امام خُمینی کی رہائی کے بعد قم واپسی

ترجمہ: ابو زہرا علوی

2022-3-13


۴/۴/۱۹٦۴ کی آخری شب میں ہم  مدرسہ مھدیہ میں تھے۔ رات تھی۔  مدرسے کا بلب مدھم مدھم سی روشنی دے رہاتھا۔  اچانک ایک آواز سنی۔ آواز کے سنتے ہی باہر سے شور کی آواز آنے لگی ہم باہر نکلے۔  ایک ٹیکسی ڈرائیور تھا جو چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا:  "طلاب اکرام،  خوشخبری،  حضرت آیت اللہ العظمیٰ روح اللہ خُمینی کو آزاد کردیاگیاہے۔"

ہمیں اپنے جوتوں کا  ہوش نہیں تھا یہ سنتے  ہی انکے گھرکہ جو یخچال قاضی میں تھا دوڑ پڑے۔  جو  چیز میرے لئے جالب تھی کہ بہت سے پُراخلاص لوگ ایسے بھی تھے جووضو کر رہے تھے۔ ہمیں کچھ ہوش  نہیں تھا، بس امام خُمینی کی زیارت کرنے کے شوق میں یخچال قاضی میں انکے گھر کی جانب دوڑے جارہے تھے،  ہم امام خُمینی کے گھرکی جانب رواں دواں تھے۔  حضرت امام خُمینی ایک لکڑی کے اسٹول پر کھڑکی کے سامنے بیٹھے تھےاس طرح کہ جو بھی کمرے میں داخل ہوتاوہ آپ کو دیکھتا انکے گھر کے روازے پر زیارت کرنے والوں کا ایک جمع غفیر تھا۔  اس رش میں ایک بوڑھا بھی تھا حضرت امام خُمینی کو دیکھتے ہی اس نے قمی لہجے میں تین مرتبہ کہا:  "آقا جان کجا بودی؟  یعنی آغا آپ کہاں تھے؟ یہ کہا اور بےہوش ہوگیا لوگ اس بوڑھے کو اُٹھاکر ہسپتال لےگئے۔  امام خُمینی کی رہائی لوگوں کے لئے ایک عید لے کر ائی تھی۔  گاؤں دیھات سے بھی لوگ جوق در جوق امام خُمینی کی حمایت میں پلے کارڈ اٹھا اسپیکروں پر نعرے لگاتے امام خُمینی کی زیارت کے لئے قم آرہے تھے۔  قم کے ہر محلے میں یکے بعد دیگرے  جشن منایا گیاتھا۔

ان شرائط میں معلوم تھا کہ حوزہ بھی ایک شاندار جشن منائے۔  طے پایاکہ یہ جشن مدرسہ فیضیہ میں منایاجائے۔  اس بات کی پیشنگوئی تھی کہ جشن کے دن بجلی اور پانی کہ جو ساواک کے کنٹرول میں تھا کاٹ دیا جائے اور جشن درھم برھم ہوجائے۔

اس رات ہمارے ایک دوست جناب شیخ علی رزاقی،  نے امام خُمینی کی شان میں بہترین اشعار کہے جو انھوں جناب حجتی کے مقالے سے پہلے کہے:

شکرلله جان جانان در جهان، جان جهان شد

جسم بی‌جان جهان با نرخ جان دارای جان شد

ماهی از چاهی برآمد جلوه‌گر در آسمان شد

از پس ابر حوادث، خسرو خاور عیان شد

نسل موسی مثل موسی منجی بیچارگان شد

از دم روح‌الهی، جان به جسم مردمان شد

اللہ  کا  شکر کہ اس نے اس دنیا میں زندگی  عطاکی، بے جان جسم میں ایک روح پھونکی گئی،  کنویں کی تہہ سے ایک مچھلی نکلی اور آسمان پر چمک اُٹھی، ایسے واقعات رونما ہوئے کہ خسروخاورعیاں ہوگئے،  موسیٰ کی نسل سے موسیٰ کی مانند غریبوں کا نجات دھندہ بنا،  روح الہی کے دم سے  روح  لوگوں کے جسم کا جزبنی گئی۔

یہ اشعار بہت اچھے تھے اور مناسبت سے پڑھے گئےتھے۔  اس کے بعد ایک قرارداد پڑھی گئی کیونکہ یہ قرارداد امام خُمینی کی مرضی کی خلاف پڑھی گئی تھی،  اس لئے انہیں اچھی نہیں لگی۔  اس کے بعد جناب خز علی ممبر پر تشریف لے گئے۔  میری نظر میں اس شب کے قہرمان جناب خزعلی تھے۔  انھوں نے اپنی تقریر کی ابتدا قرآن کی اس آیت سے کی جو اس وقت بہت زیادہ مناسب تھی«و اوحینا الی ام موسی ان ارضعیه فاذا خفت علیه فالقیه فی الیم و لاتخافی و لا تحزنی انا رادوه الیک و جاعلوه من المرسلین».[1]

جناب خز علی نے آیت کا معنیٰ  کیا اور امام خُمینی کے جانے اورانے کو جناب موسی کے جانے اورانے سے  تشبیہ دی اور کہا:  "موسی کی ماں نے خدا سے حکم سے جناب موسیٰ کو دریائے نیل میں بہادیا سالوں بعد خدانے جناب موسیٰ کو کلیم اللہ اور رسول اللہ بنا کر واپس پلٹایا،  روح اللہ گرفتار ہوئے مگر خدا کے ارادے سے قم واپس پلٹ آئے جبکہ آپ بہت مشہور مرجع تقلید ہوگئے۔  یہ سنتے ہی لوگوں نے  دورد پڑھا۔

اسی طرح جناب خز علی نے سورہ مریم کی ۱٦ویں اور ۱۹ ویں آیت کا ذکرکیا: «واذکر فی الکتاب مریم اذ انتبذت من اهلها مکاناً شرقیاً[2]فاتخذت من دونهم حجاباً فارسلنا الیها روحنا فتمثل لها بشراً سویا[3] قالت انی اعوذ بالرحمن منک ان کنت تقیا[4] قال انما انا رسول ربک لاهب لک غلاماً زکیا[5]»

جناب خز علی نے ان آیات کو رشد اور امام خُمینی کے ابھرنے کو حضرت عیسیٰ کے بیت المقدس میں رشد سے تشبیہ دی اور کہا:  "حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا قم میں آرام فرمارہیں تھیں۔  انھوں نے اپنی آنکھوں کو کھولا اور دیکھا کی شیخ عبدالکریم حائری قم تشریف لائے تو کہا:  اے شیخ کیوں قم آئے ہو؟  تم نہیں جانتے کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے«وما قصد جبار بسوء الاقصمه قاصم الجبارین»؛ ظالمین قم کے بارے میں برا ارادہ رکھتے ہیں،  انکی بنیادیں ہلا دی جائیں گی؟  کیا آپ نہیں جانتے کہ یہاں خیانت کی گنجائش نہیں؟  تم کون ہو اور کیوں یہاں آئے ہو؟  شیخ عبدالکریم حائری نے جواب دیا:  " آپ پریشان ناہوں میں شیخ عبدالکریم ہوں۔  میں اللہ کی جانب سے حق پہنچانے آیا ہوں اور عیسی روح اللہ کی مانند روح اللہ خُمینی امانتدار کی پرورش کرونگا"«قال انما انا رسول ربک لاهب لک غلاماً زکیا»جناب خز علی نے اس طرح کنایات و تمثیلات و استعارات اور قرآنی موضوعات کے ذریعے سے امام خُمینی کی  تحریک کو بیان کیا۔

 

منبع: مهدی قیصری، خاطرات حجت‌الاسلام و المسلمین سیدمحسن موسوی‌فرد (کاشانی)، تهران، انتشارات مرکز اسناد انقلاب اسلامی، چاپ اول، 1387، ص 53 – 58

 



 
صارفین کی تعداد: 1734


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
اشرف السادات سیستانی کی یادداشتیں

ایک ماں کی ڈیلی ڈائری

محسن پورا جل چکا تھا لیکن اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اسکے اگلے دن صباغجی صاحبہ محسن کی تشییع جنازہ میں بس یہی کہے جارہی تھیں: کسی کو بھی پتلی اور نازک چادروں اور جورابوں میں محسن کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں ہے۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔