پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 52
مصنف: علی رستمی
ترجمہ: ضمیر علی رضوی
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2025-12-4
پہلوی حکومت کے خلاف سیاسی سرگرمیوں کا آغاز(پہلا حصہ)
سن 1978(1357) میں پہلوی حکومت کے دو مخالفین اور مقابلہ کرنے والوں کو شہر بدر کرکے پاوہ بھیج دیا گیا تھا۔ پاوہ میں ان دو لوگوں کے آنے سے عوام کو معلوم ہوا کہ شاہ کے لیے شیعہ سنی میں کوئی فرق نہیں ہے اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ حکومت کی مخالفت، زبان اور مذہب نہیں دیکھتی، جو بھی حکومت کی مخالفت کرے گا اس سے نمٹا جاے گا۔
پاوہ کے چھوٹے سے شہر نے ان دو مقابلہ کرنے والوں کا مہمان کے طور پر استقبال کیا اور ہمدان سے تعلق رکھنے والے حجت الاسلام عندلیب زادہ ہمدانی اور شہر ابہر کے ایک تاجر جناب یحییٰ قزوینی کی موجودگی، پاوہ کے باسیوں کی بیداری اور آگہی کا باعث بنی۔ جب لوگوں نے شہر بدری کی وجہ کا پتا لگانے کی کوشش کی تو انہیں معلوم ہوا کہ عندلیب زادہ صاحب کو شاہ کے خلاف تقریر اور قزوینی صاحب کو مکتب اسلام میگزین کا مطالعہ کرنے اور اسے تقسیم کرنے کے جرم میں شہر بدر کرکے پاوہ بھیجا گیا ہے تاکہ اپنے زعم میں، شاہ اور ساواک حکومت کو جاری رکھنے کے حوالے سے بے فکر رہ سکیں۔
عندلیب زادہ صاحب کے گھر ہمیشہ رش لگا رہتا تھا اور ان کا گھر شیعہ نشین شہروں بالخصوص ہمدان کے لوگوں کی آمد و رفت کا مرکز بنا ہوا تھا۔ وہ لوگ مسلسل ان سے ملنے آتے رہتے تھے اور پاوہ کے لوگ بھی گھر میں اور گھر سے باہر ان سے ملاقاتیں کرتے تھے۔ یحییٰ صاحب کے میرے اور میرے بھانجے بہرام ولدبیگی کے ساتھ تعلقات تھے۔ یہاں تک کہ ایک دن ہم نے انہیں نوریاب گاؤں میں دعوت دی اور نوریاب میں وہ ہمارے مہمان ہوئے۔[1]
عندلیب زادہ صاحب سے ہماری زیادہ تر ملاقات مولوی چوک پر واقع ملا سید عبدالقادر عزیزی کی کتابوں کی دکان میں ہوا کرتی تھی اور ہم خبروں اور واقعات کے بارے میں بات چیت کرتے تھے۔ عزیزی صاحب کی کتابوں کی دکان، ملنے کی اور خبروں اور افکار کے تبادلے کی جگہ تھی۔ عندلیب زادہ صاحب زیادہ تر سنی کتب کے مطالعے اور تحقیق کے بہانے ان کی دکان پر آتے تھے اور عوام اور اساتذہ سے واقف ہوتے تھے۔
ان دنوں ہم روزانہ، مذہبی اجتماعات میں شہر کے جوانوں کی موجودگی کو ملاحظہ کر رہے تھے اور ان کی یہ موجودگی بہت تیزی سے ایک منظم شکل اختیار کرتی جارہی تھی۔ شاہ کی حکومت نے جوانوں کو منحرف کرنے کے لیے آزادی اور تفریح کے بہانے کویمکال ہل کو کہ جو ان دنوں پاوہ کا ایک اہم ترین تفریحی مقام شمار ہوتا تھا، اسے شہر کے بدنام ترین اور غیر محفوظ ترین مقام میں تبدیل کردیا تھا؛ اس طرح سے کہ وہاں کثرت سے شراب فروشی اور شراب نوشی ہوتی تھی اور کچھ خراب اور بدنام لوگوں کی آزادی اور سرگرمیوں نے پاوہ کے اکثر مسلمانوں کی آزادی اور آرام و سکون چھین لیا تھا۔ وہ لوگ مسلسل جوانوں کو اس جگہ بلاتے تھے اور انہیں وہاں آنے کی ترغیب دیتے تھے اور بدقسمتی سے کسی حد تک وہ اس مقصد میں کامیاب بھی ہوگئے تھے۔
شہر کے انقلابی جوانوں نے حکومت کے منصوبے کے خلاف احتجاج کے طور پر 12 اگست 1978(21 مرداد 1357) کی رات کویمکال پر واقع شراب کی دکان اور جوئے کے اڈے کو بیک وقت نذر آتش کرکے انہیں تباہ کردیا تھا۔ فساد کے ان دو مراکز کی تباہی اور بربادی سے حکمرانوں میں خوف و ہراس پھیل گیا؛ اس طرح سے کہ اس واقعے کے بعد شاہ کے کارندے شہر کے بزرگوں اور مولاناؤں کے پاس پہنچے اور پیسے، لالچ اور ترقی کے ذریعے ان میں سے کچھ کو اپنا نمک خوار بنا لیا۔ ساواک نے تمام مولاناؤں کو حق السکوت کے عنوان سے کچھ رقم دینے کا فیصلہ کیا کہ شاید شہر میں شاہ کے خلاف موجودہ حالات کو بدلا جاسکے۔ ساواک کے فیصلے اور اس خبر کے نشر ہونے کے بعد، پاوہ شہر اور دیہاتوں میں یہ بات گردش کرنے لگی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاوہ کے بوائز ہائی اسکول کے طلباء اور اساتذہ کے ایک گروپ نے ایک میٹنگ میں اعلان کیا: ’’جتنا ساواک مولاناؤں کی مالی مدد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ہم اس سے زیادہ مالی مدد کرنے کے لیے تیار ہیں اور ہم مالی اعتبار سے ان کی مدد کریں گے۔‘‘ اور انہوں نے مولاناؤں سے درخواست کی کہ وہ ساواک کے دھوکے میں نہ آئیں۔ یہ انقلابی جذبہ، مولاناؤں کو آگہی دینے کے علاوہ، مولویت کے لباس کے تقدس کی حفاظت کے لیے مولاناؤں کو ایک انتباہ بھی تھا اور امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کرنے میں ان کی حوصلہ افزائی بھی۔
اس حرام معاملے میں صرف چند مولاناؤں نے ہی ساواک سے حق السکوت لیا اور شہر اور گاؤں کے اکثر مولاناؤں نے قیام کیا اور ساواک کے منصوبے کی مخالفت کی۔ ساواک اس نتیجے پر پہنچی کہ اب اس کے پاس پہلی جیسی طاقت نہیں رہی اور اس نے کچھ بزرگان اور مولاناؤں کو ڈرا دھمکا کر اپنی حکمت عملی تبدیل کرلی اور الحمد للہ ان دھمکیوں کا بھی مولاناؤں، اساتذہ اور جوانوں پر کوئی اثر نہ ہوا۔
6 اکتوبر 1978(14 مھر 1357) کو نکلنے والی ایک ریلی نے پاوہ شہر میں پھیلے خوف و ہراس کو توڑ دیا اور سیکیورٹی اداروں میں ایک عجیب ہلچل مچ گئی اور مولاناؤں، تاجروں، طلباء اور اساتذہ کے ایک ہجوم نے مولوی چوک پر ایک دھرنا دیا۔ دھرنے کے اختتام پر پاوہ ہائی اسکول کے ایک منتظم عبدالکریم فرہادی[2] صاحب کی جانب سے ایک قرارداد بھی پڑھی گئی اور لوگ بغیر کسی پرتشدد اقدام کے منتشر ہوگئے۔ ریلی کے شرکاء نے اس قرارداد کی شقوں میں اپنے مطالبات پیش تھے جیسے آئین پر عمل درآمد، شخصی آزادی کی فراہمی، سیاسی قیدیوں کی رہائی، بے روزگار افراد کے لیے روزگار کے مواقع کی فراہمی اور فلاحی اور علاج معالجے کے مسائل کا حل، ان مشکلات کے پیچھے شاہ کی حکومت کا ہاتھ تھا۔ انتظامی بدنظمی بالخصوص پاوہ کی جمعیت شیر و خورشید میں بدنظمی کے بارے میں ہر چھوٹے بڑے کو معلوم تھا اور اس ادارے کے عراقی معاودین[3] کے فنڈز کے غلط استعمال سے بھی کوئی لاعلم نہیں تھا۔
6 اکتوبر(14 مھر) کا اجتماع بعد والی تحریکوں کے لیے ایک اچھا قدم ثابت ہوا۔ عوام کے غصے کی آگ دن بدن بھڑکتی جارہی تھی اور ملک کے تمام واقعات اور خبروں پر غیر ملکی ریڈیو کے ذریعے نظر رکھی جارہی تھی۔ مدرسۂ قرآن کے اراکین نے جامع مسجد میں ایک ہنگامی اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا۔ حکام کے لیے وعظ و نصیحت کے بے فائدہ ہونے کے یقین کے ساتھ مدرسے کے اراکین نے عملی اقدامات کرنے اور اس تحریک کی قیادت کرنے کا فیصلہ کیا۔
26 اکتوبر(4 آبان) جمعرات کے روز، کچھ لوگوں نے مولوی چوک سے میئر آفس کی جانب ریلی نکالی اور شیر و خورشید(جمعیت) کی عمارت کے ساتھ واقع چوک پر شہدائے تبریز کے لیے فاتحہ خوانی کے بعد منتشر ہوگئے۔
اسی دن شام کے وقت، ہم مدرسۂ قرآن کی انتظامیہ کے لوگ علیٰ الاعلان عملی میدان میں اتر گئے اور ایام حج کی یاد منانے کے موقع پر پاوہ کے اس وقت کے امام جمعہ ملا ناصر ضیائی صاحب سے درخواست کی کہ وہ کل نماز جمعہ کے خطبوں میں، عوام کو جامع مسجد میں نماز عصر کے بعد ہونے والی علماء کی تقریریں سننے کے لیے شرکت کی دعوت دیں۔ ضیائی صاحب نے مدرسۂ قرآن کے منصوبے سے بے خبر، خطبوں کے بعد عوام کو ہمارے جلسے میں شرکت کی دعوت دی۔
[1] قزوینی صاحب کے ساتھ واقفیت اور مسلسل رابطہ اس بات کا باعث بنا کہ انہوں نے سن 1985(1364) کے ہفتۂ وحدت میں پاوہ کے قریب بیس مولاناؤں اور ذمہ داران کو ’ابہر‘ آنے کی دی۔
[2] انقلاب کے ابتدائی دنوں کے واقعات کے بعد انہیں برطرف کردیا گیا اور ابھی ان کی روٹی کی دکان ہے۔
[3] عراقی معاودین، عام طور پر وہ کُرد لوگ تھے جنہیں بعثی حکومت نے ایرانی نژاد ہونے کے بہانے 1971(1350) کی دہائی میں عراق سے نکال دیا تھا۔
صارفین کی تعداد: 16
گذشتہ مطالب
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
محمد؛ کردستان کا مسیحا
جتھےکے سامنے کھڑے لوگ پہلے حملے پر حیران رہ گئے، اس لیے وہ فورا بھاگ اٹھے۔ سڑک پرسکون ہو گئی اور لوگوں نے دکانوں کے شٹر اٹھا کر سکون کا سانس لیا۔"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔
