زبانی تاریخ میں سچ اور جھوٹ
ڈاکٹر علی اصغر سعیدی
ترجمہ: ضمیر علی رضوی
2025-11-12
ہمارے ملک میں گزشتہ کچھ برسوں کے دوران مختلف وجوہات جیسے جنگ اور انقلاب کے سبب مختلف کہانیوں کی تخلیق میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی وجہ سے معاشرے میں زبانی تاریخ کی اہمیت دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ اگرچہ جمع آوری کے مرحلے میں بہت سی کاوشیں ہوئی ہیں لیکن زبانی تاریخ کا اہم مسئلہ، ان کہانیوں کی صداقت ہے جنہیں زبانی تاریخ تخلیق کرتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمیشہ زبانی تاریخ کی روشوں سے تخلیق ہونے والے بنیادی قضایا جو سننے والے اور زبانی متن کے عنوان سے ایک ناقابل انکار حقیقت کی خبر دیتے ہیں، ان پر کس طرح بحث کی جائے یا انہیں کس طرح تسلیم یا مسترد کیا جائے؟ پوری دنیا میں زبانی تاریخ کے محققین ایک عرصۂ دراز سے ان بنیادی قضایا یعنی کہانیوں کی تخلیق میں مصروف ہیں۔ اسی لیے اس سوال کے جواب کے لیے جستجو کی جارہی ہے کہ علمیات(معرفت شناسی) کے لحاظ سے بنیادی طور پر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ان بنیادی قضایا کو تسلیم کیا جائے؟ یہ دعویٰ کیسے کیا جاسکتا ہے کہ جس طرح کچھ لوگ غیر متزلزل، توجیہ شدہ اور عالم خارج کی خبر دینے والی کہانیوں کو آج کی زبانی تاریخ کے لیے ایک بدیہی بنیاد سمجھتے ہیں دوسرے لوگوں کو بھی ان کے یقینی ہونے کی تصدیق کرنی چاہیے؟
پہلے مرحلے میں اس سوال کے لیے علمیات(معرفت شناسی) کا جواب یہ ہے کہ حتیٰ اگر جمع آوری کے مرحلے میں کوئی غلطی نہ ہوئی ہو اور پہلے مرحلے میں سب کچھ یعنی کہانیوں کی جمع آوری اور انہیں متن میں تبدیل کرنا بہت دھیان سے کیا گیا ہو تو یہ اس بات کی ضمانت نہیں ہے کہ دوسرے محققین اور اہل علم بھی انہیں ابدی حقائق مان لیں۔ اس مسئلے کی اہمیت اس لحاظ سے ہے کہ زبانی تاریخ میں یہ بنیادی قضایا جو ان لوگوں کے اپنے واقعات اور تجربوں کی حکایات ہیں، نہ صرف نظریات کی تخلیق کا باعث بنیں بلکہ نظریات کی تردید اور تصدیق میں بھی اہم کردار ادا کریں۔ اسی لیے زبانی تاریخ میں بنیادی قضایا کی پائیداری، ایک اہم علمی معاملہ ہے۔ لیکن کہانیوں کے سچا یا جھوٹا ہونے کو جانچنے کی علمی بحث میں اب بھی کام کی بہت گنجائش باقی ہے۔ جمع شدہ حکایات کو جانچنے کے مرحلے سے متعلق علمیات کے سوال پر مختلف طریقوں سے بحث کی جاسکتی ہے۔ زبانی تاریخ کے کچھ محققین، زبانی تاریخ کی معلومات کی جمع آوری یا بنیادی قضایا کی تخلیق کے مرحلے کو جانچ کے مرحلے کے ساتھ مساوی قرار دیتے ہیں اور زبانی تاریخ کی کہانیوں کو صادق قضایا کے طور پر پیش کرتے ہیں کیونکہ وہ عالم خارج اور حقیقت کی خبر دیتے ہیں، جبکہ دوسرے کچھ محققین انہیں صرف بنیادی قضایا سمجھتے ہیں جو راوی کی نظر میں عالم خارج میں پیش آنے والے حقیقی واقعات کی خبر دیتے ہیں لیکن جانچ اور سچ اور جھوٹ کا معیار ہونا ایک الگ مرحلہ ہے۔
اس نقطۂ نظر کے مطابق، زبانی تاریخ میں بنیادی قضایا کی پائیداری ایک اہم علمی مسئلہ ہے۔ اس مسئلے پر بات کرنا اس لیے اہم ہے کہ ہم نے حالیہ برسوں میں کہانیوں کی جمع آوری میں بہت تیزی سے ترقی کی ہے جبکہ کہانیوں کی صداقت کے علمی اصولوں پر بہت کم بحث ہوئی ہے۔ اس مسئلے پر گفتگو سے کہانیوں کی جمع آوری کے طریقۂ کار کو مضبوط بنانے میں مدد مل سکے گی۔ بنیادی قضایا، ایک خارجی حقیقت کا بیان ہوتے ہیں۔ اگرچہ زبانی تاریخ میں ممکن ہے کہ ان بنیادی قضایا کی راوی کی جانب سے خبر دی گئی ہو اور انہیں حقیقت کی بنیاد قرار دیا جائے اور یہ عالم حقیقت کی خبر دیں لیکن علم میں بنیادی قضایا کی قبولیت اس وجہ سے نہیں ہوتی کہ وہ حقیقت سے جڑے ہیں اور ہم ان پر اس لیے توجہ نہیں دیتے کہ وہ 100 فی صد حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو یہ بحث ہی نہ ہوتی۔ بلکہ یہ بنیادی قضایا ایک انفرادی تجربہ یا انفرادی خیال ہوتے ہیں جنہیں ذہنوں کی ہم آہنگی یا خیالات کا وسط بننے کے عمل سے گزرنا ہوگا، لہٰذا انفرادی ذہنی تجربہ، وسطی خیال نہیں ہے یعنی ابھی خیالات کو جمع ہی نہیں کیا گیا۔ علم میں سب لوگوں کو علمی یا بنیادی قضایا کو بنانے اور جانچنے میں شرکت کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔ پس ذہنی تجربے سے حاصل شدہ بنیادی قضایا، ایک خیال یا دو خیالوں کے وسط اور وسطی خیال والے بنیادی قضایا کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ البتہ کچھ ایسے بنیادی قضایا ہوتے ہیں جو ہمیشہ بنیادی قضایا ہی رہتے ہیں اور ان کی صحت و سقم میں کوئی بھی شریک نہیں ہوتا۔ تاریخ میں ایسے بے شمار قضایا موجود ہیں۔
مصنف کی نظر میں جنگ اور انقلاب کی کہانیاں بھی انہیں میں سے ہوسکتی ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی مجاہد، کسی جنگی آپریشن کے بارے میں اپنی کہانی بتاتا ہے، یا کوئی مزدور کسی کارخانے میں اپنے کام کے طریقے کے بارے میں بتاتا ہے۔ لیکن اس طرح کی رپورٹس کو یقینی نہیں سمجھا جاتا۔ دوسرے لفظوں میں، یہ قضایا تبدیل ہوسکتے ہیں اور ممکن ہے کہ مستقبل میں یہ کسی بھی وقت تبدیل ہوجائیں۔ ایک جرمن ماہرِ عمرانیات ’یورگن ہابرماس‘ کی تشریح کے مطابق، زبانی تاریخ میں بنیادی قضایا کو ابدی نہیں سمجھا جاتا اور اس بات کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ اگر کوئی کسی چیز کی حکایت کردے تو وہ ایک ناقابل تبدیل حقیقت تک پہنچ گیا ہے۔ اگرچہ خود حکایت کرنے والا شخص ایک حقیقت کی خبر دے اور اس کی صحت کی تصدیق کرے۔
ان حکایات میں تبدیلی سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم کس چیز کو بنیاد قرار دیں؟ اور ہمیں قضایا کی ضرورت بھی ہوتی ہی۔ یہ قضایا، نظریات بناتے ہیں اور اسی طرح کسی نظریہ کی تصدیق یا تردید کرتے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ ہم حکایات کو جمع کرنے اور ان کی جانچ کے مرحلے میں اپنی اقدار کی مداخلت سے اجتناب نہیں کرسکتے۔ فلسفۂ معاشرتی علوم میں یہ ایک تسلیم شدہ مسئلہ ہے۔ چاہے ہم اپنی ذاتی رائے اور اقدار سے اجتناب تک پہنچنے کے لیے تمام ضروری مراحل کو طے اور تجاویز پر عمل کرلیں۔ اسی بنا پر طبیعیاتی علوم کہ جن میں عینیت کو علوم کی ذات میں داخل سمجھا جاتا ہے اور محقق اور موضوع تحقیق کا سامنا، ذہن اور عین(سبجیکٹ ۔ آبجیکٹ) کا سامنا ہوتا ہے، اس کے برخلاف ہیومینیٹیز اور سوشل سائنسز میں موجود زیادہ تر روشوں میں محقق اور موضوع تحقیق کا روبرو ہونا ذہن ۔ ذہن(سبجیکٹ ۔ سبجیکٹ) کا روبرو ہونا ہوتا ہے۔
لیکن ایک انفرادی بنیادی قضیے کے وسطی خیال بننے اور دوسروں کی شرکت کے بعد اس کے سچ یا جھوٹ کا تعین کیسے ہوتا ہے۔ ہابرماس(1971)[1] کی کتاب ’’علم اور انسانی مفادات‘‘ کے مطابق انسان کا ایک لگاؤ، اس فہم سے لگاؤ ہے کہ وہ تفسیری۔تاریخی علوم کو تخلیق کر سکتا ہے۔ ہم یہاں صرف سمعی متن کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لہٰذا ہماری روش، تفسیری(ہرمینیٹکس) ہے۔ سمعی متن سے سامنا کہ جو خود ایک سبجیکٹ اور با شعور سمجھا جاتا ہے اور محقق ایک سبجیکٹ کی حیثیت سے ایک دوسرے سبجیکٹ جو کہ وہی سمعی متن ہے کا سامنا کرتا ہے۔ یعنی محقق اور سمعی متن دونوں ایک جیسے ہیں کیونکہ دونوں شعور رکھتے ہیں۔ اگر یہاں ہم سمعی متن کا نتیجہ نکالنے یا اس میں تبدیلی لانے کی کوشش کریں گے تو ہم متن کے مقصد کو سمجھنے میں ہی پھنس جائیں گے۔ تجرباتی علوم میں ہم کنٹرول کے جس لگاؤ کو استعمال کرتے ہیں اسے ہم یہاں استعمال نہیں کرسکتے اور متن کو ذریعہ نہیں بنا سکتے۔ ہم صرف کسی خارجی شے یا آبجیکٹ پر تسلط حاصل کرسکتے ہیں نہ کہ کسی سمعی متن پر۔ اس کے سوا ہم کبھی بھی اسے سمجھ نہیں پائیں گے۔ لیکن یہان سمعی متن کی سچائی اور جھوٹ کا کیا ہوگا؟ اگر محقق، بنیادی قضایا کے سچ اور جھوٹ پر توجہ نہ دے تو یہ کیسے پتہ چلے گا کہ اس نے متون کو صحیح سے سمجھا ہے؟
ہابرماس یہ بات کرتے ہیں کہ اہل علم کا اجماع، سمعی متن کو صحیح سمجھنے کا معیار ہے۔ اس کے باوجود یہ اجماع، راوی کے ابتدائی قضایا کو تخلیق کرنے کے ہدف اور غرض سے متصادم بھی ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں معیار، قضایا کو تخلیق کرنے والے کا مقصد اور غرض نہیں ہوتا بلکہ یہاں بھی معیار اہل علم کا اجماع ہوتا ہے۔ اس لیے بنیادی قضایا کی قدر اور سچ اور جھوٹ کا تعین، اہل علم کے اجماع پر منحصر ہوتا ہے۔ کتاب ’’علم اور انسانی مفادات‘‘ میں ہابرماس کے نظریے کے مطابق ایک تجربی شناخت کا لگاؤ ابھارنے کے لیے زبانی تاریخ کے علم کے ظہور کی توقع اس وقت کی جاسکتی ہے کہ جب اس کا مقصد سمعی متون کے معنی کو واضح کرنا ہو(سیدمن، 2013، ص 167؛ Habermas, 1978)۔ تاریخ میں یہ تعلق اور لگاؤ، تفہیم پر مرکوز ہے اور تجزیاتی اور تجرباتی علوم سے اس کا امتیاز یہ ہے کہ محقق کو زیر مطالعہ موضوع کو کنٹرول کرنے اور پیش گوئی کرنے میں کوئی لگاؤ نہیں ہوتا۔ دوسرے لفظوں میں محقق، متون کو سمجھنے کے علاوہ کچھ نہیں چاہتا۔ یہی چیز اس کی روش یا طریقۂ کار کا تعین کرتی ہے جو وہی تفسیری یا ہرمینیٹکس کی روش ہے۔ اس صورت میں محقق کا سامنا بالکل سبجیکٹ کے سبجیکٹ سے سامنے کی طرح ہے، کیونکہ سمعی متن بھی محقق کی ہی طرح ہے۔ اس صورت میں چونکہ محقق کا مقصد، سمجھنا ہے اس لیے زبانی تاریخ کے سمعی متون یا بنیادی قضایا کے سچ اور جھوٹ ہونے کا کوئی مطلب نہیں بنتا۔ بنیادی قضایا کو صحیح سمجھنے کا مطلب، اہل علم کا اجماع ہے۔ یہ دعویٰ ان قضایا کو کہ جو ایک حقیقیت ہیں، مخدوش نہیں کرتا۔ یہ قضایا درحقیقت راویوں کے نقطۂ نظر سے صحیح ہوتے ہیں اور عالم حقیقت کی ایک رپورٹ ہوتے ہیں۔ بنیادی قضایا وہ ہوتے ہیں کہ جو عالم خارج کی خبر دیتے ہیں یا ہمارے احساسات کی خبر دیتے ہیں۔ اگر جنگ کی تاریخ ہو تو اس کی بنیاد ان مجاہدین کی حکایات پر ہونی چاہیے کہ جو محاذوں کی دنیا کی رپورٹس دیتے ہیں۔ بس اتنا ہی۔ لیکن فیصلے کے مقام پر، یہ اہل علم کا اجماع ہوتا ہے جو ان کے سچے یا جھوٹے ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، زبانی تاریخ کی تخلیق کے اس عمل کو کسی ایک راوی یا بہت سے راویوں پر انحصار کرتے ہوئے پورا نہیں کیا جاسکتا۔ اگرچہ یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ بنیادی قضایا پر اس طرح کا اجماع، معاشرے کے سماجی اقدار پر منحصر ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ایسا ہوسکتا ہے کہ قضایا کے صحیح فہم پر اہل علم کا اجماع، راوی کے اپنی حکایت کے صحیح ہونے پر استدلال سے مختلف ہو لیکن یہاں جو چیز ہے وہ حکایت کا وسط خیال ہونے کا پہلو ہے۔
اہل علم کا اجماع، وہی وسطی خیال کی بحث ہے۔ یعنی وہ چیز جس پر اجماع ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر موضوع میں لوگوں کی حکایات کو سب کی تائید حاصل ہونی چاہیے تاکہ وہ علمی قضایا بن سکیں۔ یعنی سب لوگ ان کی جانچ میں شریک ہوں۔ اس بنا پر حکایات کی جمع آوری اور انہیں نقل کرنا، ذہنی تجربے سے ایک وسطی ذہن یا وسطی خیال تک گزرنے کا راستہ کھول دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ زبانی تاریخ میں کم از کم ہمیں دو مرحلوں پر غور کرنا چاہیے : پہلا، متون کی تدوین کے مراحل ہیں، اس طرح سے کہ ان کا زبانی ہونا محفوظ رہے اور دوسرا مرحلہ ان متون کے سچ یا جھوٹ ہونے کو واضح کرنا۔ سمعی متون کے سچ اور جھوٹ کو جانچنے کا واحد راستہ، اہل علم کا اجماع ہے کیونکہ ہرمینیٹکس کی روش، متون کو سمجھنے کے لیے ہے نہ کہ ان کے سچ یا جھوٹ کے تعین کے لیے۔ محققین کا اجماع اس بات کا تعین کرتا ہے کہ بنیادی قضایا کا کونا سا فہم درست ہے۔ اس لیے بنیادی قضایا کا اصلاح کو قبول کرنے یا راویوں کا ان کی حکایت کرنا، اس میں اہل علم کے اجماع کے سائے میں تبدیلی آسکتی ہے۔ علماء کے اجماع میں سنگینی کو دانش اور استدلال پر منحصر اجماع کے ذریعے کم کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ اقدار کی مداخلت سے اجتناب اب بھی علماء کی بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔[2]
منابع:
۔ استیون سیدمن(1392)۔ کشاکش آراء در جامعه شناسی۔ ترجمه ھادی جلیلی۔ تھران: نشر نی۔
۔ Habermas, jurgen. Knowledge and human interests.(1978)
- [1] تنقیدی مکتب(critical theory) کی جانب توجہ کی ایک وجہ شاید یہ ہو کہ اس مکتب اور زبانی تاریخ میں ذہنی تجزیے پر توجہ دیے جانے کے لحاظ سے مماثلت پائی جاتی ہے۔ زبانی تاریخ پر توجہ اور اس سے نزدیکی کی وجہ بھی خود کے ابھرنے کے ذریعے ہے۔ ’’خود کا بیان‘‘ مختلف طریقوں سے ذہنی تجزیے کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور تنقیدی مکتب کا سروکار بھی نہ فہم سے ہے، نہ کنٹرول سے اور نہ ہی پیش گوئی سے بلکہ اس کا تعلق رہائی سے ہے، اس لحاظ سے یہ ذہنی تجزیے سے قریب ہے کہ جس میں اپنی رہائی کے لیے انسان کو خود پر تنقید کرنی ہوتی ہے۔ وہ کام جو ذہنی تجزیہ ’خود کے بیان‘ کے ذریعے کرتا ہے۔ خود، سادہ ترین صورت میں ذہن اور موضوع یا مسئلے کے درمیان ذریعہ بنتا ہے تاکہ باہری دنیا کو اندرونی دنیا سے جوڑ سکے یعنی ذہن کو عین سے۔
[2] دکتر علی اصغر سعیدی، دوفصلنامه علمی تخصصی تاریخ شفاھی، سال سوم، شمارہ 6، پژوھشکدہ اسناد سازمان اسناد و کتابخانه جمھوری اسلامی ایران، پاییز و زمستان 1396، ص .7-10
صارفین کی تعداد: 19
گذشتہ مطالب
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
مرصاد
مزے کی بات یہ تھی کہ انہوں نے "آئل سٹی" کے مسئلے کو ہر ممکن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی۔ اپنے تجزیے میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ "اگر ہم نے ابھی تک "نفت شھر" یعنی "آئل سٹی" کو برقرار رکھا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم دوسرے خطوں میں اپنے حقوق حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور ہم نے کوئی نیا کام نہیں کیا."1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔
