ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، 51 واں حصہ

زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2023-9-28


ادارہ کے چند لوگ بھی ہوائی اڈے پر آئے تھے محترم تسخیری صاحب بھی ان کے ہمراہ تھے۔ میری ان پر نظر پڑی تو مجھے علی کی باتیں یاد آگِئیں میں نے ان سے کہا۔

-رحیمی صاحب آپ کے بڑے قدر دان تھے آپ کی تعریفیں کرتے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ تہران جاکر سب سے پہلے تسخیری صاحب سے ملوں گا اور اپنے دل کے تمام درد ان سے بیان کروں گا لیکن ان کے تمام درد ان کے دل میں ہی رہ گئے۔

وہ بھی رو پڑے۔

-نہیں ان کے تمام درد کو دوا مل گئی۔

ادارہ سے ایک شخص اور بھی آیا تھا اس نے بھی تعزیت پیش کی ۔ میں صرف سر جھکائے علی کی مظلومیت کی فکر میں ڈوبی ہوئی تھی  کہ اس شہید کے ساتھ اس کی زندگی میں کیسا ناروا سلوک اختیار کیا تھا۔ عرصہ بعد ایک ویڈیو میں شاہد حسین صاحب کو دیکھا جو ہمارے ساتھ ہوائی جہاز میں  پاکستان کی حکومت کی جانب سے آئے تھے۔ ۔

نماز جمعہ کے بعد علی کی تشیع و تدفین ہونی تھی مگر ہم دیر سے پہنچے اس لئے جمعہ کے بعد  تشیع و تدفین نہ ہوسکی تو علی کو معراج شہداء منتقل کر دیا گیا۔ میں دوسروں کے ہمراہ ایک ہوٹل میں آ گئی جس کانام پتہ مجھے یاد نہیں۔ یہاں ہمارے لئے دوپہر کے کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ میں اپنے بے ہوش ہونے اور ہوش میں آنے کے درمیان صرف اتنا جان پائی کہ وہ سب اس بات پر مصر تھے کہ میں کسی طرح ایک لقمہ کھا لوں لیکن میں نہ کھا سکی۔ ایک دو بار قند گھلا پانی میرے حلق میں انڈیلا گیا ۔ مجھے صحیح سے ہوش آیا تو میں نے خود کو علی کے والد کے دروازے پر پایا۔ وہی گھر جہاں میں نے علی کے ساتھ دو سال گذارے تھے اب اس گھر میں مجھے اکیلے ، بغیر علی کے داخل ہونا تھا۔ میرے قدم جم گئے میں علی کے بغیر کیسے گھر میں جا سکتی تھی؟ میں حیرت زدہ تھی کہ علی کے بغیر اب میں کیا کروں گی؟ سب لوگ میری منتیں کر رہے تھے کہ میں گھر میں داخل ہوجاوں مگر مجھ سے اند جایا نہ جاتا تھا۔ اتنے میں علی کے غمزدہ والد میرے سامنے آگئے ۔

۔میں خود تمہارا اور بچوں کا غلام بن کر رہوں گا بیٹی آجاو گھر میں آجاو۔

میں نے خود کو جمع کیا عورتوں نے مجھے شانوں سے تھاما ہوا تھا میں گھسٹتے ہوئے گھر میں داخل ہو گئی۔وہ رات کیسے گذری کچھ خبر نہیں۔ صرف بچوں کے روتے ہوئے چہرے، نالہ و فریاد ، اپنی نقاہت و کمزوری اور تاریکی ذہن کے گوشوں میں محفوظ رہ گئی ہے۔یہ تلخ اور سنگین لمحات کاٹے نہ کٹتے تھے۔

دم صبح ہم معراج شہداء گئے۔ میں علی سے آخری رخصت کی خواہاں تھی۔ مہدی ، علی کے والد و والدہ اور علی کی بہنیں ، ہم ایک کاروان کی صورت میں معراج شہداء پہنچے ۔ ہم اندر داخل ہوئے اور لوگوں کا ایک جم غفیر دروازے کے پیچھے رہ گیا۔ علی کا تابوت  کمرے کے وسط میں رکھا تھا سرد خانے کی ہوا میرے بدن میں چبھ رہی تھی۔ میں علی میں محو ہوگئی اس طرح کہ علی کے گھر والوں کے گریہ کی آواز مجھے بہت دور سے آتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔وہ کس قدر آرام سے سو رہا تھا، اب اس کے تمام کام ختم ہوچکے تھے اور اسکی بے خوابی کا اختتام ہو گیا تھا۔ میرے پیر سن پڑے تھےمیں ناچاہتے ہوئے بھی اس کے قریب ڈھیر ہو گئی اور اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا۔ مجھے اس کے سر کا زخم محسوس ہوا تو دل  میں تیر پیوست ہوگئے۔ میں اس کی صورت اور داڑھی پر ہاتھ پھیرنے لگی اور میں نے اس کے کفن کے بند کھولنا شروع کئے۔ میں اس کے دوسرے زخم دیکھنا چاہتی تھی۔ اس کے جسم کی ٹھنڈک میرے رگ و پے میں سرائیت کر گئی۔ ناگہاں میرا ہاتھ اس کے بازو پر پڑا وہ زخمی تھا اور اس کا گوشت باہر آیا ہوا تھا۔مجھے لگا کہ میرا پورا جسم منجمد ہوگیا ہے اور سانس رک گیا ہے۔ میں نے سرگوشی کے انداز میں علی کو صدائیں دیں لیکن اس نے مجھے کوئی جواب نہ دیا۔ معراج شہداء سے باہر آئے تو میں مسلسل اس فکر میں تھی کہ علی کا جسم ٹھنڈا ہے اس کو سردی لگ رہی ہوگی اور کوئی اتنا بھی نہیں کہ اس کو ایک کمبل ہی اڑھا دے وہ جب گھر میں ہوتا تھا اور سو جایا کرتا تھا  اور اس کا جسم ٹھنڈا ہو جاتا تھا تو میں ہمیشہ متوجہ رہتی تھی اور اس کو چادر یا کمبل اڑھا دیا کرتی تھی۔میں نے مہدی کا پریشان چہرہ دیکھا جو مجھے آوازیں دے رہا تھا مگر میں  اس کو جواب دینے سے قاصر تھی۔ اچانک سب جگہ اندھیرا چھا گیا، میں بے ہوش ہوگئی تھی۔



 
صارفین کی تعداد: 544


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جنگ کے لئے عوامی امداد کے بارے میں سیدہ مریم جلالی کی یادداشت

سونے سے زیادہ مہنگا

ایک سرمایہ دار خاتون کی جانب سے جنگ کے محاذ کے لئے دی جانی والی اتنی کم امداد پر مجھے تعجب ہوا۔ اس زمانے میں یہ کوئی قابل توجہ رقم نہیں تھی کیونکہ بعض افراد تو اپنی متوسط آمدنی کے باوجود اپنے سونے کے ہار اور انگوٹھیاں جنگ کے اخراجات کے لئے ہدیہ کررہے تھے
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔