ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، 45 واں حصہ

زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2023-8-17


چھٹی فصل

شہادت

جمعرات ۲، اسفند ۱۳۷۵ [1]، آدھی رات  کا وقت۔

علی اپنےدفتر میں تھا ۔ گہری خاموشی نے فضاء  کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ میں نے بچوں کو کمبل اڑھایا وہ اس قدر سکون سے سو رہے تھے کہ میں گھنٹوں بیٹھ کر ان کے سینہ کے اوپر نیچے ہونے کو دیکھ سکتی تھی۔ کمرے میں چراغ شب روشن کیا ۔ زمہریری ہوا  پوری قوت کے ساتھ کھڑکی دروازوں سے گھر میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی تھی  اس میں کامیاب نہ ہونے کی وجہ سے اس نے جھریوں سے گھر میں داخل ہونا شروع کردیا تھا۔ خود کو میں نے بازووں پر پڑی شال میں لپیٹ لیا اور کتاب پڑھنے کے لئے صوفہ پر بیٹھ گئی۔ ابھی پہلا صفحہ ہی پڑھ رہی تھی کہ علی دبے پاوں گھر میں داخل ہو گیا۔ میں سمجھی اس کو چائے درکار ہے ۔ اس کا چہرہ اترا ہوا تھااور وہ بہت پریشان لگ رہا تھا کچھ دیر خاموش رہا پھر مجھ سے سوال کیا۔

-نیند آرہی ہے؟

میں نے کتاب بند کی

-نہیں تو۔ کیوں کیا ہوا؟

وہ میرے سامنے کھڑا تھا

۔ چلو کچھ دیر باتیں کرتے ہیں۔

میں نے ہاں میں سر ہلا دیا اور نے کمرے میں ٹہلنا اور بولنا شروع کر دیا۔ اس رات اس نے ایسے مسائل بیان کرنا شروع کئے جن سے میں آج تک بے خبر تھی اور اگر وہ نہ بتاتا تو شاید ان میں سے بہت سی باتیں آج تک ایک راز ہوتیں۔  وہ ایک ایک کر کے ہر بات بتانے لگا ۔ مرداد[2] کے مہینہ میں ملتان اور تہران میں ہونے والے سیمینار کے بعد جو کچھ اس کو دیکھنا اور سننا پڑا۔  اس کے بعد اس نے ہر وہ مسئلہ بیان کیا جو اس کو درپیش تھا۔ ہر وہ بات جس نے اس کو ناراض کیا تھا ۔ پاکستان میں وہابیوں کی دھمکیوں سے لے کر تہران والوں کی بد گمانیوں اور بے پر کی بکواس تک سب بتانے لگا۔ ہر وہ واقعہ اور حادثہ جو اس ڈیڑھ سال میں پیش آیا اور میں اس سے انجان تھی۔

ہم جس وقت ملتان آئے تھے تو علی نے سب سے پہلا کام خانہ فرہنگ کے عملے کو منظم کرنے کا انجام دیا تھا۔ اس نے سب سے پہلے خانہ فرہنگ کی توانائیوں کا جائزہ لیا اس کے بعد فیصلہ کیا کہ وہ لوگ جن کو پچھلے انچارج کے دور میں کسی وجہ کے بغیر نکال دیا گیا تھا اور وہ  اخلاقی اعتبار سے بہت اچھے تھے ، ان کو علی،  خانہ فرہنگ کی بہتری کے لئے واپس لے کر آئے گا۔ کیونکہ علی کا نظریہ لوگوں کو جذب کرنے کا تھا دفعہ کرنے کا نہیں۔  ملازمین کا دوبارہ خانہ فرہنگ میں لانے کا بیناد بنا کر تہران میں علی کے لئے  مسائل کے پہاڑ کھڑے کر دیئے گئے تھے۔

خانہ فرہنگ کے ملازمین میں سے ایک صاحب اور علی کے انگلستان میں مقیم دوست  کے درمیان دوائیاں درآمد کرنے کے لئے  علی  کا رابطہ بننا بھی ایک ایسا مسئلہ تھا جس پر تہران میں شور و غوغا تھا اور علی اس پر کافی پریشان تھا۔ وہ ایک ایک کر باتیں بتاتا جاتا تھا اور ٹہلتا جاتا تھا۔ تہرانی افسروں نے  ،دفتری امور میں میری دخالت کی جو  بات کی تھی ، علی اس پر انتہائی غمزدہ تھا  مگر آج سے پہلے اس نے اس کا ذکر نہ کیا تھا بلکہ جب یہ واقعہ پیش آیا تھا اس وقت تو علی نے مجھے بھی مطمئن کر دیا تھا اور اس میں اپنا ذہن الجھانے سے منع کر دیا تھا۔ایسا لگتا تھا کہ ہر جملہ کہنے کے بعد علی کا سینہ ہلکا ہوتا جاتا ہے ۔   اس کے دل کے تمام پرانے زخم ، آج ہرے ہوگئے تھے۔ وہ اس طرح غم و غصہ میں ڈوبا ہوا باتیں کر رہا تھا کہ لگتا تھا سب کچھ اس کے لئے ختم ہو گیا ہے۔

سیمینار کے لئے  جب  علی تہران گیا تھا وہاں پر موجود سفیروں میں سےکسی نے تقریر میں کہا

''ہم سفیر اس درخت کے پتے ہیں جس کی جڑیں یہاں تہران میں ہیں۔ آپ جس قدر صحیح تر ہماری حمایت اور قدر دانی کریں گے یہ درخت اتنا ہی پر نشاط اور ثمر آور ہوگا''۔

یہ جملہ اس نے جس حسرت کے ساتھ ادا کیا اس کو میں سمجھ سکتی ہوں ۔ وہ خود کو اور تہران والوں کی بے قدری کو اس جملے کے آئینے میں دیکھ رہا تھا اور کڑھ رہا تھا۔  اس کی جیسی حمایت اور قدر دانی کی جانی چاہئے وہ تو دور کی بات الٹا اس کے خلاف مسائل اور الزامات کی ایک دنیا آباد کر دی گئی تھی۔  اس کے کاموں کو سراہنے کے بجائے ہمیشہ اس کو تنبیہ کی گئی اور وہ بغیر کسی کی حمایت حاصل کئے اور تعریفی کلمات سنے، مظلومیت کے ساتھ دیار غیر میں شہید کردیا گیا۔

اکاونٹنٹ کے ملتان آنے کے بارے میں وہ کہتا تھا کہ مالی معاملے میں بھی اس پر بدعنوانی کے الزامات لگائے گئے اور اکاونٹنٹ کا آنا اور چھان پھٹک کرنا ایسا  تھا جیسے دودھ سے مکھی نکالنی ہو۔ اکاونٹنٹ نے واپس جاکر علی کو فون پر اطلاع دی تھی۔

-رحیمی صاحب  آپ کے کام کی مدت مرداد کے مہینہ میں ختم ہوجائے گی ۔ آپ کے دوسال پورے جائیں گے اس کے بعد آپ کو حتماً ایران واپس جانا ہوگا۔

وہ چاہتا تھا اس انداز سے بات کرے کہ علی برا نہ لگے۔ علی نے بھی اس کے جواب میں کہا

-فُزْتُ وَ ربِّ الکَعبَہ۔ خدا کی قسم یہ بہت ہی بہترین اور شیریں ترین خبر ہے جو آپ نے مجھے دی ہے۔ میرے کاندھوں سے ذمہ داری اٹھا لی گئی ہے، میں سبکدوش ہو گیا ہوں اب میں پرسکون ہوں ''۔

میں اس کی باتوں پر سوگوار ، غمگین صرف اس کے چہرے کو تکے جاتی تھی اور ہر تھوڑی دیر میں  پوچھتی۔

-کیوں آخر کیوں۔ آخر وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ کیوں ایسی باتیں بنا رہے ہیں؟

وہ اپنی فکر میں ڈوبا ہوا تھا اور ایک نامعلوم نقطہ پر اس کا خیال مرکوز تھا ۔

-انہیں نہیں معلوم کہ میں نے کیا کیا ہے۔ بعد میں سمجھیں گے۔ دیر سے جانیں گے بہت دیر سے۔

میں نے اعتراض کیا

-جب وہ لوگ یہاں ہیں ہی نہیں اس جگہ کے بارے میں کچھ جانتے ہی نہیں تو ایسی باتیں کیوں بنا رہے ہیں۔

اس نے پھر کہا

-انہیں نہیں معلوم ۔ انہیں بعد میں پتا چلے گا کہ میں نے یہاں کیا کیا ہے۔

یہ تمام باتیں ایک طرف تھیں اور قتل کی دھمکیاں دوسری طرف ۔ وہ اپنی جانب سے بے پروا تھا مگر میری  اور بچوں کی فکر اس کو کھائے جارہی تھی۔ اس رات لگتا تھا اس کا کلیجہ ٹکڑے ٹکڑے ہے۔ وہ ہمارے لئے حدسے زیادہ پریشان تھا بالخصوص ان آخری ایام میں جب اس کو اس کے کاموں سے روکنے لئے مجھے اور بچوں کو قتل کرنے کی دھمکیاں بھی دی جانے لگی تھیں مگر اس رات تک میں ان سب باتوں سے بے خبر تھی۔ وہابیوں کے سرغنہ کے قتل کے بعد لوگوں میں مشہور ہوگیا تھا کہ اس واردات کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہے اور وہابیوں نے اعلان کردیا تھا کہ ہم اس ایک آدمی کے بدلے  دس ایرانیوں کو موت کے گھاٹ اتاریں گے۔ جب یہ بات مجھے معلوم ہوئی تو خانہ فرہنگ میں پولیس کی تعیناتی کا مطلب مجھ پر واضح ہو گیا یعنی پولیس تعینات کرنے کا مطلب تھا وہابیوں کو ان کی دھمکیوں کو عملی جامہ پہنانے سے روکنا مگر ہونی کو کون ٹال سکتا تھا۔

انہی دنوں بہت سے پاکستانی باشندوں کو خانہ فرہنگ سے رابطے رکھنے کی وجہ سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ علی بیٹھ گیا اور اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ لیا آج سے پہلے میں نے کبھی علی کو اس قدر پریشان نہیں دیکھا تھا۔

-وہ لباس اور کھانے جو تم دیکھتی ہو میں زہیر کے ہاتھ بھجواتا ہوں وہ انہی قیدیوں کے گھر والوں کے لئے ہیں ۔

میں ساکت و مبہوت علی کو تک رہی تھی۔خطرہ ہماری ناک کے نیچے تھا اور  علی نے دم تک نہ مارا تھا ۔ اس نے دوبارہ ٹہلنا شروع کر دیا۔

-ان کے گھروں پر نظر رکھی ہوئی ہے اور اپنے گھروں میں قید ہوگئے ہیں اگر میں ان کی مدد نہ کروں تو وہ بے چارے یقینا بھوکے رہ جائیں گے۔ جب زہیر ان کے لئے کھانا اور کپڑے لے کر جاتا ہے تو اسکی واپسی تک میں سولی پر لٹکا رہتا ہوں مگر یہاں زہیر کے علاوہ میرا کوئی اتنا قابل اعتماد نہیں ہے جس کو یہ کام سونپ سکوں۔

 

[1] جمعرات، ۲۰ فروری ۱۹۹۷

[2] جولائی اگست



 
صارفین کی تعداد: 513


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جنگ کے لئے عوامی امداد کے بارے میں سیدہ مریم جلالی کی یادداشت

سونے سے زیادہ مہنگا

ایک سرمایہ دار خاتون کی جانب سے جنگ کے محاذ کے لئے دی جانی والی اتنی کم امداد پر مجھے تعجب ہوا۔ اس زمانے میں یہ کوئی قابل توجہ رقم نہیں تھی کیونکہ بعض افراد تو اپنی متوسط آمدنی کے باوجود اپنے سونے کے ہار اور انگوٹھیاں جنگ کے اخراجات کے لئے ہدیہ کررہے تھے
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔