماری بٹالین؟ کیسے؟ کہاں سے؟" انہوں نے جواب نہیں دیا۔ اس بار میں نے تجسس سے دوبارہ سوال کیا: "مهدی صاحب، آپ کربلا بٹالین کو کیسے جانتے ہیں؟" پھر بھی جواب دینے سے گریز کیا اور صرف مسکرا دیئے۔ وقت گزرتا گیا، یہاں تک کہ "والفجر ۴" آپریشن آیا۔ انہوں نے نقشے پر انگلی رکھی اور کہا: "خانی، یہ پہاڑی دیکھو۔ تمہیں اس بلندی پر جانا ہوگا۔" یہ "کانی مانگا" کے قریب ایک بلندی تھی، جسے ۲۷ویں ڈویژن کو فتح کرنا تھا۔ مجھے کام کی سختی کا اندازہ تھا۔ اگر "کانی مانگا" فتح نہ ہوتی، تو ہم مسلسل دشمن کی نظروں میں رہتے۔ میں نے کہا: "میں انکار نہیں کرنا چاہتا، لیکن لگتا ہے یہ مشن ہماری بٹالین کے لیے بہت بھاری ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ .. انہوں نے میری بات کاٹ دی اور صرف ایک لفظ کہا: "نہیں۔" پھر کہا: "کس چیز سے پریشان ہو؟ میں تمہاری بٹالین کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ تم لوگ یہ کر سکتے ہو۔" میں موقع کا منتظر تھا کہ اس سوال کا جواب لے سکوں جو مدتوں سے میرے ذہن میں گھوم رہا تھا۔ میں نے دیر نہ لگائی اور کہا: "آپ نے یہ بات پہلے بھی کہی تھی، لیکن آخر آپ میری بٹالین کو مجھ سے بہتر کیسے جانتے ہیں؟" انہوں نے پلک جھپکائی اور کہا: "میں نے نہیں کہا کہ تم سے بہتر جانتا ہوں، لیکن جانتا ہوں۔ میں کبھی کبھار ٹوپی پہن کر گمنام طریقے سے بٹالینوں میں جاتا ہوں، حالات کا جائزہ لیتا ہوں اور واپس آ جاتا ہوں۔" میری شرارت ایک لمحے کے لیے جاگ اٹھی۔ میں ہنسا اور پوچھا: "یعنی بٹالین کے کمانڈر کی اجازت کے بغیر؟" انہوں نے میری طرف خیرہ ہوکر مذاق میں کہا: "ارے میں ڈویژن کا کمانڈر ہوں۔ کیا مجھے نہیں پتہ ہونا چاہیے کہ بٹالینوں میں کیا ہو رہا ہے؟" پھر سنجیدگی سے کہنے لگے: "میں نے تمہارے سپاہیوں کو قریب سے دیکھا ہے۔ وہ اچھے تربیت یافتہ ہیں، اور ان کی روحانیت بھی بلند ہے۔" میں پوچھنے ہی والا تھا کہ یہ سب آپ کو کیسے معلوم ہوا، کہ انہوں نے خود ہی جواب دیا: "ایک دو راتیں جب میں تمہاری بٹالین میں گیا، تو دیکھا کہ ان میں سے بہت سے تہجد گزار ہیں۔ تم لوگ اس مشن کو انجام دے سکتے ہو۔"
میں نے بٹالین کو پہاڑی کی طرف حرکت دی۔ ہر ممکن کوشش اور تین گھنٹے کی شدید لڑائی کے بعد ہم اس بلندی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ علی بن ابی طالب (ع) بٹالین نے ہماری پہلو والی چوٹی پر دشمن پر حملہ کیا تھا، لیکن جتنا بھی دباؤ ڈالا، بعثی فوجیوں نے انہیں اوپر آنے نہیں دیا اور وہ پہاڑی کے دامن میں ہی رک گئے۔27 ویں ڈویژن بھی "کانی مانگا" پر عراقیوں سے سخت لڑائی میں مصروف تھا، لیکن وہ بھی بلندی کے وسط میں پھنس گیا تھا۔ ہم بلندی پر تنہا رہ گئے تھے، اور چاروں طرف سے ہم پر گرم اور غصے سے بھرے گولے برس رہے تھے۔ منصوبہ یہ تھا کہ ایک بٹالین بلندی کے پیچھے والی سڑک کو کلیئر کروائے تاکہ ہمیں گولہبارود پہنچ سکے۔ لیکن اس بٹالین کے کمانڈر جنگ کی ابتدا ہی میں شہید ہو گئے، اور وہ کوئی پیش رفت نہ کر سکے۔ ہمارا گولہبارود ختم ہونے کو تھا، مگر بعثی فوجی باز نہیں آ رہے تھے۔ وہ ہر صورت ہمیں نیچے دھکیلنا چاہتے تھے۔ وہ لمبے چوڑے اور طاقتور جسم والے تھے، اور اتنے قریب آ گئے تھے کہ رات کی تاریکی میں بھی ان کے لباس اور ساز و سامان کی چمک دکھائی دے رہی تھی۔ وہ تازہ ہی علاقے میں آئے تھے۔ میں نے وائرلیس پر رابطہ کیا۔ آقا مهدی خود لائن پر تھے۔ جب میں نے گولہبارود اور مدد مانگی، تو انہوں نے کہا: "مقابلہ کرو۔ میں بھیجتا ہوں۔"
محاصرے کا دائرہ تنگ سے تنگتر ہوتا جا رہا تھا۔ جنگ، اب صرف دستی بموں کی جنگ بن چکی تھی۔ وہ پھینکتے، ہم پھینکتے۔ صبح کے وقت، گولہ باری اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے عراقیوں نے قسم کھا لی ہو کہ جو کچھ بھی ان کے پاس ہے، ہم پر اور اس پہاڑی پر نچھاور کر دیں گے۔ گولے اور مارٹر اس شدت سے برس رہے تھے کہ میں نے پانچ بار اپنی نماز توڑی۔سردیوں کے کمزور سورج نے فضا کو روشن کر دیا تھا۔ دشمن کے ہیلی کاپٹروں کی آواز دور سے سنائی دے رہی تھی۔ اس ہنگامے میں یہی کمی رہ گئی تھی۔اب ہمیں زمین سے بھی مار پڑ رہی تھی،اور آسمان سے بھی۔ میں نے وائرلیس آپریٹر سے ریسیور چھین لیا۔ ایک التجا بھری آواز میں گولہبارود اور ایمونیشن مانگا۔ آقا مهدی نے پھر وہی جواب دیا۔ میں ضبط کھو بیٹھا۔ اب زبان بند رکھنا ممکن نہ تھا۔ میں نے اپنی پوری توانائی انی زبان میں منتقل کی اور چلا کر کہا "یہ کیا بات ہوئی؟ ہماری مدد کیوں نہیں کی جا رہی؟ ان پر فضائی حملہ کیوں نہیں کیا جارہا؟ جوان ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے ہیں۔ کہاں گیا وہ گولہبارود؟ کہاں گئی ایمونیشن؟" انہوں نے مجھے اچھی طرح بھڑاس نکالنے دی، اسکے بعد کہا "بھائی، میں اپنی پوری کوشش کر رہا ہوں۔صبر کرو۔" ان کی آواز میں ہمیشہ کی سی سکون تھا، لیکن اس بار شرمندگی بھی شامل تھی۔
میں نے ریسیور رکھ دیا اور انتظار کرنے لگا۔ ادھر اُدھر نظر دوڑائی۔ بسیجی جوان دل و جان سے لڑ رہے تھے، اور مظلومیت سے گولیوں اور بم کے ٹکڑوں کا نشانہ بن رہے تھے۔ شہداء اور زخمیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔ ہم شدید دباؤ برداشت کر رہے تھے، لیکن نہ ایمونیشن کا کوئی نام و نشان تھا، نہ گولہبارود کا۔میں نے وائرلیس پر کہا: "ہم اب مزید یہاں نہیں رک سکتے۔" آقا مهدی خود بھی سمجھ چکے تھے کہ پہاڑی پر قبضے کا معاملہ ختم ہو چکا ہے، اس لیے مخالفت نہیں کی۔ بس اتنا کہا: "جیسے تم مناسب سمجھو، ویسا فیصلہ کرو۔" میں سمجھ گیا کہ وہ پسپائی پر رضامند ہو چکے ہیں، لیکن وائرلیس پر صاف کہنا نہیں چاہتے۔ میں نے دیر نہیں لگائی اور سپاہیوں سے کہا: "بیس لوگ رکیں، باقی پیچھے ہٹ جائیں۔ زخمیوں کو بھی جیسے ہو سکے، پیچھے لے چلیں۔" گولہباری، اولے کی طرح ہمارے سروں پر برس رہی تھی۔ ان بیس افراد کو اس لیے روک رہا تھا کہ دشمن کو مصروف رکھا جاسکے تاکہ باقی سپاہی با آسانی نیچے جا سکیں، اور پھر وہ بھی واپس آ جائیں۔ ابھی میں انہیں مرتب ہی کر رہا تھا کہ ایک گولی آئی اور وائرلیس آپریٹر کی گردن میں لگ گئی۔ میں نے ہاتھ بڑھایا کہ اسے اپنی طرف کھینچوں، کہ اگلی گولی میرے بازو میں لگی اور دوسری طرف سے نکل گئی۔ زخم سے خون اُبل رہا تھا۔ درد کی ایک لہر تھی جو سر سے پاؤں تک دوڑ رہی تھی۔ میں نے پرواہ نہیں کی، اور سپاہیوں کے ساتھ نیچے کی طرف چل پڑا۔ میں تھکا ہوا تھا، نڈھال۔ بازو سے بہتا خون مجھے مزید کمزور کر رہا تھا۔ اچانک آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور میں زمین پر بیٹھ گیا۔ طبی امداد دینے والا آیا، اس نے میرے بازو کو زور سے باندھا تاکہ خون مزید نہ بہے۔ زخم پر پٹی باندھی اور بازو کو گردن سے لٹکا دیا۔ میں آ رہا تھا، لیکن کیسا آنا! میں اپنے آپ میں نہیں تھا۔ شہداء کی لاشیں جو پہاڑی پر رہ گئی تھیں، میری آنکھوں کے سامنے تھیں۔ میں تیار تھا کہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جاؤں، لیکن کوئی لاش وہاں نہ رہ جائے۔ میرے ذہن میں شہر تھا، وہ وقت جب واپس جاؤں گا،
شہداء کی ماؤں کی منتظر آنکھیں، ان کے والد کی سوال بھری نظریں۔ میں انہیں کیسے جواب دوں گا؟ کس منہ سے کہوں گا کہ میں تو واپس آ گیا ہوں، لیکن آپ کے جگر گوشے علاقے میں رہ گئے، انہیں واپس لانا ممکن نہیں تھا۔ زخمیوں کو بھی بڑی مشقت سے نیچے لایا گیا۔ جب ہم اس بلندی سے نیچے آئے، تو سامنے ایک دریا تھا۔ ہمیں مجبوراً ایک اور بلندی پر چڑھنا پڑا، اور دریا کو عبور کرنا پڑا، اور واپس اسی جگہ آنا پڑا جہاں سے گذشتہ رات ہم نے بلندی کی طرف پیش قدمی کی تھی۔ مجھے بالکل یاد نہیں کہ ہم کب وہاں پہنچے۔ اپنے ہاتھ کی طرف دیکھا، زخم کی سفید پٹی خون سے سرخ ہو چکی تھی۔ دور سے آقا مهدی کو دیکھا۔ لیکن دل نہیں چاہا کہ ان کی طرف جاؤں۔ فیصلہ کیا کہ ان کے پاس سے گزر جاؤں گا اور ظاہر کروں گا کہ انہیں دیکھا ہی نہیں۔ میں ان سے ناراض بھی تھا، اور شرمندہ بھی۔ وائرلیس پر بہت تند لہجے میں ان سے بات کی تھی، چیخا تھا، ایسی باتیں کہ... نہیں ہو سکا، نہ کر سکا۔ قریب گیا۔ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے وہ بس مجھے زندہ دیکھنے کے لیے ہی کھڑے تھے۔ اپنی تھکن کو ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے پیچھے چھپا لیا۔ ان کے چہرے پر گرد و غبار کی تہہ تھی، اور ان کی آنکھیں تھکی ہوئی، بے خواب، لیکن محبت سے لبریز۔ میں نے شرمندگی سے نظریں جھکا لی۔ انہوں نے آہستہ سے مجھے گلے لگا لیا، کمر پر چند تھپکیاں دیں، اور میرے چہرے کو بوسہ دیا۔ مجھے اب بھی اس بوسے کی گرمی محسوس ہوتی ہے۔ پدرانہ لہجے میں کہنے لگے: خدا قوت دے۔ تم نے بہت اچھا مقابلہ کیا۔ میں تم سے راضی ہوں۔ میں نے سر اٹھایا۔ میری نظر ان کی نظر سے ملی۔ ان کی آنکھیں اشکبار تھیں۔
صارفین کی تعداد: 21








گذشتہ مطالب
- لشکر علی بن ابی طالب ع میں کربلا بٹالین کے کمانڈر علی اصغر خانی کی یادداشت کا ایک حصۃ
- حاج یکتا کی یادداشتوں کا ایک ٹکڑا
- شہید طالبعلم کی مجلس ترحیم کے بعد گرفتاریاں اور جیل
- خضر
- میں اپنے شوہر کے لئے پریشان نہیں تھی
- انقلابی ٹیچر، طاغوتی پرنسپل
- مدرسہ فیضیہ میں امام خمینی رح کے ساتھ یادگاری تصویر
- مہدی چمران کی بعض یادیں
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
لشکر علی بن ابی طالب ع میں کربلا بٹالین کے کمانڈر علی اصغر خانی کی یادداشت کا ایک حصۃ
شہید مہدی زین الدین کے بارے میںجنگ، اب صرف دستی بموں کی جنگ بن چکی تھی۔ وہ پھینکتے، ہم پھینکتے۔ صبح کے وقت، گولہ باری اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے عراقیوں نے قسم کھا لی ہو کہ جو کچھ بھی ان کے پاس ہے، ہم پر اور اس پہاڑی پر نچھاور کر دیں گے۔
"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔

