کتاب "در زندان بہ روایت شہید سید اسد اللہ لاجوردی" سے اقتباس
منافقین کے بارے میں مطالعاتی کورس
انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: سید نعیم حسین شاہ
2025-9-22
جوانوں کے داخل ہوتےہی جوکتابیں انہیں تھمائی جاتی تھیں ان میں کچھ اس طرح کے نام قابل ذکر ہیں : "چگونہ انسان غول شد"( انسان کیسے دیو بنا)، "تاریخ ایران باستان"( قدیمی ایران کی تاریخ)، "زبان و تفکر شناخت "، "مقدمہ آریان پور"[1] اور اس طرح کی دیگر کتب شامل تھیں ۔ تمام مارکسسٹی اور مذہبی کتابوں پر پابندی لگا دی گئی تھی؛ اور ہاں ابھی یاد آیا کہ مرحوم شہید مرتضی مطہری کی تمام کتابوں جیسے "روش رئالیسم(The Realism Method)" پر بھی پابندی عائد تھی اور ساواک ایجنسی کے افراد نے یہ سب کتابیں غائب کر دی تھیں ۔ اب اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کو یہ بھی بتاوں کہ جیل میں اس سے بھی زیادہ سختی تھی، اس لیے ہمیں عموماً کتابیں چھپا کر رکھنا پڑتی تھیں تاکہ وہ پولیس کی نگاہوں سے محفوظ رہ سکیں۔
اس سے کتابیں بھی دسترس سے دور ہوگئیں اور جیل والے بھی اس موضوع سے سوءاستفادہ کرتے تھے۔ مثال کے طور پر جب میں چوتھی بار جیل گیا تو مجھے "روش رئالیسم" کتاب پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔ میں کئی بار ان کے پاس گیا اور نام لے کر کہا کہ مجھے یہ کتاب چاہیے۔ پہلے تو کہنے لگے : "ابھی نہیں مل سکتی، پولیس کو پتہ چل جائے گا، ہم نے بہت مشکلات کے ساتھ ان کتابوں کو یہاں سنبھال کر رکھا ہے ، پولیس کو کتابوں کی بھنک بھی نہیں پڑنی چاہیے، ہمیں کتاب کو ظاہر نہیں کرنا چاہیے"، اور اس طرح کی باتیں جیل والوں نے سنائیں۔ خیر میں نے کہا کہ آپ نے تو کتاب کو چھپا کر رکھا ہے اور کسی کو پڑھنے نہیں دیتے،اب اسے اگر پولیس بھی لے جائے تو کیا فرق پڑے گا؟! اگر کتاب پڑھنے کے لیے ہی ہے تو خطرہ بھی مول لینا پڑے گا۔ جو بھی اسے پڑھنے کے لئے لے گا وہ اس کی حفاظت بھی کرے گا اور اسے پولیس کی نگاہوں سے بھی دور رکھے گا۔ اب اس کےباوجود بھی اگر پولیس لے جائے تو کتاب چھپانے سے کیا فرق پڑتا ہے؟!ا خیر نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں وہ کتاب مجھے دینا پڑی۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ کتاب چونکہ مخفی طریقہ سے زیر مطالعہ ہے، اس لیے مخصوص اوقات میں دیگر افراد بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں ، آپ مخصوص وقت میں کتاب لیں اور پھر بر وقت واپس کریں وغیرہ وغیرہ۔
قصہ مختصر کہ اتنے پاپڑ بیلنے کے بعد رات نو سے دس تک ایک گھنتے کے لئے مجھے کتاب پڑھنے کی اجازت دی گئی، ۔ مجھے یقین تھا کہ "روش رئالیسم "نامی کتاب ممنوعہ کتابوں میں شامل ہے اور اسے نہیں کھولا ہی نہیں جاتا اور مجھے اس بات کا بھی بخوبی یقین تھا کہ اس طرح کی کتاب سے متعلق جیل میں کسی کو کانوں کان خبر نہ تھی ،لیکن میں ان کو رنگے ہاتھوں پکڑنا چاہتا تھا۔ میں ٹھیک نو بجے میں جا کر جیل کے چھے نمبر دروازے کے سامنے کھڑا ہو جاتا اور ایک شخص آ کر مجھے کتاب دے دیتا۔
میں کتاب چھپا کر اپنے کمرے میں لے جاتا اور مطالعہ کرتا۔ دس بجے میں کتاب واپس لے جاتا اور وہاں جمع کروا دیتا۔ تاہم اس واقعہ کوتقریباً دس دن گزر گئے تو میں نے خود سے کہا کہ میں آج ثابت کرکے رہوں گا کہ اس کتاب کو کوئی نہیں پڑھتا، اور یہ سب تان کا اپنا بنایا ہوا کھیل ہے اور اس کے نتیجے میں مجھے محدود کرنا چاہتے ہیں، تا کہ میں اپنے ساتھیوں کے پاس بیٹھ کر یہ کتاب نہ پڑھ سکوں ، ۔۔۔!اس پر بھی جیل والے میری کڑی نگرانی کرتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں جوانوں سے رابطہ کر نے میں کامیاب ہو جاوں۔ وہ لوگ یہ کتاب ایسے وقت میں (یعنی رات نو سے دس تک)مجھے دیتے تھے جب میں اسے کسی کے ساتھ بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتا تھا، ایک رات دس بجے میں نے کتاب ان کو واپس نہیں دی۔ اگلی دو راتوں میں بھی کتاب میرے پاس رہی اور ان کی طرف سے کوئی پیغام بھی نہیں آیا تو میرے لیے اب یہ بات مزید واضح ہو گئی کہ جس کتاب کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ ہر وقت زیر مطالعہ رہتی ہے، جبکہ مجھے وہ کتاب انتہائی بے کار وقت میں یعنی سونے کے وقت دی جاتی تھی تو اس سے یہ بات تو عیاں ہو گئی کہ جس کتاب کو وہ یوں بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے تھےاس کا تو کسی نے نام بھی نہیں لیا اور اس موضوع پر مجھ سے کی ہوئی وہ اپنی سب باتیں بھی بھول چکے تھے؛ تب میں نے جا کر کہا: "اگر واقعی اس کتاب کو دیگر افراد بھی پڑھ رہےہیں اور آپ کے بقول یہ کتاب ہر وقت زیر مطالعہ ہے تو آپ نے مجھے یہ کتاب واپس لانے کے لیےکیوں نہیں کہا؟اگر یہ سچ ہے کہ مختلف اوقات میں درجنوں لوگ اس کتاب کا مطالعہ کر رہے ہیں تو یہ کتاب میرے پاس دو تین دن کیسے رہ گئی ہے اور کوئی اسے ڈھونڈ بھی نہیں رہا" یہاں آخرکار وہ پھنس گئے اور لا جواب ہو گئے۔
اس سلسلے میں، ہم نے اصرار کرتے ہوئے ان سے اسی کتاب کی تین چار جلدیں لے لیں اور اسے ان دوسرے جوانوں کے ساتھ مل بیٹھ کر پڑھ ڈالا جن پر اس کےاثرانداز ہونے کا امکان تھا۔
درحقیقت اس کتاب سمیت شہید مطہری اور علامہ طباطبائی کی تمام کتابوں کا کا بائیکاٹ کیا گیا تھا۔ اسی طرح مثال کے طور پر جناب [جلال الدین] فارسی کی کتاب "درسھایی از مارکسیسم" (مارکسزم کے اسباق) ، کہ جب ان کو "اوین" جیل لایا گیا تو ان منافقین کا کہنا تھا کہ اس جلال الدین فارسی کو گولی مار دینی چاہیے کیونکہ یہ سائنس مخالف، اسلام دشمن اور انسان دشمن فرد ہے! مختصر یہ کہ ان کی طرف سے علماء کی کتابیں پڑھنے کی بالکل اجازت نہیں تھی۔ فلسفے کے حوالے سے ان کی ایک دلیل یہ تھی کہ: "مارکس ایک فلسفہ ہے جو قابل عمل بھی ہے، فلسفہ ایسا ہونا چاہیے، اور یہ بات کہ جناب علامہ طباطبائی نےاپنے کمرے کے کونے میں بیٹھ کریہ لکھ دیا فلسفے کا عمل سے کوئی تعلق نہیں ہے! تو ایسا فلسفہ کس کام کا؟! یہ کتاب فلسفے کی کتاب تو نہ ہوئی؛ فلسفہ تو وہ ہے جو میرے لیے اجتماعی زندگی میں ترقی کے راستے کا تعین کرئے، مجھ میں تحرک پیدا کرئے، تو بس "روش رئالیسم"ایک ایسی کتاب ہے جو صرف آئیڈیالسٹ افراد اور رجعت پسندوں کے لیے کارآمد ہے نہ کہ کسی انقلابی کے لیے"۔
اور کتاب تفسیر المیزان کی تو آپ بات ہی نہ کریں ، جتنی بڑی گالیاں اس کتاب اور اس کے مصنف کو دے سکتے تھے دیتے تھے ، اس کتاب میں سے کوئی بھی بات پکڑ لیتے اور تنقید کرتے ہوئے کہتے کہ یہ شخص بھلا مفسر ہے؟! ایک مفسر بھلا ایسی گھسی پٹی بات کر سکتا ہے؟! مختصر یہ کہ انہوں نے جوانوں کو ان کتابوں کے خلاف اکسانے کا بیڑا اٹھایا ہوا تھا۔ وہ کسی کو یہ کتابیں پڑھنے کی بالکل اجازت نہیں دیتے تھے۔
یہ لوگ ان جوانوں کے خالی ا وقات کو اس طرح پر کرتے کہ یہ جوان ان کے چینل اور ان کے مقصد کے علاوہ اور کچھ سوچ ہی نہ سکیں۔
بعض کتابوں کا مطالعہ کرنے کا ایک درمیانی طریقہ یہ تھا کہ اگر انجینیر بازرگان کی کوئی کتاب پڑھنا چاہتے تومعین کرتے کہ فلاں صفحے سے فلاں صفحے تک بیان کریں گے۔ اس بنا پر اگر ایک شخص پندرہ منٹ میں پانچ صفحات پڑھتا ہے، تو وہ پندرہ منٹ سے زیادہ وقت نہیں دیتے۔ اس سے پہلے بھی اوراس کےبعد بھی، انہوں نے کلاس رکھی تھی اور ان دونوں کلاسوں کے درمیان وقفہ میں وہ کتاب دیتے اور کہتے کہ فلان مسئلہ کی طرف رجوع کرنے کے لیے اسے پڑھو۔ اور اسے صرف پانچ صفحات ہی پڑھنے کی اجازت ہوتی تھی۔ وہ لوگوں کو اس طرح سے چینلائز بھی کرتے کہ انہیں یقین ہو جاتا کہ جو چینل انہوں نے ان کے لیے مخصوص کیا ہے اس سے ایک قدم آگے بڑھنا کسی کھائی میں گرنے کے مترادف ہوگا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں [اراکین اور حامیوں] نے خود بھی فکری طور پر سوچنے کی ہمت نہیں کی اور خود کو قیادت سے الگ کرنے کی اجازت نہیں دی؛ جس کا چھوٹا سا نتیجہ یہ تھا کہ ان کی سوچ پانچ صفحات سے زیادہ پڑھنے، یا پڑھنے کا وقت بدلنے کی جانب جاتی ہی نہیں تھی!
انہوں نے ان افراد کی سوچ پر اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی تھی اور ان بے چاروں کو ایک مخصوص سمت سے ادھر ادھر ہونے کی اجازت نہ تھی، حتی مختصر سی تحقیق یا چھان بین کا بھی اختیار نہیں تھا۔
مشہد میں، میں نے دیکھا کہ یہ جناب حسن آلاد پوش بچوں کو آریان پور کی کتاب "سماجیات کا تعارف" پڑھا رہے ہیں۔ میں ابھی تک ان کے تحقیقی پس منظر کو نہیں جانتا تھا، اور چونکہ وہ ہمارے موقف کو مذہبی سمجھتے تھے، اس لیے انھوں نے یہ مسائل ہم سے شیئر نہیں کیے تھے۔ البتہ ان کے انداز فکر کا مجھے علم تھا ، میں اپنے بستر پر تھا اور غیر محسوس انداز میں سن رہا تھا۔ میں نے اٹھ کر کہا، مسٹر الادپوش، یہ مارکسسی بحث ہے۔ آپ بچوں کو یہ کیوں سکھا رہے ہیں؟اس کتاب پر تو کافی اعتراضات ہیں۔۔۔! دراصل میں نے "قصر "جیل میں یہ کتاب پڑھی تھی۔ میری بات سن کر وہ غصے میں آ گئے اور بولے کہ "ہم یہ باتیں بچوں کی معلومات کے لیےبتا رہے ہیں تاکہ وہ ان کے ذریعے مارکسسزم کے خلاف ایکشن لے سکیں" ۔ میں نے کہا : اچھا تو پھر کتاب پر کیے گئے اعتراضات کے بارے میں بھی بتائیں!۔ لیکن مجھے پتہ تھا کہ یقینا، وہ خود بھی ان اعتراضات کے بارے میں نہیں جانتے۔ میرے بروقت اعتراض اور کتاب پر میرے حملے کی وجہ سے وہ اگلے دن سے دوسرے بستر پر چلے گئے اور آگے پردہ بھی لگا لیا تا کہ کسی کو کچھ پتہ ہی نہ چلے[2]۔
[1] امیر حسین آریان پور، 1924 میں پیدا ہوئےاور 2001 میں انتقال کر گئے۔ وہ ایک ایرانی مصنف، لغت نویس، مترجم، اور یونیورسٹی کے پروفیسر تھے اور سماجیات کے مضمون پر مٹیریالزم کے نظریے کے قائل تھے۔
[2] ماخذ: اسلامی، جواد، مبارزہ بہ روایت شہید سید اسد اللہ لاجوردی ، تہران، ایرانی کلچرل پریس انسٹی ٹیوٹ، ایران پبلی کیشنز، 2022، صفحہ۔ 147.
صارفین کی تعداد: 128








گذشتہ مطالب
- خشاب ھای پر از تکبیر[تکبیروں سے بھرے (بندوق کے) میگزین]
- گلی کوچوں اور بازار کے لوگوں کی طرف سے امداد
- بعقوبہ کیمپ میں گمنام قیدیوں کے درمیان بیتے ہوئے کچھ ماہ
- منافقین کے بارے میں مطالعاتی کورس
- حاجی حسین فتحی کا حج سے واپسی پر اظہار خیال
- رونے کے بجائے ہنس رہی تھی
- مدرسہ فیضیہ کے حادثے کے بارے میں ڈاکٹر باقر کتابی کی روایت
- سردار محمد جعفر اسدی کی یادوں سے
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
گلی کوچوں اور بازار کے لوگوں کی طرف سے امداد
میں جو کچھ لکھ رہا ہوں وہ کچھ قالینوں،لالٹینوں، کھانے کے برتنوں، لباس اور بنیادی ضروریات کی اشیاء کی فہرست ہے جو ہم نے شادگان میں بے گھر ہونے والے لوگوں کے لیے تیار کی ہے، لیکن چونکہ سڑکوں پر عراقی فوج کا قبضہ ہے اس لیے ہمیں آبادان اور سد بندر کے پاس سے ہوتے ہوئے کافی لمبا راستہ طے کر کے وہاں پہونچنا ہوتا ہے"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔

