تنقید: کتاب’’سیاست و حکمت‘‘

نقاد: ملیحہ کمال الدین
ترجمہ: صائب جعفری

2023-5-17


سید مصطفیٰ صادقی نے اپنی کتاب ’’سیاست و حکمت‘‘  میں آیت اللہ ڈاکٹر احمد بہشتی کی زندگی کے واقعات قلمبند کئے ہیں۔ حوزہ علمیہ قم کی تاسیس کے سو سال مکمل ہونے کی مناسبت سے یہ کتاب موسسۂ فرہنگی اور مرکز اسناد انقلاب اسلامی کے توسط سے شائع ہوئی اور ۲۰۲۲  میں نشر کی گئی۔

ڈاکٹر احمد بہشتی حوزہ علمیہ قم  کے استاد اور صوبہ فارس کے رہائشی تھے۔  انہوں نے تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ ایک عرصہ تک ایران کے مختلف شہروں بالخصوص صوبہ فارس، خوزستان اور تہران میں دینی ثقافت   کی ترویج کے لئے اقدامات کئے۔  پہلوی حکومت کے دوران میں وہ کئی بار گرفتار ہوکر قید خانوں میں گئے۔ ان ایام کے واقعات تقریباً ساٹھ گھنٹے کے انٹرویوز کے بعد سیاست و حکمت نامی کتاب میں مندرج ہوئے ہیں۔

پہلی فصل کی کلی صورت کچھ یوں ہے کہ اس فصل کا آغاز راوی کی گھریلو زندگی سے ہوتا ہے۔ اس فصل میں بہشتی صاحب کے بچپن سے ازدواج تک کے واقعات درج ہیں جن کے تسلسل میں ہی ان کے بچوں کے بارے میں بھی بیان کیا گیا ہے۔

دوسری فصل میں ہم ڈاکٹر بہشتی کی یونیورسٹی اور حوزہ علمیہ میں تحصیل و تدریس کےبارے میں پڑھتے ہیں۔ اس کے بعد ان کا شیراز کے حوزہ علمیہ میں ورود ہماری نظر سے گذرتا ہے اور اس کے بعد ان کے فلسفہ پڑھنے کی داستان ہے۔ انہوں نے فلسفہ اپنی والد بزرگوار کی خواہش پر پڑھا۔ درس کے دوران ان کا مرحوم آیت اللہ محلاتی کی شاگردی اختیار کرنے کے بعد ان کے قم آنے کا حال درج ہے۔ قم میں انہوں نے تحصیل علم کے عد آیت اللہ شہید سید محمد حسینی کی جانب سے دین و دانش نامی ہائی اسکول کی ذمہ داری قبول کی ۔ اسی کتاب میں بہشتی صاحب کی مدرسہ حقانی میں تدریس  اور پھر ان کا یونیورسٹی میں جانے کے علاوہ ان کے استادوں کا تعارف بھی موجود ہے۔ اسی فصل کے اختتام پر ڈاکٹر بہشتی کی تالیفات و تصنیفات کے بارےمیں بھی توضیح دی گئئ ہے۔

تیسری فصل میں فارس کے  ان علما و بزرگان کا تذکرہ ہے جنہوں نے سیاسی جھڑپوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان افراد میں آیت اللہ سید نور الدین شیرازی، آیت اللہی  برادران، مرحوم آیت اللہ حدائق، ابن یوسف حدائق، مرحوم آیت اللہ محلاتی، مرحوم آیت اللہ نسابہ، آیت اللہ نظام اور آیت اللہ حق شناس شامل ہیں۔

چوتھی فصل میں ایرانی کی حالیہ تاریخ کے کچھ واقعات درج ہیں جیسے پہلوی دور حکومت میں حجاب پر پابندی کے واقعات اور اسی طرح ایران کی حالیہ تاریخ میں علماء کا جہاد۔ اس کے ہمراہ انقلاب اسلامی کے بعد کے بھی کچھ واقعات جیسے آیت اللہ منتظری کی مہدی ہاشمی کی حمایت کرنا اور ۱۹ دی (۹ جنوری) کے قیام کا واقعہ اور اسی طرح شیرین عبادی کی تقریر اور حزب رستا خیز کے احتجاج کا واقعہ بھی درج ہے۔

یہ بات واضح نہیں کہ وہ واقعات جو دوسری کتابوں میں بہت تفصیل کے ساتھ درج ہیں ان کے بارے میں مکرر گفتگو کیوں کی گئی ہے۔ اس کتاب میں ان واقعات کا مقام و محل کیا ہے اور ان سے کیا نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔ اس کتاب کی تیسری اور چوتھی فصل کے مطالب تقریبا ۶۶ صفحات پر مشتمل ہیں ۔ان دو فصلوں میں  درج واقعات میں سے بہت ہی کم واقعات ایسے ہیں  جو راوی یعنی ڈاکٹر بہشتی کی زبان سے نقل کئے گئے ہوں۔

کتاب  کی پانچویں اور چھٹی فصل  میں ڈاکٹر بہشتی کے انقلاب سے پہلے پہلوی حکومت کے خلاف اقدامات کے واقعات اور انقلاب ے بعد کے واقعات درج کئے گئے ہیں۔ اس کتاب کی پانچویں فصل میں ہم ڈاکٹر صاحب کی ان شعلہ ور تقاریر کا حال پڑھتے ہیں جو انہوں نے پہلوی حکومت کے خلاف کی تھیں۔ اس کے بعد ان کےآبادان کے تبلیغی سفر کی یادیں ہیں۔ ان کا شہید مفتح سے آشنا ہونا، آبادان سے جلا وطن کیا جانا، ساواک کا ان کو پیشی پر بلانا اور ان کو ڈرانا اور دھمکانا اور پھر ان کو جلا وطن کرنا  اور ان پھر ان کی گرفتاری جیسے واقعات سے یہ فصل مملو ہے۔ ان واقعات سے قاری انقلاب سے قبل فارس کے حالات سے بخوبی واقف ہوجاتا ہے۔

چھٹی فصل کی ابتدا میں  دوبارہ پراکندہ واقعات درج ہیں  اور انقلاب اسلامی  کی کامیابی کے بعد پیش آنے والے حادثات کی تکرار کی گئی ہے۔ اس کے بعد ہم راوی کی زبان سے ان کی ماموریتوں کا تذکرہ جیسے ان کا بروجرد جانا اور کازرون اور فسا میں ماموریت کا انجام دینا، سنتے ہیں۔ اس کے بعد  مجلس شورائے اسلامی میں شامل ہونے، لیبیا اور شام کا سفر، جنگی علاقوں میں جانے وغیرہ کے واقعات قاری کی نظر سے گذرتے ہیں۔ انہی واقعات کے ضمن میں ہم ایسی توضیحات بھی پڑھتے ہیں جن میں سوائے تکرار کے اور کوئی فائدہ قاری کے لئے نہیں ہے۔ چھٹی فصل کے اختتام  پر راوی کے مجلس خبرگان میں شمولیت کی یاداشتیں  اور اس مجلس میں ان کے اقدامات کا تذکرہ ملتا ہے ۔ اسی طرح اس فصل میں ان کے کینیڈا کے سفر اور مقامات مقدسہ کی زیارت کے سفر کا حال بھی درج ہے۔

 

واقعات کی اسناد اور تصویریں، ضمیمہ جات کے عنوان سے کتاب کے آخر میں درج ہیں۔ اشخاص اور مکانات کے ناموں پر مشتمل فہارس بھی کتاب کے آخر میں مندرج ہیں۔

یہ کتاب یعنی ’’سیاست  و حکمت، A5 کے سائز میں چھاپی گئی  جو ۳۴۰ صفحات پر مشتمل تھی پہلے ایڈیشن میں اس  کے پانچسو نسخہ چھاپ کر 120000 کی قیمت پر اس کتاب کو نشر کیا گیا۔

 

 

 

 

 

 



 
صارفین کی تعداد: 986


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔