ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد
ملتان کا مصلح، اڑتیسواں حصہ
زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2023-6-29
ہمارا کمرہ زمینی منزل [1] پر تھا دوپہر کی چلچلاتی دھوپ نے چھت پر سایہ کیا ہوا تھا۔ میں نے سوچا چھت کا پنکھا چلا دوں تو معلوم ہوا چھت پنکھے سے عاری ہے۔ بیت الخلاء اور حمام کمرے سے باہر ایسی جگہ جہاں جانے کے لئے مجھے مکمل حجاب کرنا ہوتا تھا۔ ہم تینوں گرمی سے بھنے ہوئے تھےاٹیچی کو ایک کنارے رکھا اور دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے تاکہ پسینہ خشک ہوجائے۔ بچے بے چارے بھی بڑے صابر تھے وہ اعتراض کرنے والوں اور چڑچڑانے والوں میں سے نہ تھے ۔ انہوں نے کبھی بھی ہم سے ہماری بساط سے بڑھ کر تقاضہ نہ کیا۔ علی نے بھی ان کو سمجھا رکھا تھا کہ ہماری حالت تو ایسی ہی ہے اور ہو سکتا ہے اس سے بھی زیادہ خراب ہوجائے سو سب لوگ ان سختیوں کی عادت بنا لیں ، ہم یہاں اپنی ذمہ داری پوری کرنے آئے ہیں عیاشی کرنے نہیں۔
علی، درمیان میں ایک بار اور لاہور آیا تو ہماری حالت میں کچھ بہتری آئی کم از کم ہمیں اوپری منزل پر ایسا کمرہ مل گیا کہ اب حمام اور بیت الخلاء جانے کے لئے ہمیں حجاب نہ کرنا پڑتا تھا اور ہمارا کمرہ اب سرِ راہ نہیں تھا کہ ہر آنے جانے والے کی نظریں ہم پر پڑیں۔ چوکیدار کو بھی ہدایت کر دی گئی تھی کہ ہمیں جس چیز کی ضرورت وہ ہمیں خرید کر لا دے یا کم از کم خریداری کے لئے ہمارے ساتھ جایا کرے۔ خدا کا شکر محمد اور فہیمہ دونوں امتحانات میں کامیاب ہوگئے۔ ان کی کامیابی نے تمام تکالیف و رنج کے احساس کو مٹا دیا اور ہم آسودہ خاطر ہو گئے۔ میرا دل اپنے تینوں بچوں کے لئے کڑھتا تھا ان میں سے ایک بھی کسی بہت ڈھنگ کے اسکول میں نہیں تھا اور یوں تعلیمی میدان میں ان کا بہت زیادہ نقصان ہو چکا تھا اور ان بیچاروں کی پہلی اور آخری استانی میں ہی ہوا کرتی تھی۔
ہمیں ملتان آئے تقریباً ۹ ماہ گذر چکے تھے دھمکیوں اور کام دونوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جاتا تھا۔ ادارہ میں جو اندرونی اختلافات تھے ان کی تفصیلات سے میں علی کی زندگی کی آخری رات تک بے خبر تھی مگر دھمکیوں کے ساتھ ساتھ یہ اختلافات بھی جاری تھے۔
علی اکثر رات سے صبح تک بیدار رہ کر مطالعہ کیا کرتا تھا۔ وہ صبح ۵ بجے سے پہلے نہ سوتا تھا سو دس بجے سے پہلے آفس جانا اس کے لئے ممکن نہیں تھا۔ زہیر نے مجھے بتایا کہ اکثر تہران والے صبح ۸ بجے ہی فون کرتے ہیں تاکہ دیکھیں رحیمی صاحب آئے ہیں یا نہیں ۔ وہ علی پر معترض تھے کہ علی جلدی کیوں نہیں سوتا کہ دفتر وقت پر آئے اسے دوسروں کی طرح صبح وقت پر دفتر میں موجود ہونا چاہئے۔اس نے مجھے پریشان دیکھا تو مجھے ہنسانے کی کوشش کرنے لگا۔ علی کا کہنا تھا
-میں یہاں اس لئے نہیں آیا کہ دوسروں کی طرح رہوں دوسرے جیسے مرضی رہیں میں جیسا ہوں ایسا ہی رہوں گا۔ خانہ فرہنگ کا کام اور ذمہ داریاں بغیر مطالعہ کے نبھانا ممکن نہیں ہے۔
وہ اس بات کو تحمل نہیں کر سکتا تھاکہ کوئی جلسہ کوئی تقریب ہو اور اس میں ایسی کوئی بحث چھڑ جائے یا ایسا کو ئی سوال پیش آئے جس کا جواب اس کے پاس نہ ہو۔ اس لئے وہ ہمیشہ اپنی معلومات میں اضافے کے لئے سرگرداں رہتا تھا۔ دفتر کا وقت اور دفتری ملاقاتوں سے نمٹنے سے بعد علی کی خصوصی ملاقاتوں، شیعوں اور علماء کے امور کی دیکھ بھال، حساب کتاب، مالی امداد اور شیعوں کی ضروریات کی تحقیق کا وقت شروع ہوجاتا۔ رات کا کھانا علی اکثر گھر پر ہی کھاتا تھا۔ اس کے بعد پھر سے آفس جا بیٹھتا ور اخبارات کا مطالعہ کرنے لگتا چونکہ اس کی اردو زبان پر بہت اچھی گرفت نہیں تھی اس لئے وہ اردو اخبارات کے بعض حصہ گھر لے آتا تاکہ میں اس کے لئے ترجمہ کر دوں۔ اس کے اتنا سخت کام کرنے اور اتنی محنتوں کے باوجود بھی لوگوں کو اس پر اعتراضات تھے اگر اس کے بارے میں کچھ کہتی تو وہ خاموشی سے سنتا اور میری بات مکمل ہونے کے بعد کہتا:
۔ میں یہاں اکیلا ہوں اور کام بہت زیادہ ہے اس پہاڑ کو مجھے اکیلے ڈھونا ہے لوگ جو کہتے ہیں کہتے رہیں مجھے پروا نہیں ہے میری ذمہ داری صحیح کام انجام دینا ہے اور بس ۔
علی کی تمام باتوں کا خلاصہ یہ تھا کہ وہ ان سختیوں اور ان بے پر کی باتوں کی آگے گھٹنے ٹیک کر اپنی ذمہ داریوں سے چشم پوشی نہیں کر سکتا تھا۔ اگر تہران والوں کو اس سے کوئی شکایت تھی تو تہران والوں کو اسے دستور کے مطابق پیشگی اعلان کے ساتھ واپس تہران بلانا چاہئے تھا۔ اس کا کہنا تھا۔
-اگر تہران والے باقاعدہ قانونی طور پر مجھے میرے عہدے سے ہٹاکر تہران بلائیں تو میں لمحہ بھر کی دیر نہیں کروں گا اور واپس ایران چلا جاوں گا۔
جب سب ملازم گھروں کو روانہ ہوگئے تب کہیں وہ تھکا ماندہ گھر آیا اور صوفہ سے سر ٹکا کر آنکھیں بند کر لیں تھکن اس کے روئیں روئیں سے ٹپک رہی تھی، میں سمجھ گئی کہ اس کی تنخواہ میں پھر دیر ہوگئی ہے۔ کیونکہ جب بھی اس کو تنخواہ ملتی تھی وہ خالی ہاتھ گھر نہ آتا تھا ۔ میرا دل بھر آیا وہ بہت پریشان تھا مگر وہ اپنی پریشانی کو چھپائے رکھتا تھا۔ میں نے چائے کی پیالی اس کے سامنے رکھی تو اس نے آنکھیں کھول دی میں چاہتی تھی کہ اس پاس سے اٹھ کر سونے چلی جاوں مگر اس نے مجھے ا پنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا مجھ اس وقت اس کے پاس بیٹھنے کا حوصلہ نہیں تھا سو میں نے کہا۔
میں بس ابھی آئی اور یہ کہہ کر میں پچھلے صحن میں پناہ ڈھونڈنے نکل کھڑی ہوئی۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ بچے میرا اشک آلود چہرہ دیکھیں باغچے میں کیاری کی منڈیر پر بیٹھ کر میں آسمان کو تکنے لگی چاند ستارے میرے آنسووں سے دھندلا گئے تھے۔
اللہم نشکوا الیک۔۔ زیر لب میں اس دعا کی تکرار کئے جاتی اور روتی جاتی ۔ کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو میری طرح سے علی کی تھکن اور پریشانی کو محسوس کر سکے۔ میں نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا ہوا تھا تاکہ بچے میرے رونے کی آواز نہ سن سکیں۔ میری سسکیوں کی آوازیں جھینگروں کے شور میں گم ہوگئی تھیں۔ میرا دل جل رہا تھا کہ علی اتنی سختیاں اٹھاتا ہے اتنی محنتیں کرتا ہے ، تھکن نے اس کی کمر توڑی ہوئی تھی ، کم خوابی سے اس کی آنکھوں کی رونق ہی ختم ہوچکی تھی۔ اس کے باوجود اس کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا جارہا تھا ؟ اور دوسری طرف اس سلوک پر علی کوئی اعتراض کیوں نہ کرتا تھا یہ سوچ کر میرے تن بدن میں اور آگ لگ جاتی۔
بچوں کے کِھیل کود اور ہنسنے کی آوازیں کمرے سے آرہی تھیں علی نے ان کو مصروف کر لیا تھا تاکہ میں اطمینان خاطر حاصل کر لوں ۔ اسے معلوم تھا کہ جب تک میں دل بھر کر رو نہیں لوں گی مجھے سکون نہ ملے گا ۔ یہ اب تک کئی ایک بار ہو چکا تھا ، کام اور زحمتیں علی کا مقدر تھیں اور رونے دھونے کا کھاتا میرا تھا ۔ نامعلوم کتنا وقت بیتا کہ بچوں کی آوازیں آنا اب بند ہو گئیں تھیں اور کمرے کے بلب بھی بند ہو گئے تھے ، میں گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھی ۔ روتے روتے میرا گلا پھر بیٹھ گیا تھا۔ کمرے کا دروازہ کھولا تو علی نے اخبار سے نظریں اٹھا کر مجھے دیکھا میں زمین میں گڑ گئی وہ میرا منتظر تھا میں نے نگاہیں جھکا لیں۔
موسم انتہائی گرم تھا میں نے الگنی سے چادریں اور کپڑے اتارے۔ عید ، گھر کی صفائی ستھرائی کے بغیر ہمارے لئے بے معنی تھی۔ در دیوار سے بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی عید کی خوشبو۔ بچوں کو عید کے لباس کا بہت شوق تھا ۔ ہم ابھی ابھی بازار سے آئے تھے ۔ تینوں بچے سر سے پیر تک شہزادے بنے ہوئے تھے۔ رات تک کئی بار انہوں نے اپنے عید کے کپڑے پہن کر دیکھے اور خوش ہوتے رہے۔ میرے سر پر اتنے کام تھے کہ مجھے سبزہ تیار کرنے کا وقت ہی نہ ملا ۔ سنجد [2]اور سمنو [3] بھی نہیں تھے یوں میں نے ہفت سین کے دستر خوان کو چہار سین سے سجایا اور سب دسترخوان پر آن بیٹھے عید ہے ہی کیا سوائے مل بیٹھنے کے سو میں ، علی اور تینوں بچے ایک ساتھ تھے یہی ہماری عید تھی۔
صارفین کی تعداد: 1200