مجاہدین خلق سے امام خمینی رح کی بے اعتنائی

ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی

2022-4-28


ساٹھ کی دہائی ختم ہونے کو تھی اور مسلح جدوجہد کا طریقہ کار جدوجہد کرنے والوں میں اہمیت حاصل کرتا چلا جارہا تھا۔ اس زمانے میں ہم نے کنفڈریشن سے فاصلہ اختیار کرلیا تھا۔ اسلامی انجمنیں تقریبا نئی نئی بن رہی تھیں اور ان میں بائیں بازو کی جماعتوں کے پروپیگنڈوں کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں تھی۔ سیاہکل تحریک اور گوریلا فدائی حملے کرنے والی تنظیم "خلق" کی تشکیل ملک کے اندر سے زیادہ ملک سے باہر زیر بحث تھی۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا کہ مجاہدین خلق نے اپنے وجود کا اعلان کردیا اور وہ شکوک و شبہات جو ملک سے باہر موجود مسلمانوں میں پائے جاتے تھے برطرف ہوگئے۔ ہم بھی اپنے میگزینز میں اس تنظیم کی حمایت میں اشتہارات شائع کرتے تھے اور دوسرے زرائع سے بھی انکی مدد کرتے تھے۔ اگر کبھی اس تنظیم کے افراد یورپ آتے تو وہ ہمارے بعض افراد سے خفیہ طور پر رابطے کرتے اور بھی بھی اپنے جرمن دوستوں کے ذریعے انکو ایئرپورٹ سے لانے لے جانے اور دیگر امور میں مدد فراہم کرتے، لیکن وہ ہماری میٹنگز میں شریک نہیں ہوتے تھے۔

اس زمانے میں جو چیز ہمارے لئے بہت زیادہ اہمیت کا باعث تھی وہ مجاہدین خلق کے بارے میں امام خمینی رح کی نظر اور انکی تائید تھی۔ میں نے اسی سلسلے میں عراق کا سفر کیا۔ یہ دوسری یا تیسری مرتبہ تھا جو میں امام خمینی رح سے ملاقات کررہا تھا۔ دعائی صاحب جن کو میرے سفر کے مقصد کا علم تھا کہنے لگے میرا نہیں خیال کہ امام خمینی رح ایسا کوئی کام کریں گے لیکن اگر اپنی رائے ہی دے دیں تو بہت اچھا ہوجائے گا۔ ایران سے بھی پیغام دیا گیا ہے کہ امام خمینی رح اس سلسلے میں اپنی رائے دیں چونکہ انکی رائے جوانوں اور تحریکی ساتھوں کا جذبہ بڑھانے کے لئے بہت مددگار ثابت ہوگی۔

جب ہم امام خمینی رح کی خدمت میں پہنچے تو دیکھا کہ مجاہدین خلق سے متعلق تین چار کتابچے انکے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی بات شروع کرتا امام خمینی رح نے ان میں سے ایک کتابچہ اٹھایا اور فرمانے لگے مثلا یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلامی اخلاقیات کو مارکسسٹ اقتصادی نطرئیے سے مخلوط کردیا جائے؟ میں ٹھٹھک کر رہ گیا۔ امام خمینی رح نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ان کے کچھ افراد یہاں میرے پاس ائے تھے اور بحث کررہے تھے۔ امام خمنی رح نے ایک ایسی مثال دی جو میرے لئے بہت دلچسپ تھی، فرمانے لگے، اگر کسی ایسے سے ملو جو امیرالمومین علیہ السلام سے زیادہ مسلمان نظر آرہا ہو تو ایسے شخص سے احتیاط کرو۔

 

منبع: طباطبایی، صادق، خاطرات سیاسی ـ اجتماعی دکتر صادق طباطبایی، ج 1، جنبش دانشجویی، تهران، مؤسسه چاپ و نشر عروج، 1387، ص 128 ـ 130.



 
صارفین کی تعداد: 1806


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔