امام خمینی کی حمایت میں، ویٹی کن اور پیرس میں بھوک ہڑتال - ۱

ترجمہ: محب رضا

2023-5-31


عراق کی بعثی حکومت کی طرف سے امام خمینی پر لگائی گئی پابندیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے،  یورپ [۱۳۵۶] میں اسلامی طلبہ کی انجمنوں نے کئی اقدامات انجام دئیے، ان اقدامات میں ویٹی کن اور پیرس کے سینٹ میری چرچ میں دو بھوک ہڑتالیں شامل ہیں۔ ویٹی کن میں، اگرچہ ہمیں معلوم تھا کہ وہ سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دیتے، لیکن یہ منصوبہ بندی اس طرح کی گئی تھی کہ اسٹوڈنٹس الگ الگ وہاں داخل ہوں اور جب دروازے بند ہونے لگیں اور وہ سب کو باہر نکالنا چاہیں تو یہ سب اکٹھے ہو جائیں اور پلے کارڈ اٹھائے، دھرنے کا اعلان کر دیں۔ یہ لازم تھا کہ پولیس ہم لوگوں کو نکالنے کے لیے فوراً پہنچتی، اس لیےطے یہ تھا کہ پلے کارڈز اور پمفلٹ بالکل تیار ہوں تاکہ اکٹھے ہوتے ہی اپنے سیاسی مقاصد اور مطالبات کا اعلان کردیا جائے۔ البتہ، ہم نے سوچا ہوا تھا کہ اگر کسی بھی وجہ سے ویٹی کن میں ایسا نہیں کر پائے تو ہم اسے کہیں اور انجام دیں گے۔

جیسا کہ ہم نے توقع کر رکھی تھی، ہمارے اکٹھے ہونے کے بعد، ویٹی کن کی پولیس نے، جو اس زمانے میں فرانس کے خصوصی محافظین تھے،  مار پیٹ شروع کر دی، لیکن اسلامی انجمن کے ممبرز نے فریاد اور احتجاج کرتے ہوئے اپنے بیانات اور مطالبات لوگوں تک پہنچا دئیے۔ اس احتجاج کو پریس میں کافی کوریج ملی اور درحقیقت ہم جس مقصد کی توقع کر رہے تھے وہ ابتدائی چند گھنٹوں میں ہی حاصل ہو گیا۔ اس کام کے لیے جس وقت کا انتخاب کیا گیا تھا وہ اٹلی کے اندرونی سیاسی مسائل کے لحاظ سے نہایت موزوں تھا کیونکہ وہاں ویٹی کن کے خلاف ایک حساسیت موجود تھی۔ خاص طور پر اٹلی کی بائیں بازو کی جماعتوں نے اس مسئلے کو بہت زیادہ اٹھایا کہ کچھ مسلمانوں نے اپنے فکری اور ثقافتی رہنما کی حمایت کے لیے کیتھولک مرکز میں پناہ مانگی ہے - ہم نے بھی پناہ لینے کے اس نکتے پر بہت زور دیا تھا – اور وہ عیسائیوں کے عالمی رہنما سے توقع رکھتے ہیں کہ ان کی حمایت کی جائے گی، ایسی حالت میں ناصرف لازمی حمایت نہیں کی جاتی بلکہ ویٹی کن میں تعینات فرانسیسی پولیس ان کو وحشیانہ مارپیٹ کا نشانہ بناتی ہے۔ ان حمایتوں کا مثبت اثر ہوا۔ احتجاج کرنے والوں کے تقاضوں میں فوری اور طویل مدتی دونوں مطالبات شامل تھے۔ فوری مطالبہ یہ تھا کہ عراق میں امام پر پابندی ختم کی جائے۔ البتہ ہم جانتے تھے کہ یہ مطالبہ عملی نہیں ہے لیکن اس پر زور دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ دو تین دن کے بعد کئی بین الاقوامی ادارے ہمارا ساتھ دینے لگے۔ عام طور پر انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کا یہ رواج ہے کہ وہ بھوک ہڑتال کو ختم کرنے کے لیے ثالثی کرتے ہیں، کہ ہم آپکے مطالبات کو اپنے حلقوں میں اٹھانے کی کوشش کریں گے اور اپنے ذرائع سے آپ کے احتجاج کی آواز بلند کریں گے۔

دھرنا تقریباً تین دن تک جاری رہا، بھوک ہڑتال میں البتہ پینے کا پانی شامل نہیں تھا۔ پہلا گروپ جس نے رابطہ کیا وہ اطالوی پروٹسٹنٹ تنظیم تھی، جو بھوک ہڑتال ختم کروانا چاہتی تھی، انہوں نے کہا کہ جب تک ہمارے مطالبات پورے نہیں ہوتے وہ جدوجہد جاری رکھنے کی ذمہ داری قبول کریں گے۔ یہ عموماً ایک سیاسی اشارہ ہوتا ہے جسے قبول کیا جاتا ہے۔ ہم نے کہا کہ ہمارے لوگ اتنا جلد بھوک ہڑتال ختم نہیں کریں گے، وہ ابھی زیادہ تر اچھی حالت میں ہیں ہم دو تین دن مزید ہڑتال جاری رکھیں گے۔ چوتھے دن، دو تین دیگر تنظیمیں بھی ہماری حمایت میں کھڑی ہو گئیں اور ہم ہڑتالیوں کو چرچ سے ایک ایسی جگہ لے گئے جہاں پروٹسٹنٹ تنظیم نے ڈاکٹر، ادویات اور علاج کی سہولیات فراہم کر رکھی تھیں۔

یہ عمل جو کہ ایک مذہبی طلبہ تنظیم نے کیا تھا، ناکہ وقت کے تقاضوں سے ناواقف کچھ توہم پرست لوگوں نے، اس لحاظ سے دلچسپ تھا کہ اسے رجعتی، پسماندہ اور توہم پرست کہہ کر بدنام نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ہڑتال کرنے والے زیادہ تر یورپ کی بہترین یونیورسٹیوں کے ممتاز طلباء تھے اور ان کے احتجاج، اور اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر ثابت قدمی نے، خوش قسمتی سے یورپی رائے عامہ، امام کی راہ میں ہموار کردی۔ یہاں تک کہ دو تین ہفتے بعد پیرس میں ایک اور بھوک ہڑتال کی گئی۔ شروع سے ہی یہ قدم ہمارے منصوبے کا حصہ تھا کہ اگر ہم اٹلی میں ہڑتال کی وجہ سے نتیجہ حاصل نہ کر پائے اور امام پر سے پابندی نہ ہٹائی گئی تو ہم پیرس میں اس کام کو اس سے بڑے پیمانے پر منظم کریں گے اور یورپ اور امریکہ میں موجود مختلف اداروں کے زیادہ افراد کے ساتھ انجام دیں گے۔

 

منبع: طباطبایی، صادق، خاطرات سیاسی ـ اجتماعی دکتر صادق طباطبایی، ج 1، جنبش دانشجویی، تهران، مؤسسه چاپ و نشر عروج، 1387، ص 149 ـ 144.

 

کل  الفاظ:            799



 
صارفین کی تعداد: 650


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔