تألیف میں زبانی تاریخ کے ساتھ مقامی تاریخ کے تعامل کی اہمیت(حصہ اول)

ڈاکٹر ابوالفضل حسن آبادی

ترجمہ: ضمیر علی رضوی

2025-10-31


مقدمہ:

تألیف، زبانی تاریخ کے انفرادی یا اجتماعی پروجیکٹس کے ملحوظ خاطر اکثر انٹرویوز کا حاصل ہوتی ہے۔ زبانی تاریخ میں تألیف، مختلف عوامل جیسے مراکز کی پالیسیز، مؤلف اور انٹرویوز کی اقسام پر منحصر ہوتی ہے۔ اس مقالے میں مقامی تاریخ اور زبانی تاریخ کے درمیان تعلق اور اس کے تألیف پر اثرات کے بارے میں بات کی جائے گی تاکہ مقامی تاریخ کی حقیقت، مقامی تاریخ کی تحقیقات میں زبانی تاریخ کے کردار اور مقامی زبانی تاریخ نویسی اور زبانی تاریخ کے درمیان اختلاف جیسے مسائل کو اٹھایا جاسکے۔ اس کے ساتھ مقامی تاریخ کی تحقیقات میں زبانی تاریخ کی درست تألیف کے عمل کے دوران موضوع کے مختلف پہلوؤں کو ملحوظ خاطر رکھنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔

لٹریچر ریویو کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایران میں زبانی تاریخ کی تشکیل اور ترویج میں گزشتہ ایک دہائی میں زبانی تاریخ کے مفاہیم، روش، موضوع کی تلاش اور انٹرویو کے میدان میں بہت پیشرفت ہوئی ہے، لیکن سن 2012 میں ڈاکیومنٹ سینٹر اور پارلیمنٹ اور سن 2015 میں انسٹی ٹیوٹ فار کنٹیمپریری ہسٹری اسٹڈیز اینڈ ریسرچ اور ایران اورل ہسٹری ایسوسی ایشن کے تعاون سے دو کانفرنسیں منعقد ہونے کے باوجود، زبانی تاریخ کی تألیف کے میدان میں کوئی مخصوص متن یا ہدایت نامہ تیار نہیں ہوسکا۔ غیر ملکی ذرائع کے میدان میں بھی زبانی تاریخ کے دوسرے ذرائع کی نسبت بہت کم کام ہوا ہے۔ اس میدان میں سب سے پہلی اہم کتاب مس ویلا باؤم کی ’’ٹرانسکرائبنگ اینڈ ایڈیٹنگ اورل ہسٹری‘‘(Baum,1991) ہے کہ جس میں زیادہ تر ٹرانسکرپشن کے طریقۂ کار کے بارے میں بتایا گیا ہے اور ایڈیٹنگ کے بارے وضاحت نہیں دی گئی ہے۔ زبانی تاریخ کی تألیف کے میدان میں مس شاپس کا مقالہ بھی ان کے پیشہ ورانہ ریکارڈ اور منعقد کردہ ورکشاپس کے باعث اہمیت کا حامل ہے(shops,2011)۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے تألیف کو ایک ذوق کا معاملہ سمجھا گیا ہے اور تجربات اور یہاں تک کہ عالمی سطح کے تجربات کو پیش کرنے کا رجحان بہت کم ہے۔ اس تحریر کی تحقیقی روش کتاب لائبریری روش ہے اور اس میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ ملکی اور بین الاقوامی مآخذ اور مختلف مصادیق کے جائزے کا سہارا لیتے ہوئے، موضوع کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ کیا جائے۔

 

 

 زبانی تاریخ کے ساتھ مقامی تاریخ کا تعامل اور تألیف پر اس کے اثرات

معلومات کی شناخت اور ان کی منتقلی کی ضرورت، زبانی تاریخ کے انٹرویوز کو گفتگو سے تحریر میں تبدیل کرنے اور ان کی ٹرانسکرائبنگ کی سب سے اہم وجہ ہے۔ لِنڈا شاپس زبانی تاریخ کی تین اقسام کو ذکر کرتی ہیں: سوانحی تألیف، کراس سیکشنل تألیف؛ مختلف انٹرویوز کو ایک عمومی عنوان کے ذیل میں جمع کیا جاتا ہے اور شراکتی زبانی تاریخ جو نظریے پر مبنی ہوتی ہے؛ کیونکہ وہ زبانی تاریخ کی تألیف میں نظریے کے کردار پر زور دیتی ہیں(shop, 2011, p.15-17)  نورائی بھی انفرادی انٹرویو، تفصیلی ڈھانچے کے ساتھ ترکیبی انٹرویو اور چیلنجنگ ڈھانچے کے ساتھ اجتماعی انٹرویو کو تألیف کی اقسام کے ذیل میں لائے ہیں(نورائی، 2007، ص 118)۔ 1990 کی دہائی میں فرش کا ماننا تھا کہ زبانی تاریخ، اپنے مراحل کی انجام دہی اور معلومات کی درجہ بندی پر منحصر ہے اور انٹرویو کے نتائج اور وضاحت پر کم ہی توجہ دی جاتی اور تألیف میں نظریہ سازی پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی(Frish, 1990, p.162)۔

مقامی تاریخ کو معاصر تاریخ میں تاریخ نگاری کی ایک شاخ سمجھا جاتا ہے۔ مقامی تاریخ میں خاندان، طبقے، قومی اور نسلی گروہوں اور بہت سی تاریخی تفصیلات کی شناخت کا زمینہ فراہم کرکے، معاشرے کی ایک عمومی تاریخ کے درست اور اعلیٰ ادراک کا راستہ ہموار کیا جاسکتا ہے۔ زبانی تاریخ جو کہ اپنی فعالیت کی نوعیت اور زبانی شکل کی وجہ سے عوامی ہوتی ہے(Samuel, 1976, p.192)، ممکن ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان بہت سی کہانیوں اور افسانوں سے جڑی ہو جنہیں ماننا ناممکن ہو اور وہ کہیں درج بھی نہ ہوں(Danielson, 1980, p.76)۔ شاید اس معلومات کی کوئی زیادہ تاریخی اہمیت نہ ہو لیکن یہ انسانی روح اور مقامی تاریخ نگار مؤلف کے فرائض کے درمیان ایک پیچیدہ تعلق قائم کردیتے ہیں۔ کبھی انہی کہانیوں اور افسانوں کے ذریعے، بڑے ماحول میں چھوٹے معاشروں کے زندگی گزارنے کے طریقۂ کار کی تعلیم دی جاتی ہے اور ان کی اہمیت اور ساخت کے تحفظ کا راستہ ہموار کیا جاتا ہے(serikaku, 1989,p.3)۔

 گربر، مقامی تاریخ کو معاشرے کی تاریخ کے ایک قریبی جائزے کے ذریعے اس کی تشکیل کا ایک راستہ مانتے ہیں اور یہ کہ لوگ ایک مشترک ماضی کے ذریعے معاشرے کو تشکیل دیتے ہیں اور اس جگہ کے بہتر ادراک کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ مقامی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کونسی چیز ایک شہر یا خطے کے لیے ضروری ہے، پس یہ ماضی کے ان راستوں کے دریافت کا ایک موقع ہوتی ہے جو حال کی تشکیل میں مدد کرتے ہے(Greber, 1979, p.66)۔ مقامی تاریخ، ایک معاشرے میں تاریخ کو مزید قابل رسائی بنانا ہے جو تاریخ کے تعلقات کے مطابق پروان چڑھتی ہے اور ان واقعات اور روایات کو منظر عام پر لے کر آتی ہے جو ماضی میں ہماری خیالات کو تشکیل دیتے تھے(Moffatt, Rich, 1952, p:87)۔

زبانی تاریخ بھی مقامی تاریخ کی طرح ماضی کے تاریخی حالات اور سرگرمیوں کے تناظر میں رقم ہوئی لوگوں کی زندگیوں کی تاریخ کو اکٹھا کرنے کے ساتھ، ان واقعات کی تفصیلی معلومات ہوتی ہے جو ایک سماجی ماحول میں، ملحوظ خاطر معاشرے کا احاطہ کرتی ہے۔ الیسانڈرو پورٹیلی کا ماننا ہے کہ زبانی تاریخ ہمیں نہ صرف یہ بتاتی ہے کہ لوگوں نے کیا کیا ہے بلکہ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ لوگ کس کام کے کرنے کو صحیح سمجھتے آئے ہیں اور اب ان کے خیال میں انہیں کیا کرنا چاہیے(portelli, 1988, p:68)، اسی طرح زبانی تاریخ ان لوگوں کی مدد کرتی ہے کہ جو عام طور پر معاشرے کے پسماندہ طبقے میں نظر انداز کردیے جاتے ہیں، تاکہ وہ ماضی کا درست ادراک حاصل کرسکیں اور مخاطبین کے لیے مستقبل کے دریچے کھول دیتی ہے(perks, Thompson, 2006, p:32)۔

زبانی تاریخ کی نوعیت اور طریقۂ کار کو مد نظر رکھتے ہوئے اس سے مقامی تاریخ کی تحقیقات میں بہت مدد لی جاسکتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ایک مقامی پروجیکٹ میں سماجی رویوں، ذاتی رائے، زبانی رسم و رواج کے متعلق بڑے پیمانے پر معلومات اکٹھا کی جائے، بیماریوں، دکھوں، تقریبات، خوشیوں اور غموں کے آداب و رسوم اور ان سے جڑے واقعات ان معاملات کے زمرے میں آتے ہیں(Danielson, 1980, p:68)۔ مقامی تواریخ، کہانیوں اور روایات کی ایک بڑی تعداد پر مشتمل ہوتی ہیں، جو دوسرے شعبوں کے ساتھ اس کے تعلق کا زمینہ فراہم کرتی ہیں(Ives, 1920, p:103)۔ روایتی زبانی ذرائع کا مقامی تواریخ کے ساتھ براہ راست تعلق ہوتا ہے اور زبانی تاریخ کے جمع شدہ کلمات جو آداب و رسوم کے تناظر میں فراہم کیے گئے ہوں وہ اس خطے کے افکار اور نظریات اور علاقائی تعلق کی لوکلائزیشن پر گہرا اثر ڈال سکتے ہیں(Gates, 1974, p:25)۔ حالیہ برسوں میں زبانی تاریخ کے کئی پروجیکٹس کی بنیاد زبانی روایات، آداب و رسوم اور مقامی تاریخ کے مواد پر رکھی گئی ہے(Crawford, 1974, p:25)، ان پڑھ اور ناخواندہ معاشروں کی زبان کو تحریر اور جامع مفاہیم(معاشروں کے اندر سے نہ کہ بیرونی نقطۂ نظر سے) کے ساتھ علمی زبان میں تبدیل کرنا، زبانی تاریخ کے فرائض میں شامل ہے جو تعلیم یافتہ فوکلورسٹس کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے۔ زبانی تاریخ کے شعبے میں سرگرم ایک فوکلورسٹ ڈورسن کا ماننا ہے کہ کسی خطے کی مقامی تاریخ کے جائزے کے عمل میں افسانوں، کہانیوں، غموں، خوشیوں اور تعصبات جیسے مختلف موضوعات میں زبانی تاریخ، فوکلور اور تاریخ کے درمیان ایک مشترکہ راستہ پایا جاتا ہے(Dorson, 1969, p:197) اور ان دو گروہوں کے تعاون کے ذریعے متمدن معاشروں میں ذاتی احساس کو زندہ کیا جاسکتا ہے اور اس عمل میں عوام کے کردار کو نمایاں کیا جاسکتا ہے۔

پیش کی گئی تمام تعریفوں پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مقامی تاریخ اور زبانی تاریخ میں معاشرے کے ساتھ رابطے اور عوام کے تاریخی تقاضوں کی جانب توجہ کے لحاظ سے بہت سے مشترکات پائے جاتے ہیں، جن کا پیش کردہ مواد کی حتمی تألیف پر براہ راست اثر پڑتا ہے، ان مشترکات کی درجہ بندی درج ذیل وضاحت کے ساتھ دو مستقل شعبوں میں کی جاسکتی ہے:

* یونیورسٹی تحقیقات کے شعبے میں مؤرخانہ نقطۂ نظر سے تاریخی ماضی کا جائزہ لیا جاتا ہے، تحقیق کا یہ شعبہ ان ذرائع سے متعلق ہے جو اقتباسی حیثیت رکھتے ہیں۔ زبانی تاریخ کا ڈیٹا، مخصوص معیارات کی بنا پر اکٹھا کیا جاتا ہے اور مقامی تاریخ کا تعلق بھی کلیات کو بیان کرنے یا ان کے بارے میں بحث کرنے سے نہیں ہوتا بلکہ اس کا تعلق تاریخ کے تنقیدی ادراک سے ہوتا ہے۔

* لوگوں کی عام زندگی سے تعلق رکھنے والے مطالعات کے شعبے میں، کہ جن میں بڑے پیمانے پر مختلف اور متضاد معلومات پائی جاتی ہیں۔ اس شعبے میں جمع شدہ معلومات کا مواد دلچسپ ہوتا ہے، لیکن اس کا تاریخی اعتبار اور استنادی حیثیت کم ہوتی ہے۔ تألیف کے تناظر میں زبانی تاریخ کا تعامل، وہی تعلق ہے کہ جس کے بارے میں ڈورسن کا ماننا ہے کہ اگر فوکلورسٹس صنف اور طبقے کی حیثیت سے باہر نکلیں اور زبانی تاریخ کا کام کرنے والی بھی سیاسی اور معاشی اشرافیہ پر کام کرنے سے باہر نکلیں تو یہ دونوں، تعصبات، افواہوں، خوف، نفرتوں، عداوتوں اور وفاداریوں جیسے مختلف کے موضوعات پر مشترکہ سرگرمیاں انجام دے سکتے ہیں۔ اس قسم کے تعاون میں جمع شدہ ڈیٹا، ماحصل کی شکل، زبان، ساخت، مواد کی قسم اور یقیناً مقصد اور حیثیت کے لحاظ سے تألیف میں بنیادی طور پر مختلف ہوتا ہے۔ اس قسم کی تألیف میں زبانی تاریخ کے محققین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جو چیزیں زبانی تاریخ کو تحریری تاریخ سے ممتاز کرتی ہیں وہ زبانی ہونا، بیانیہ کی شکل، ذہنیت(عینیت کے برخلاف)، انٹرویوور لینے والے اور راوی کے درمیان تعلق وغیرہ ہیں۔

زبانی تاریخ کے موضوعی ماحصل کی تألیف میں، موضوعات کی درجہ بندی اور جمع شدہ معلومات کی نوعیت کی وجہ سے ڈیٹا کو مستند بنایا جاسکتا ہے، جبکہ دوسری قسم کے ڈیٹا میں زیادہ تر معلومات دوسرے اور تیسرے واسطے سے اکٹھا کی گئی ہے اور اس مواد کو مستند نہیں بنایا جاسکتا کہ جسے مقامی یاد نگاری کہا جاسکے۔

زبانی تاریخ میں تألیف کی تیسری قسم، دوسری دو ساختوں کو ملا کر بنتی ہے جو معمولاً مقامی زبانی تاریخ کے بڑے پروجیکٹس میں ممکن ہوتی ہے۔ جن صورتوں میں ایک قصبے کی تاریخ کا جائزہ لیا جاتا ہے تو بڑے پیمانے پر سرکاری اور غیر سرکاری، مستند اور غیر مستند معلومات اکٹھا کی جاتی ہے جو مل کر ایک جگہ کی شناخت بن جاتی ہے اور اس جگہ کی تاریخ کی حتمی تألیف میں اس کی عملی ضرورت ہوتی ہے۔


oral-history.ir


 
صارفین کی تعداد: 18


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
رضا امیرسرداری کے بیانات سے اقتباس

مرصاد

مزے کی بات یہ تھی کہ انہوں نے "آئل سٹی" کے مسئلے کو ہر ممکن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی۔ اپنے تجزیے میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ "اگر ہم نے ابھی تک "نفت شھر" یعنی "آئل سٹی" کو برقرار رکھا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم دوسرے خطوں میں اپنے حقوق حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور ہم نے کوئی نیا کام نہیں کیا.
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔