پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 53

مصنف: علی رستمی

ترجمہ: ضمیر علی رضوی
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2025-12-13


پہلوی حکومت کے خلاف سیاسی سرگرمیوں کا آغاز(دوسرا حصہ)

ان دنوں، میں نوریاب گاؤں کا امام جمعہ تھا۔ پاوہ کی نماز جمعہ کے منبر سے اس خبر کے اعلان کے علاوہ ہم نے پاوہ کے گرد و نواح کے دیہاتوں جیسے دوریسان اور خانقاہ کے آئمہ جمعہ کے ساتھ مل کر عوام کو اس تقریب میں شرکت کی ترغیب دی۔

27 اکتوبر 1978(5 آبان 1357) جمعے کی شام کے جلسے میں قریب ڈیڑھ ہزار لوگ جمع ہوئے۔ اکثر لوگ جلسے کے مقصد سے واقف تھے۔ نوریاب کی نماز جمعہ میں، میں نے ایک حدیث کا ترجمہ کیا تھا کہ جس کا مضمون یہ تھا کہ جب بھی معاشرے میں ظلم اور بدعت ظاہر ہو تو علمائے اسلام پر لازم ہے کہ وہ اپنا علم ظاہر کریں اور لوگوں کو اس سے آگاہ کریں۔ میں نے بہت سخت تقریر کی تھی۔ نماز جمعہ کے بعد قریب پچاس لوگوں نے پاوہ کی تقریب میں شرکت کے لیے میرا ساتھ دیا۔ اس گروہ میں توفیق کیانی اور حامد ولدبیگی صاحب کے علاوہ سب جوان تھے۔

جب ہم اجتماع کے مقام، جامع مسجد پہنچے تو جامع مسجد جوانوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ ہمارے توقع سے زیادہ مجمع تھا اور وہ بے صبری سے بادشاہی(شہنشاہی) نظام کے ظلم و ستم کو بیان کرنے کے لیے مسجد میں موجود مولاناؤں کی تازہ تقریروں کو سننے کے مشتاق تھے۔

نماز عصر کے بعد تلاوت کلام پاک سے تقریب کا آغاز ہوا اور بالترتیب ہم چار لوگوں ملا عبدالرحمٰن یعقوبی، حقیر، ملا عبدالرحمٰن ولدبیگی اور ملا ناصر سبحانی نے تقریر کی۔

تقریریں مکمل طور پر سیاسی اور جہادی نوعیت کی تھیں اور لوگ انہیں سننے کے لیے بے تاب تھے۔ ملا عبدالرحمٰن یعقوبی صاحب نے اپنی گفتگو کے آغاز میں خدا کی حمد ثناء اور پیغمبر اکرم(ص) پر درود و سلام بھیجنے کے بعد آنحضرت(ص) کا قائد المجاہدین کے عنوان سے ذکر کیا اور آیت ’’واعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیعَاً وَلَا تَفَرَّقُوا۔۔۔‘‘(آل عمران: 103) کی تفسیر میں لوگوں سے سیاسی، معاشی اور معاشرتی تمام میدانوں میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے کو کہا۔ یعقوبی صاحب نے کہا کہ ہماری عوام، معاشی لحاظ سے بہت نچلی سطح پر ہے اور علاقے کے مولاناؤں کی سادہ زندگی جیسے نوریاب اور دوریسان میں میری اور سبحانی صاحب کی زندگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے، حکومت کو عوام اور مولاناؤں کی غربت کا بالواسطہ قصوروار ٹھہرایا۔

ملا عبدالرحمٰن یعقوبی صاحب کے بعد، میں اسٹیج پر گیا۔ میں ایک جوان اور ایک حد تک اہل مطالعہ تھا اور دنیا کی خبروں سے بھی باخبر رہتا تھا اور میرے پاس تقریروں اور بالخصوص نماز جمعہ کے خطبوں میں بیان کرنے کے لیے نئی نئی باتیں ہوتی تھیں۔ بغیر کسی مبالغے کے خدا کے فضل و کرم سے لوگ مجھ سے محبت کرتے تھے اور میری گفتگو کو سنتے تھے اور میری حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ میری تقریر کا موضوع بھی اسلام میں جہاد تھا اور میرا طرز بیان مکمل طور پر سیاسی تھا۔ یوں کہوں تو بہتر ہوگا کہ موضوع اس حد تک واضح اور روشن تھا کہ ہر مخاطب اسے باآسانی محسوس کر رہا تھا اور جانتا تھا کہ یہ جہاد کس کے مقابلے میں ہے اور جہاد سے میری مراد کیا ہے۔ ملا عبدالرحمٰن ولدبیگی نے بھی پیغمبر اکرم(ص) پر اپنے درود و سلام میں جہاد کا خوبصورت لفظ استعمال کیا تھا۔

’’الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی آلہ و اصحابہ المجاھدین۔‘‘

ملا عبدالرحمٰن نے اپنی تقریر میں بہت واضح طور پر مرحوم سید قطب[1] کی ایک کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے بہت سخت نکات بیان کیے اور اسلامی زندگی کی تجدید اور اسلامی معاشرے کے قیام پر زور دیا۔ ان کی انقلابی تقریر کو پذیرائی ملی۔ اس وقت جب عوام کسی خطیب کی باتوں یا تقریر کی تائید کرنا چاہتے تھے تو سب مل کر تین بار ’’صحیح ہے‘‘ کے جملے کو دہراتے تھے۔

اس دن کا جلسہ ایک تندور کی طرح تھا جو لمحہ بہ لمحہ گرم اور بھڑکتا جارہا تھا اور استعمال کرنے کے لیے تیار ہوتا جارہا تھا۔ آخری مقرر ملا ناصر سبحانی صاحب نے بھی اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ سبحانی صاحب کے تمام جملے سیاسی پہلو کے حامل تھے؛ یہاں تک کہ ان کی تقریر کے آغاز میں حمد و ثنا میں بھی مکمل پیغام تھا۔ انہوں نے کہا: ’’پروردگار تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے عقل دی کہ میں اچھے اور برے میں تمیز کرسکوں؛ لیکن وہ مجھے ایسا نہیں کرنے دے رہے۔ پروردگار میں تیری حمد و ثنا کرتا ہوں کہ تو نے مجھے اتنی کانیں اور قدرتی وسائل جیسے تیل، دھاتیں اور کوئلہ دیے؛ حالانکہ انہوں نے مجھے نہیں دیا اور دوسرے لوگ انہیں دوسری جگہ لے گئے۔‘‘

سبحانی صاحب کی تقریر اتنی جوشیلی تھی کہ لوگ وجد میں آگئے اور ان کی تقریر کے بیچ بیچ میں ’’صحیح ہے‘‘ کے بجائے اللہ اکبر کے نعرے لگانے لگے۔ تقریر کے دوران ملا ناصر کو مسجد کے اردگرد، شاہ کے کارندوں کی موجودگی کا پتا چل گیا تھا جنہوں نے مسجد کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔ انہوں نے اپنی تقریر کے اختتام پر تقریب کے شرکاء سے تقاضا کیا کہ وہ آرام سے مسجد سے باہر نکلیں اور دوسروں کو کوئی بہانہ نہ دیں۔

چار دھواں دھار تقریروں نے بادشاہی(شہنشاہی) نظام کے بدن پر چار لشکروں کے برابر وار کیا؛ لیکن لوگوں کے مسجد سے باہر نکلنے سے پہلے ہی ساواک، پولیس اور جینڈرمیری کے اہلکار، منظم طریقے سے بغیر جوتے اتارے خانۂ خدا میں داخل ہوگئے اور لوگوں اور مسجد کے احترام کو پامال کرتے ہوئے انہوں نے قرآن مجید کے کچھ نسخوں کو بھی پھاڑ دیا۔ وہ لوگ ڈنڈوں، مکوں اور لاتوں کے ساتھ نہتے عوام اور مولاناؤں پر ٹوٹ پڑے اور ان میں سے کچھ کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ مسجد سے باہر لے گئے۔

قریب پانچ سو لوگ جو شاہی حکومت کے کارندوں کی کرتوتوں سے پریشان ہوچکے تھے، وہ مسجد سے باہر نکلے اور مسجد کی حرمت کی پامالی کے خلاف احتجاج کے طور پر ’’لوگوں کیوں بیٹھے ہو! ایران فلسطین بن چکا ہے!‘‘ جیسے انقلابی اور سخت نعرے لگاتے ہوئے مرکزی روڈ سے میئر آفس کی جانب چل پڑے؛ لیکن مسجد دخان کے پیچھے پہنچنے سے پہلے ہی سیکیورٹی اہلکاروں نے ان کا راستہ روک دیا۔ انقلابی جو اکثر جوان لوگ تھے، وہ گلیوں سے شہر کے مضافات میں چلے گئے اور ایک مناسب منصوبہ بندی کرکے پاوہ کے پیچھے واقع کوہستان سے ہوتے ہوئے شہر کے شمال شرق میں پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بانہ مران کے مارانی چشمے پر پہنچ گئے اور رات انہوں نے وہاں دھرنا دیا۔ ان کا مقصد پاوہ کی عوام اور ریاستی حکام تک اپنا پیغام اور  مطالبات پہنچانا تھا۔ کچھ گھنٹوں بعد، جب عوام کو اس انقلابی اقدام کی خبر ملی تو لوگوں کی ایک بڑی تعداد کھانے پینے اور گرم رکھنے کا سامان لے کر دھرنے کی جگہ پر پہنچ گئی اور ہمیں بعد میں پتا چلا کہ لوگوں کی تعداد ہزار تک پہنچ چکی ہے۔

اس دن سیکیورٹی اہلکاروں نے عوام، مولاناؤں اور مسجد کی بہت توہین اور بے حرمتی کی تھی۔ یہاں تک کہ ایک مقامی اہلکار نے میرے سینے پر اپنی بندوق رکھ کر مجھے قتل کی دھمکی بھی دی تھی اور کہا: ’’مجھے تم سب کو قتل کرنا ہوگا۔‘‘

ہم سب مسجد کے حوض کے گرد جمع تھے۔ اہلکاروں کا دباؤ اور ان کی بدتمیزی اپنے عروج پر تھی۔ میں اور کچھ مولانا، جامع مسجد کے ساتھ واقع جناب ماموستا ملا زاہد ضیائی کے گھر گئے۔ ہمارے ماموستا کے گھر میں داخل ہوتے ہی سیکورٹی اہلکاروں نے اس گھر کو گھیر لیا۔ اس رات ہم پھنس چکے تھے۔ ہم سب کے لیے وہ ایک کٹھن رات تھی؛ خاص طور پر ہم مولاناؤں کے لیے جنہوں نے تقریر کی تھی۔ شاہ کے کارندوں نے اپنی ان جارحانہ حرکتوں سے شہر میں خوف و ہراس پھیلا دیا تھا۔ ہم محاصرے میں تھے اور ہر پل ہمیں شہر کے عوام اور ان جوانوں کی فکر پریشان کر رہی تھی جنہوں نے بانہ مران کے کوہستان میں جا کر غاروں اور ٹیلوں میں پناہ لے لی تھی۔ ہم نے ٹیلی فون کے ذریعے کرمانشاہ میں ماموستا ملا محمد ربیعی[2] اور آیت اللہ جلیلی[3] صاحب کے دفتر، سنندج میں مفتی زادہ صاحب کے دفتر اور قم کے چند دیگر آیت عظام کے دفاتر سے رابطہ کیا اور انہیں مسجد اور قرآن مجید کی بے حرمتی کے افسوسناک واقعے سے آگاہ کیا۔

 

 


[1]  کتاب ’ما چه بگوییم؟‘ سید قطب کی تحریر، ترجمہ: سید ہادی خسروشاہی۔

[2]  محمد ربیعی ولد ملا عبد الحکیم ولد ملا محمد رحیمی، دیواندرہ کے نواحی گاؤں میں سن 1932(1311) میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے پانچ سال کی عمر میں قرآن کی تعلیم اپنے والد اور عربی کی صرف و نحو کی ابتدائی کتب کتب کی تعلیم اپنے چچا سے حاصل کی، سن 1954(1333) میں قشلاق سفید گاؤں میں سید علاء الدین حسینی سے افتاء اور تدریس کی اجازت لی، بارہ سال تک قشلاق سفید میں تدریس کے ساتھ ساتھ دفتر ازدواج و طلاق میں بھی مشغول رہے، سن 1966(1345) میں دنیا کے 22 قاریوں کے بیچ مقابلے میں دوسری پوزیشن حاصل کی اور درحقیقت مشہور مصری قاری عبد الباسط عبد الصمد کے بعد دوسری پوزیشن حاصل کی۔ سن 1978(1357) میں عوام کی جانب سے کرمانشاہ کی جامع مسجد امام شافعی کے خطیب اور امام جمعہ منتخب ہوئے اور اپنے زندگی کے اختتام تک اسی مسجد میں مذہبی سرگرمیاں انجام دیتے رہے۔

[3]  عبدالجلیل جلیلی ولد آیت اللہ محمد ہادی جلیلی، پیدائش سن 1923(1302)؛ کرمانشاہ کے ایک بڑے عالم دین ہیں کہ جنہوں نے تہران یونیورسٹی کی فیکلٹی آف لاء سے گریجویشن تک جدید علوم کی تعلیم مکمل کی اور ادبیات اور حوزہ کی اعلیٰ سطح کی تعلیم، میرزا محمد مجاہدی تبریزی اور شہاب الدین مرعشی نجفی جیسے بزرگ اساتذہ کے کی خدمت میں مکمل کی۔ انہوں نے قریب دس سال آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کے فقہ اور امام خمینی کے اصول کے درس خارج میں شرکت کی۔



 
صارفین کی تعداد: 17


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
عبدالحمید رؤفی نژاد کی یادداشت

حسن باقری کے شناسائی کے گروہ کی رہنمائی

حسن باقری نے جنگ کے ہنگاموں میں بھی اپنی فطری اور ہنری ذوق کو محفوظ رکھا تھا۔ شجاع گاؤں کی عمارت میں ایک کمرہ تدارکات کے لیے تھا۔ جب ہم موٹر سائیکل پر سوار ہونے لگے تو دیکھا کہ وہ دوبارہ کمرے میں گئے۔ میں انتظار کرتا رہا لیکن وہ نہیں آئے
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔