پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 48

مصنف: علی رستمی

ترجمہ: ضمیر علی رضوی
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2025-10-25


تخفیف اسلحہ کے بہانے، اورامانات کی سرکوبی

 

ملک میں 1977 کے موسم سرما کے اہم واقعات میں سے ایک، قم کے عوام کا قیام اور اس کے بعد تبریز میں قم کے شہداء کی یاد منایا جانا تھا جس کا عالمی رد عمل سامنے آیا اور ایرانی عوام کی انصاف اور آزادی کی مانگ کی آواز پوری دنیا کے لوگوں اور عالمی برادری کے کانوں تک پہنچی۔ انہی دنوں، شاہ کی حکومت نے ساواک اور جینڈرمیری کے ذریعےعمومی ’تخفیف اسلحہ‘ کے نام سے ایک مشترکہ اور وسیع آپریشن کے ساتھ، پاوہ اور اورامانات کے علاقوں میں انسانیت کے خلاف سب سے بڑا اور گھناؤنا جرم شروع کردیا۔ اس علاقے میں ایسا خوف و ہراس تھا کہ کافی عرصے تک بہت کم لوگ ہی اس سے واقف ہوئے۔

سالوں پہلے سے ہی اس علاقے کے اکثر رہائشیوں نے سرحدی اور قبائلی زندگی کے تقاضے کی وجہ سے اپنی حفاظت کے لیے کسی نہ کسی قسم کے اسلحے کا انتظام کر رکھا تھا۔ کچھ کے پاس ہینڈ گنز تھیں اور کچھ کے پاس شکاری بندوقیں اور گزشتہ سالوں کے دوران کئی بار مختلف طریقوں سے انہوں نے اپنا اسلحہ جمع کرادیا تھا یا اسے رکھنے کا لائسنس حاصل کرلیا تھا لیکن اس بار ان لوگوں کے ساتھ الگ طرح کا رویہ تھا۔ اس کا نام تخفیف اسلحہ تھا، لیکن اس کا اصل مقصد، کُرد عوام کو ڈرانا دھمکانا اور ان کے دلوں میں خوف اور دہشت بٹھانا تھا تاکہ وہ اپنی خام خیالی میں کُرد عوام کو تحریک اور انقلاب میں ایران کی عظیم قوم کا ساتھ دینے سے روک سکیں۔

انہوں نے ضلع نوسود میں سیروان کے ٹھنڈے اور تیز دریا کے کنارے، ہیروی گاؤں کو تخفیف اسلحہ کا ہیڈکوارٹر بنایا تھا۔ وہ لوگ، دیہاتوں کے بہت سے بزرگوں، مشائخ اور قبیلوں کے سرداروں کو اسلحہ رکھنے کے الزام کے بہانے وہاں لے جاتے تھے اور انہیں بے دردی سے برہنہ کرکے دریائے سیروان کے پانی میں ڈال دیتے تھے اور انہیں ذلیل کرنے، کوڑے مارنے اور تشدد کرنے کے بعد، اسلحہ جمع کرانے کے لیے انہیں ان کے آبائی علاقوں میں بھیج دیتے تھے۔ وہ لوگ ان سے کہتے تھے : ’’جب تم گاؤں پہنچو گے تو اپنے تمام قبیلے والوں کو جمع کرو گے اور تم لوگوں کے پاس جتنا بھی اسلحہ اور کارتوس ہوگا 48 گھنٹے کے اندر یہاں لاکر جمع کراؤ گے۔ ورنہ دوبارہ یہی حال ہوگا!‘‘

تشدد زدہ افراد، مجبور ہوجاتے تھے کہ جیسے بھی ہو ایک اسلحے کا بندوبست کریں اور ڈرتے اور کانپتے اسے ہیروی گاؤں لے جائیں تاکہ تخفیف اسلحہ کے جلادوں سے جان چھڑا سکیں۔ اورامانات اور پاوہ کے عوام پر بہت رسوائی، پریشانیاں اور مصیبتیں آئیں جنہیں بیان کرتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے۔ میں اس گروہ کے کارناموں کا صرف ایک نمونہ بیان کرنے پر اکتفا کروں گا۔ سرکوبی کرنے والے اس گروہ نے تخفیف اسلحہ کے نام پر کچھ ایسا کیا کہ بعد میں اس وحشیانہ تشدد کے نتیجے میں علاقے کے بہت سے مرد، بانجھ ہوگئے۔ ظلم اس حد تک بڑھ چکا تھا کہ قبیلوں اور علاقے کے مشہور گھرانے کے بڑوں کو تشدد، اذیت اور گھر پہنچنے کے بعد 48 گھنٹے کے اندر اگر ان کے پاس اسلحہ ہوتا تھا تو وہ اسے ہیروی گاؤں لے جاتے تھے اور اگر نہیں ہوتا تھا تو وہ کسی بھی طرح اس کا بندوبست کرتے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ خفیہ طور پر عراق جاتے تھے اور اردگرد کے دیہاتوں سے اسلحے کا انتظام کرتے تھے اور اپنی عزت بچانے کی خاطر تخفیف اسلحے کے ذمہ داران، کیپٹن کریمی اور سارجنٹ نہاوندی کے پاس جمع کراتے تھے۔ اسلحہ رکھنے کا اعتراف کرنے والوں میں سے اکثر لوگوں کے پاس نہ تو گھروں میں کسی قسم کا اسلحہ ہوتا تھا اور نہ ہی ان کے رشتہ داروں کے پاس، تکلیف اور تشدد سے چھٹکارا پانے کے لیے وہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے تھے، کیونکہ ان میں کوڑے کھانے یا دریائے سیروان کے ٹھنڈے اور جمے ہوئے ساحل کے پانی میں رہنے کی طاقت نہیں تھی۔

اس ذہنی آپریشن کی وجہ سے اسلحے کی قیمت پہلے سے کئی گنا بڑھ گئی تھی؛ کیونکہ گرفتار شدہ افراد کو کسی بھی طرح اسلحہ کلیکشن سینٹر میں کوئی اسلحہ جمع کرانا ہوتا تھا۔ عجیب صورتحال تھی۔ جن لوگوں کے پاس گھر میں کوئی اسلحہ نہیں ہوتا تھا وہ اسلحے کا انتظام کرنے اور اسے خریدنے کے لیے آس پاس کے دیہاتوں کا سفر کرنے پر مجبور تھے۔ اس دوران، عراق کے پڑوسی دیہاتوں میں اسلحے کے کچھ اسمگلروں اور ڈیلروں نے خوب پیسہ کمایا۔

نوریاب گاؤں کے کچھ رہائشیوں کو بھی اسمگلنگ کا  اسلحہ رکھنے کے جرم میں ہیروی لے جایا گیا اور ان پر اتنا ظلم کیا کہ پھر ان کی گاؤں واپس آنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ کچھ دوسرے لوگ بھی ملزم تھے جو مقدمے کا انتظار کر رہے تھے۔ عوام، مجھ جیسے لوگوں سے یہ امید کر رہی تھی کہ ہم اس ظلم پر خاموشی اختیار نہ کریں اور گاؤں کے امام جمعہ اور لوگوں کے رہنما کی حیثیت سے ان کا دفاع کریں۔

اس واقعے کے بعد اس ہفتے کی نماز جمعہ میں، میں نے ایک پرجوش خطبہ دیا اور لوگوں کو شدید متحرک کردیا۔ میں نے ان سے کہا: ’’لوگو! اگر تم میں غیرت ہے اور تم مسلمان ہو تو کل میرا ساتھ دینا تاکہ ہم پاوہ جائیں اور اس جرم کو انجام دینے والے افراد کے بارے میں اپنا مؤقف اختیار کرسکیں۔

اگلے دن قریب 150 گاؤں والے میرے ساتھ پیدل، پاوہ آئے۔ ساواک کے دفتر کے سامنے جمع ہونے کے بعد ہم نے ساواک کے چیف سے ملنے کو کہا۔ کچھ دیر بعد، ساواک کی خوفناک عمارت کا چھوٹا دروازہ کھلا اور ایک اہلکار نے مجھے مظاہرین کے نمائندے کی حیثیت سے اندر بلایا۔ یہ پہلی بار تھا کہ جب میں ساواک کے دفتر میں قدم رکھ رہا تھا۔ صحن میں داخل ہونے کے بعد، میں کچھ سیڑھیوں سے اوپر چلا گیا۔ بائیں جانب دو چھوٹے کمرے تھے جو ابھی تک موجود ہیں۔ مجھے ایک کمرے میں جو ویٹنگ روم تھا، بھیجا گیا۔ جب میں کمرے میں داخل ہوا تو میں نے وہاں ’بایزید بزرگ امید‘ نامی پاوہ کے ایک رہائشی کو دیکھا جو بہت پریشان اور اداس بیٹھا انتظار کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا: ’’آپ کو کس الزام میں یہاں لایا گیا ہے؟‘‘

اس نے بتایا: ’’میں عراق گیا تھا اور میں نے ہیروی کی تخفیف اسلحہ کمیٹی میں جمع کرانے کے لیے اسلحہ خریدا۔ اب مجھ پر غیر قانونی طور پر بیرون ملک سفر کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔‘‘

بایزید ایک فعال جوان تھا جو اپنی روزی کمانے کے لیے بہت زیادہ عراق آتا جاتا تھا اور اسی لیے وہ بہت پریشان نظر آرہا تھا۔ کچھ دیر بعد، ایک صاحب کمرے میں آئے اور آمرانہ اور دھمکی آمیز لہجے میں بات کرنے لگے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ ان کی چیخ و پکار کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا تو انہوں نے ہمدردی سے میری رہنمائی کی اور کہا: ’’ہم بھی آپ کی طرح اس صورتحال کے خلاف ہیں۔ ہم نے کمانڈر تک اپنی بات پہنچا دی ہے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ لوگ، گورنر آفس جائیں اور وہاں جا کر اس مسئلے کا کوئی حل تلاش کریں۔‘‘

میں نے جناب بایزید بزرگ امید صاحب کو الوداع کہا اور ان کے لیے دعا کی۔ میں ساواک کے دفتر سے باہر نکلا اور لوگوں کو گورنر آفس کی طرف لے گیا۔ ہم نے گورنر آفس کے سامنے دھرنا دیا۔ میں نے اور جناب کاکاویس سبحانی صاحب جو دوریسان کے گاؤں والوں کے دفاع کے لیے آئے ہوئے تھے، پاوہ کے گورنر سے ملاقات کی اور بات چیت کے بعد ہماری سمجھ میں آیا کہ ان بے چاروں کا بھی تخفیف اسلحہ کے گروہ پر کوئی کنٹرول اور اختیار نہیں ہے لیکن انہوں نے ہمیں ہمدردانہ مشورہ دیا جو بہت کام آیا۔ انہوں نے کہا :’’یہ گروہ شاہ کے دربار سے ہدایات لیتا ہے۔ گزشتہ روز تہران سے ایک فوجی گروپ نوسود اور ہانی گرملہ بارڈرز کی جانب گیا ہے۔ اگر آپ لوگ واپسی کے راستے میں ان سے ملاقات کرسکیں تو آپ کو اپنے اقدامات اور احتجاج کا نتیجہ مل سکتا ہے۔ ورنہ اس سب کا کوئی کا فائدہ نہیں۔‘‘

ہمارے پاوہ کے سفر اور دھرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ہم فوراً نوریاب لوٹ گئے اور اگلی صبح کچھ قابل اعتماد لوگوں کے ساتھ ہیروی گاؤں چلے گئے۔ ہیروی ہیڈکوارٹر کا سربراہ، سارجنٹ نہاوندی تھا جو اپنے برے رویے کی وجہ سے میری نظر میں ہٹلر تھا جس کے بارے میں نے تاریخ میں پڑھا ہے۔ تخفیف اسلحہ کمیٹی کا دفتر میری زوجہ کے ماموں، جناب انور ویسی صاحب کے گھر میں قائم تھا۔ کیپٹن کریمی بھی وہاں موجود تھے۔ گھر کے مالک اور تخفیف اسلحہ کے اہلکاروں نے اس دن مولانا کے لباس کے احترام میں ہم پر احسان کیا اور ہماری پوری بات سنی۔ میں نے انہیں بتایا: ’’اگر آپ لوگوں کا یہ پرتشدد رویہ جاری رہا تو ہمارے لوگ گاؤں چھوڑنے اور شاید سرحد پار جانے پر مجبور ہوجائیں گے۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ مخبروں کی جھوٹی خبروں پر کان نہ دھریں اور اگر واقعی میں آپ کے پاس پاوہ شہر کے لوگوں کے پاس اسلحہ موجود ہونے کے بارے میں کوئی ٹھوس ثبوت ہے تو ان کی لسٹ آپ مجھے دے دیں اور مطمئن رہیں، نوریاب کے لوگ میری بات مانتے ہیں، میں خود ان سے اسلحہ لے کر آپ کی تحویل میں دے دوں گا۔ میں آپ سے چاہتا ہوں کہ آپ ہمارے لوگوں کو ذلیل و خوار نہ کریں۔‘‘

ہیڈکوارٹر کے سینئر کمانڈر، کیپٹن کریمی نے میری تجویز سے اتفاق کیا اور سارجنٹ نہاوندی کو ذمہ داری سونپی کہ چار اہلکاروں کے ساتھ وہ نوریاب گاؤں آئے۔ میرے گھر میں دو دن اور ایک رات ٹھہرنے کے بعد اس نے پیش کردہ تجویز پر عمل کیا۔ لوگوں کے حقوق کا خیال کرتے ہوئے میں نے انہیں اپنے چھوٹے سے گھر میں جگہ دی اور یہاں تک کہ ایک رات کے لیے میں نے انہیں گھر بھی دیا اور اللہ کے فضل سے ان دو لوگوں کے علاوہ کہ جنہیں پہلے بلایا گیا تھا میں نے کسی پر دست درازی نہیں ہونے دی۔

نہاوندی نے نوریاب کے تقریباً دس گاؤں والوں کی لسٹ بنائی ہوئی تھی اور وہ دعوا کر رہا تھا کہ اس کے پاس ان لوگوں کے مسلح ہونے کی پکی رپورٹ ہے۔ اس نے وہ نام مجھے دیے، میں نے ان دس لوگوں کو بلوایا اور ان سے گزارش کی کہ رضائے الہٰی اور گاؤں کی سلامتی کے لیے اگر ان کے پاس کوئی اسلحہ ہے تو جمع کرادیں۔ ان میں سے چار یا پانچ لوگوں کے پاس اسلحہ تھا۔ انہوں نے اسلحہ جمع کروادیا و اور اس معاملے کی رپورٹ تیار کرلی گئی۔ ایسا کرکے ہم نے گاؤں میں انسانی تباہی کا راستہ روک دیا۔ اس منصوبے کے ذریعے ہمارے گاؤں میں یہ معاملہ ختم ہوگیا اور دوسرے گاؤوں کے لیے یہ ایک نمونہ بن گیا۔

اس علاقے کے عوام کے ساتھ پہلوی حکومت کے برے سلوک کا ایک ماضی ہے جس کا تعلق سن 1955 سے ہے۔ محمد رضا شاہ کے اقتدار میں آنے اور امریکا کی اس کی حمایت کے ساتھ ہی کُرد، لُر اور قشقائی قبائل کی سرکوبی دوبارہ ایجنڈے کا حصہ بن چکی تھی۔ بدقسمتی سے اس کی فورسز نے اورامانات کے علاقے میں ظلم اور بربریت کو ناقابل تحمل حد تک پہنچا دیا تھا۔

آرمی کے بے رحم کمانڈر، غلام علی اویسی کے حکم پر بہت سے علاقوں پر مسلسل بمباری کی گئی۔ زردوئی گاؤں میں جب لوگوں نے بمباری سے بچنے کے لیے مسجد میں پناہ لی ہوئی تھی تو بدقسمتی سے مسجد بھی بے رحم پائلٹس کی بمباری سے محفوظ نہ رہ سکی اور ایک ظالمانہ اقدام میں گاؤں کے دس نہتے لوگ جاں بحق اور ایک بڑی تعداد زخمی ہوئی۔

اس بمباری میں، ایک یادگار خلاف عادت واقعہ اور کرامت سامنے آئی جو لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہوگئی اور وہ گاؤں کے ایک قدیمی اور قلمی قرآن مجید کا محفوظ رہ جانا تھا، جو گاؤں والوں کے مطابق، بمباری اور دھماکے کی لہر سے مسجد کی محراب سے اڑ کر پچاس میٹر سے زیادہ دور جا کر گرا تھا اور حیرانگی کی بات یہ ہے کہ اس قابل احترام قلمی صحیفے کے کسی ایک صفحے کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔ اس واقعے کے عینی شاہدین اور باینگان کے زدردوئی گاؤں کے لوگوں نے اس واقعے کو معمولی نہیں سمجھا، بلکہ اسے دین کی کرامت، الٰہی معنویت اور قرآن کا معجزہ سمجھا اور یہ واقعہ اور قرآن مجید کی کرامت، اس بڑی مصیبت میں ان کے دلوں کی ڈھارس بن گئی۔ اس قلمی قرآن مجید کو تین صدیوں پہلے علاقے کے ایک بزرگ نے بہت خوبصورت خط میں تحریر کیا تھا اور ان تین صدیوں میں اس کی حفاظت کی گئی تھی۔

اس قتل و غارت اور بمباری کا نتیجہ دیہاتوں، جوانرود اور پاوہ کے لوگوں کی مزید جرأت مندی کے علاوہ کچھ نہ نکلا۔ انہوں نے شہنشاہی حکومت کے خلاف ’مبارزان کُرد مقیم ایران و عراق‘ کے نام سے ایک محاذ تیار کرکے عراقی حکومت کی حمایت سے لڑائی شروع کردی؛ یہاں تک کہ جوانرود کے کچھ قبائل نے اس وقت کے عراقی صدر، عبد الکریم قاسم سے ملاقات کی اور مدد کی درخواست کی اور اس کے بعد وہ مرحوم ملا مصطفیٰ بارزانی کی سربراہی میں عراقی کُردستان ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ عراقی کُردستان کی تحریک میں شامل ہوگئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے۔



 
صارفین کی تعداد: 24


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
رضا امیرسرداری کے بیانات سے اقتباس

مرصاد

مزے کی بات یہ تھی کہ انہوں نے "آئل سٹی" کے مسئلے کو ہر ممکن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی۔ اپنے تجزیے میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ "اگر ہم نے ابھی تک "نفت شھر" یعنی "آئل سٹی" کو برقرار رکھا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم دوسرے خطوں میں اپنے حقوق حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور ہم نے کوئی نیا کام نہیں کیا.
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔