ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، 47 واں حصہ

زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2023-8-31


۔ ان لوگوں میں سے کچھ نے طے شدہ منصوبے کے تحت خانہ فرہنگ کے پچھلے دروازے کو پیٹنا شروع کیا اور پولیس کو پچھلے دروازے کی جانب متوجہ کیا اور بقیہ لوگ اگلے دروازے سے خانہ فرہنگ میں داخل ہوگئے۔ گولی چلنے کی آواز سن کر پولیس پلٹی تو دیکھا اصلی دروازے پر رحیم داد کی لاش پڑی ہے۔  دہشت گرد پولیس کی آنکھوں میں سرخ مرچیں ڈال کر  صحن کے راستےاصلی عمارت میں داخل ہوگئے۔ پانچ منٹ کے اندر اندر اس شور شرابے نے تمام خانہ فرہنگ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ ایک بہت سوچی سمجھی دہشت گردی  کی واردات تھی جس کے لئے انہوں نے بہت دن منصوبہ بندی کی ہوگی۔ جب بینڈ باجے کی آواز آئی تو علی اور زہیر سمجھے کہ بارات جارہی ہے لیکن پہلی گولی کی آواز آتے ہی علی نے زہیر کو ہماری خبر گیری کے لئے روانہ کیا   تاکہ وہ مجھے اور مہدی کو لے کر پرنٹنگ روم میں چلا جائے۔ گولیا ں بہت کم فاصلے سے چل رہی تھیں زہیر نے گولیوں کی آواز سنی تو اس کو علی کی فکر ہوئی اور وہ آدھے راستے سے ہی علی کے دفتر کی جانب لوٹا۔میں بھی ہڑابڑائی ہوئی تھی اسی عالم میں چادر اور مقنعہ ڈھونڈنے لگی۔ ابھی مقنعہ سر پر ڈالا تھا کہ پولیس آ گئی اور علی کا پوچھنے لگی ۔ پولیس والوں کی آنکھیں سوجی ہوئیں تھیں اور سخت گھبرائے ہوئے تھے۔ وہ ایک دم گھر میں داخل ہوئے تو میں گھبرا گئی وہ تو شکر ہے کہ کپڑوں کی آستینیں لمبی تھیں اور مقنعہ سر پر۔ وہ سمجھ گئے کہ اپنے پردے کی وجہ سے گھبرا رہی ہوں۔ وہ اردو زبان میں مسلسل کہہ رہے تھے۔

۔مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ نہیں ہے۔ رحیمی صاحب کہاں ہیں؟

 اس کے بعد ان میں سے ایک گھبرائے ہوئے لہجے میں کہنے لگا

-کھڑکیوں کے قریب نہ جائیں  یہیں کمرے کے درمیان میں رہیں۔

میں بھی ان پولیس والوں سے کچھ کم پریشان نہ تھی میں چلا اٹھی

-علی گھر پر نہیں ہے وہ اپنے دفتر میں ہے۔

انہوں نے میری بات نہ مانی اور کی تلاشی لینے لگے۔ مجھے نہیں معلوم کہ کب اور کیسے میں نے مانتو[1] پہن لیا۔ میں نے اپنے الفاظ دہرائے

-علی گھر پر نہیں ہے ۔

پولیس والوں نے کہا وہ اپنے دفتر میں بھی نہیں ہے دفتر کے سب دروازے بند ہیں۔ جب انہوں نے پورے گھر کا جائزہ لے لیا تو وہ باہر کی جانب دوڑے ۔ وہ پریشانی میں ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے اور ان کی آوازیں راہداری سے آ رہی تھیں۔ گھر کا انٹر کام بجا۔دوسری طرف زہیر تھا

-رحیمی صاحب گھر پر ہیں

میں نے کہا۔۔۔

-نہیں۔ دفتر جاو، دفتر میں دیکھو وہ دفتر میں ہی ہونگے وہ گھر پر نہیں ہیں۔

کچھ دیر بعد دوبار انٹر کام پر زہیر نے دریافت کیا 

-رحیمی صاحب گھر پر ہیں؟

میں چکرا گئی  تیسری بار جب زہیر نے انٹر کام کیا تو میں نے کہا

-زہیر علی گھر پر نہیں وہ دفتر گیا تھا

- دفتر کے تمام دروازے بند ہیں۔

میرا کلیجہ پھٹ گیا۔ مجھے یقین تھا کہ علی دفتر میں ہی ہے۔ زہیر سے التجاء کرنے لگی

-دروازہ توڑ  دو علی دفتر کے اندر ہی ہے۔

علی کے دفتر کے دو دروازے تھےایک دروازہ جس سے علی آمد و رفت رکھتا تھا وہ اصلی دروازے سے ایک زینہ کے جنگلے کے فاصلے پر تھا دوسرا دروازہ زہیر کے کمرے سے علی کے کمرے میں کھلتا تھا۔  دونوں دروازے بند تھے ۔ زہیر کے کمرے سے علی کے کمرے میں داخلے کا دروازہ توڑا گیا۔ کچھ دیر میں رونے پیٹنے کی آواز آنے لگی۔ ہمیں گھر سے نکلنے کو منع کردیا گیا تھا۔ میں نے مہدی سے پوچھا یہ کس کے رونے کی آواز ہے ؟ وحشت کے مارے بچے کی آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں۔

-شاید پولیس نے کچھ لوگوں کو گرفتار کیا ہے ان کے رونے کی آواز ہے۔

زہیر کے رونے کی آواز میں پہچان گئی۔ میں نے دروازہ کھولا تاکہ رونے کی آوازوں کو صاف سن سکوں۔

-یہ زہیر کے رونے کی آواز ہے۔

مہدی اس کو ماننے پر تیار نہ تھا۔ کہنے لگا

-نہیں امی یہ ان لوگوں کی آوازیں ہیں جن کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔ میں نے جنگلا عبور کیا اور دوسرا دروازہ جو  علی کے کمرے سے ایک میٹر کے فاصلے پر تھا ، کھولا، نظر پڑا کہ علی کے کمرے کے پاس دو ملازم کھڑے ہیں سر جھکائے اور رو رہے ہیں۔ میں چکرا کر رہ گئی ساری راہداری خون آلود قدموں کے نشانات سے رنگین تھی اور فضاء میں بارود کی بو رچی بسی تھی۔ میری نظر فقیر محمد کے بے حس و حرکت جسم پر پڑی اس کے سر سے خون کی نہر جاری تھی۔ میں حواس باختہ ہوکر مہدی کو دیکھنے لگی۔

-امی یہ وہی ہے جو حملہ کرنے آیا تھا اس کو پولیس نے مارا ہے۔

میں نے کہا نہیں یہ فقیر محمد ہے۔ بچہ بھی سکتے میں آگیا اس کو کچھ سمجھ نہ آ رہا تھا۔میں نے ملازمین کو کنارے دھکیلا  اور علی کے دفتر میں داخل ہوگئی۔ علی دروازے کے پاس میرے قدموں میں ، خون میں تر بتر پڑا تھا۔ اس کے بال اور کنپٹیاں خون میں بھری ہوئیں تھیں ۔ اس کے سیاہ بالوں میں خون نے چمک پیدا کردی تھی۔ یہ منظر دیکھ کر میں اپنے حواس میں نہ رہی اور گھر لوٹ آئی۔ اس وقت مجھے مہدی کا بھی خیال نہ تھا میرے ذہن میں صرف یہ بات تھی کہ اس وقت میرے پیر میں موزے نہیں ہیں اور اس حال میں نامحرموں کے درمیان رہنا اور رونا پیٹنا درست نہیں ہے سو میں گھر کی طرف چل پڑی۔ جیسے ہی میں اپنے کمرے میں داخل ہوئی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔  فریاد کرنے لگی خدا اور پیمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پکارنے لگی۔ مہدی نے بھی یہ منظر دیکھا تھا اور وہ بھی دیواروں سے سر مار مار کر رو رہا تھا۔

-یا خدا۔۔۔ میرے بابا کو مار دیا۔

 

[1] coat



 
صارفین کی تعداد: 594


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جنگ کے لئے عوامی امداد کے بارے میں سیدہ مریم جلالی کی یادداشت

سونے سے زیادہ مہنگا

ایک سرمایہ دار خاتون کی جانب سے جنگ کے محاذ کے لئے دی جانی والی اتنی کم امداد پر مجھے تعجب ہوا۔ اس زمانے میں یہ کوئی قابل توجہ رقم نہیں تھی کیونکہ بعض افراد تو اپنی متوسط آمدنی کے باوجود اپنے سونے کے ہار اور انگوٹھیاں جنگ کے اخراجات کے لئے ہدیہ کررہے تھے
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔