ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، 46 واں حصہ

زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2023-8-24


اس رات سے ایک روز پہلے حافظ رضا صاحب جو مولوی تھے، انکو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ رہا ہوکر انہوں نے کسی نہ کسی طرح خود کو خانہ فرہنگ تک پہنچایا اور علی کو تفصیلات بتائیں۔ ان کے مطابق خانہ فرہنگ کے تمام فون ریکارڈ کئے جاتے تھے ان کی ریکارڈنگ گرفتار شدگان کو سنائی جاتی تھی اور ایک ایک حرف کے بارے میں دریافت کیا جاتا تھا کہ اس کا کیا مطلب ہے یہ بات کیوں گئی وغیرہ۔  صحیح بات اگلوانے کے لئے جسمانی اور نفسیاتی اذیتیں دی جاتی تھیں حتیٰ کہ گھر والوں کو تباہ و برباد کر دینے کی دھمکیاں دی جاتیں۔ خانہ فرہنگ میں ہر قسم کی آمد و رفت کے بارے میں حافظ صاحب سے پوچھ گچھ کی گئی ۔ جزئیات پوچھیں گئیں مثلاً فلاں ٹیلی فون میں کس پروگرام کس منصوبہ کے بارے میں بات ہو رہی ہے؟ فلاں جملے کا مطلب کیا ہے؟  حافظ صاحب نے مزید بتایا کہ تفتیش کرنے والے پاکستانی نہیں تھے بلکہ حلیہ اور زبان سے مغربی معلوم ہوتے تھے۔

علی، حافظ رضا صاحب کے آنے سے پہلے ہی بدامنی کو محسوس کر چکا تھا اور اس نے کئی بار تہران فون کرکے انہیں  بھی  یقین دلانے کی کوشش کی تھی کہ اس کی اور اس کے خاندان کی جان یہاں خطرے میں ہے، پولیس اپنے فرائض سے صرف نظر کر رہی ہے ۔پولیس والے بیٹھے گپیں مارتے ہیں یا ایک کونے میں کھڑے سگریٹ کے مرغولے اڑا رہے  ہوتے ہیں۔اب میں سمجھی کہ علی ،بچوں کے اسکول جانے کی مخالفت کیوں کر رہا تھا آج اس نے سختی سے کہا کہ بچوں کا اسکول جانا بند کر دیا جائے بچوں کا نام آتے ہی وہ بچوں کی طرح ہی رونے لگا۔  اس کے آنکھوں سے ایک دریا بہہ رہا تھا اور مضطربانہ انداز میں کہنے لگا

مریم۔۔۔ تم نہیں جانتی کہ بچوں کے اسکول جانے اور واپس آنے تک میں کتنی بار مرتا اور جیتا ہوں۔

وہ مصر تھا کہ میں بچوں کو اب اسکول نہ جانے دوں مگر مجھے معلوم تھا میں نے بچوں کو منع کیا تو وہ بہت برا مانیں گے بہت کوشش کر کے میں نے علی کو اس بات پر راضی کر لیا کہ کم از کم ایک دن اور وہ اسکول چلے جائیں تاکہ اپنے دوستوں سے وداع ہو لیں۔ علی اس پر خاموش ہو گیا وہ بچوں کو ذرہ برابر تکلیف میں مبتلاء کرنا نہیں چاہتا تھا۔

۔ٹھیک ہے مگر حبیب کو تاکید کر دینا  کہ وہ پولیس والوں کو ساتھ لے جائے اور بچوں کا بہت خیال رکھے اور اپنا بھی خیال رکھے۔

میں حبیب کو بہت پہلے ہی اس بات کی تاکید کرچکی تھی  کہ آنے جانے میں علی اور بچوں کا بہت بہت خیال رکھے اور اس نے اپنا سینہ ٹھونک کر مجھے جواب دیا تھا۔

-کوئی ان کی طرف آیا تو پہلے اس کو حبیب پر سے گذرنا ہوگا۔ کوئی نگاہ اٹھائے میں اس سے خود نمٹ لوں گا۔

علی مسلسل ٹہلے جارہا تھا اور باتیں کر رہا تھا ۔ مجھے اپنے کاندھے بوجھل محسوس ہو رہے تھے ۔ ایسا لگتا تھا جو کچھ علی نے ڈیڑھ سال کے عرصے میں برداشت کیا تھا وہ سب کا سب ان چند گھنٹوں میں میرے کندھوں پرڈال دیا تھا۔  کام و دہن تلخ ہوگئے تھے اور دم سینے میں گھٹا جاتا تھا۔صبح تک وہ ایسے ہی اپنا درد دل بیان کرتا رہا ۔ وہ اپنی نوکری کی مدت ختم ہونے پر مسرور تھا ایسے جیسے اس کی کمر سے کوئی بہت بڑا بوجھ اتار لیا گیا ہو۔  اس کا ارادہ تھا کہ وہ تہران جاتے ہی ادارہ مواصلات و  ثقافت میں اپنا استعفی پیش کر دے گا ، اس نے کہا

-میں تہران میں تسخیری صاحب سے ملوں گا اور سب درد و تکالیف ان کے گوش گذار کر کے اپنا استعفیٰ ان کو پیش کر دوں گا۔

تسخیری صاحب اس وقت ادارہ کے رئیس تھے اور علی ان کو محبوب رکھتا تھا ۔ جن دنوں ہم ہندوستان میں تھے تسخیری صاحب نے علی کے اس کے کاموں میں بہت مدد کی تھی ۔

-اس سے بڑھ کر یہ کہ اب ایران جاکر ایک ٹیکسی خریدوں گا اور مسافر برداری کا کام کروں گا۔

وہ بولتا جارہا تھا اور میں بت بنی اس کو دیکھے جا رہی تھی۔میرا دماغ تفکرات سے بھرا ہوا تھا مجھے ایسا لگتا تھا کہ میں بہت تھک گئی ہوں۔ اس ڈیڑھ سال کی غریب الوطنی  اور زحمتوں نے ایک ساتھ ذہن میں طوفان برپا کردیا تھا۔ وہ بولتا رہا بولتا رہا یہاں تک کہ صبح کی اذان فضاء میں گونجی ۔ نماز کے بعد علی اپنے میٹنگ کے نکات لکھنے لگا اور میں بستر پر لیٹ گئی۔ وہ اپنے صفحات کو ترتیب دے رہا تھا اور میں علی کی باتوں کے درد کے سمندر میں غرق تھی۔ پچھلے ڈیڑھ سال میں جو زحمتیں اس نے اٹھائیں تھیں اور اس کے بدلےمیں جو اس کو ملا تھا وہ میرا جی جلانے کو کافی تھا۔ میرا سر چکرا رہا تھا منفی سوچیں، مستقبل کا خوف اور گومگو کی کیفیت میرا دامن نہ چھوڑتی تھی۔

ساڑھے سات بجے کے قریب میں بیدار ہوئی اور بچوں کو اسکول کے لئے تیار کیا اور کہا

-اسکول کے دوستوں کو الوداع کہہ آنا کیونکہ آج کے بعد تم لوگ اسکول نہیں جاو گے۔

محمد اور فہیمہ کو اسکول روانہ کیا مہدی کے امتحان تھے اس لئے آج اس کی چھٹی تھی۔ میں باورچی خانہ سے باہر نکلی تو علی میرے سامنے تھا میں اس کو دیکھتی رہ گئی۔ وہ ہمیشہ سے بہت مختلف نظر آرہا تھا۔ میں اطراف سے بے خبر ہوگئی اور علی میں گم ۔ آج کا علی میرا ہمیشہ والا علی نہ تھا ایسا لگتا تھا میں کوئی خواب دیکھ رہی ہوں  اور اسکی آواز کہیں بہت دور سے میرے کانوں میں آ رہی ہے۔ وہ آج اس دنیا کا لگتا ہی نہ تھا ، میں نے محسوس کیا کہ میرے اطراف کی تمام چیزیں بے وزن ہو کر ہوا میں تیر رہی ہیں۔

-میں پوچھ رہا ہوں حبیب کو تاکید کردی ہے بچوں کی اور اپنی حفاظت کی؟

اس کی آواز پر میں چونکی۔ اس کا انداز ایسا تھاجیسے وہ یہ بات کئی بار کہہ چکا ہو اور میں نے سنا نہ ہو۔میں اس کو دوبارہ دیکھنے لگی اور کہا

-ابھی کہتی ہوں

اس نے زور دے کر کہا

-ابھی جاو اور اس کو تاکید کر کے آو کہ وہ بچوں کا اپنا بہت خیال رکھے۔

میں ابھی تک سوگوار تھی غمگین تھی اور میں بس علی  کو دیکھنا چاہتی تھی۔ اس کا وجود ایک نور کے ہالے میں تھا اور میں اس کو چھو نہ سکتی تھی۔

-بعد میں کہہ دونگی۔

-نہیں ابھی جاو اور کہہ کر آو میں یہیں کھڑا ہوں جب تک حبیب کو تاکید نہیں کر دیتیں۔

میں نے جاکر حبیب کو آواز دی اور علی کی تاکیدات اس کو بتائیں اس نے ہمیشہ کی طرح سینہ تان کر کہا۔

-محترمہ آپ فکر کیوں کرتی ہیں ؟ اگر کوئی آیا تو اس کو پہلے حبیب کا سامنا کرنا ہوگا۔

میں علی کی طرف پلٹی ۔ مجھے پتہ تھا گذشتہ شب وہ ایک لمحہ کو نہیں سویا ہے۔

-بہتر  ہے میٹنگ سے پہلے ایک آدھ گھنٹہ سو لو۔

وہ صفحات مرتب کرنے میں مصروف تھا

-نہیں بھئی بہت کام ہے۔ تم ایسا کرنا کہ دوپہر کے کھانے میں کوفتے بنا لینا۔

وہ دفتر چلا گیا اور گیارہ بجے تک کے درمیان کئی بار گھر آیا۔ ایسا لگتا تھا وہ کسی پرسکون جگہ کی تلاش میں ہے اور وہ اس کو نہیں مل رہی۔ میں نے تعجب سے کہا

-تم کہہ رہے تھے بہت کام ہے تو اب یہ مسلسل آنا جانا کیسا؟

اس نے سراسیمگی کے عالم میں گھر کا چکر لگایا

-پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے۔ آج کام کرنے کی ہمت ہی نہیں ہو رہی۔ بس دل ہول رہا ہے۔

وہ پھر دفتر گیا اور آدھے گھنٹے میں واپس آ گیا اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر گھر میں ٹہلنا شروع کر دیا۔ اس کوذرا بھی قرار نہ تھا بہت بے چین تھا۔ اس  نے مہدی کو چھیڑا اس کی گدی پر ایک چپت لگائی تو مہدی نے کتاب چھوڑی اور ہمارے ساتھ کھیلنے لگا۔ علی پھر دفتر چلا گیا ۔ اس نے زہیر کو بھی کہا تھا کہ اس کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں اس لئے وہ بیٹھ نہیں پا رہا۔

صبح کے وقت ایک بڑھئی اور اس کا شاگرد بھی آئے تھے خانہ فرہنگ کے ریکس کی مرمت کرنے کے لئے۔ فقیر محمد، خانہ فرہنگ کی راہداری کا فرش صاف کر رہا تھا ۔علی نے کچھ دیر اس سے بات کی اور اپنے دفتر چلا گیا۔ گیارہ بجے آخری بار علی گھر آیا اوریہ ہماری علی سے آخری ملاقات تھی۔ وہ کچھ دیر کو ہمارے ساتھ بیٹھا میں کہا

-ناشتہ تو صحیح کیا نہیں دوپہر کا کھانا تیار ہے کھا لو۔

-ایک ملاقات کا وعدہ ہے بس اس کو نمٹا کر گھر آتا ہوں پھر کھانا کھاتے ہیں۔

وہ گیا تاکہ جلدی واپس آ سکے۔ میں بھی اس کی واپسی تک دسترخوان سجانے میں مصروف ہوگئی۔ کوئی گیارہ بج کر بیس منٹ کا وقت ہوگا کہ میں نے محسوس کیا خانہ فرہنگ کا پچھلا دروازہ زور زور سے پیٹا جارہا ہے اور کوئی اردو زبان میں کہہ رہا ہے

خیر آیا ہے خیر آیا ہے۔ یعنی ہم تمہارے لئے خیر و عافیت لائے ہیں۔

آواز ایسی تھی جیسے بندوق کے بٹوں سے دروازے کو کوٹا جارہا ہے ایسا لگتا تھا دروازہ اب ٹوٹا کہ جب ٹوٹا، دروازہ اکھڑنے کے قریب تھا اور خوف دہشت سے میرا دل پھٹا جارہا تھا۔سمجھ نہ آتا تھاکیا کروں ۔زیادہ دیر نہ گذری ہوگی  یہ شور تھما تو کوئی تیس سکینڈ کے اندر ہی گولیاں چلنے کی آواز آنا شروع ہوئی۔مجھے اس واقعہ کی صحیح خبر اس وقت تک نہ تھی جب تک زہیر نے اخبار والوں کو انٹرویو دیتے ہوئے تفصیلات نہ بتائیں تھیں۔ اس نے بتایا تو میں نے جانا کہ دہشت گرد بارات کی صورت میں آئے تھے۔پاکستان میں بھی بارات ، ایرانی دیہاتوں کی طرح ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ بینڈ باجا بجاتے ہوئے دلہا دلہن کے ساتھ چلتے ہیں اور ان کو شہر بھر میں گھوماتے ہیں۔ خانہ فرہنگ پر حملے کے لئے یہ دہشت گرد گاڑیوں کو بارات کی طرح سجا سنوار کر مگر اصل میں اسلحہ سے بھر کر لائے تھے۔ ان ہی گاڑیوں میں سے ایک میں RPG بھی نصب تھی اگر علی ہاتھ نہ آتا تو ان ارادہ تھا کہ پورے خانہ فرہنگ کو بھون کر رکھ دیں



 
صارفین کی تعداد: 584


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جنگ کے لئے عوامی امداد کے بارے میں سیدہ مریم جلالی کی یادداشت

سونے سے زیادہ مہنگا

ایک سرمایہ دار خاتون کی جانب سے جنگ کے محاذ کے لئے دی جانی والی اتنی کم امداد پر مجھے تعجب ہوا۔ اس زمانے میں یہ کوئی قابل توجہ رقم نہیں تھی کیونکہ بعض افراد تو اپنی متوسط آمدنی کے باوجود اپنے سونے کے ہار اور انگوٹھیاں جنگ کے اخراجات کے لئے ہدیہ کررہے تھے
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔