پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا: 2

مقدمہ: دوسرا حصہ

مصنف: علی رستمی
ترجمہ: افشین زہرا
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2023-11-21


 ملا قادر کو میں جنگ کے زمانے سے جانتا تھا مگر چند نشستوں کے بعد ہمارے درمیان اتنی گہری دوستی ہوگئی جیسے میں نے ان کے گاؤں " نور یاب "میں ان کے ساتھ اسکول میں پڑھا ہوں یا جیسے میں نے تنگ و تاریک کمروں میں ان کے ساتھ تعلیمی مباحثوں میں کئی سال گزارے ہوں یا جہاد کی پر مشقت زندگی میں ان کا ساتھی رہا ہوں۔غرضیکہ سادہ، پر کیف و پر لطف  انٹرویو لے لیا گیا ، مگر ان کے الفاظ اتنے جذاب تھے کہ بعض اوقات ہم اسمیں کھو جاتے تھے اور اسطرح اس واقعے میں غرق ہو جاتے تھے کہ بعض اوقات انٹرویو کو ریکارڈنگ پر لگانا بھی بھول جاتے تھے !

 ہمارا پہلا انٹرویو ستمبر مہینے کی تین تاریخ کو ۲۰۱۳ سے شروع ہوا اور جولائی ۲۰۱۴ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ لیکن ابھی یہ سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوا کیونکہ جب میں نےاسکو لکھنا شروع کیا تو کچھ ایسے نکات سامنے آئے جو مبہم تھے اورکچھ ایسی گرہیں تھیں جن کو کھولنا ضروری تھا لہذا ان سب کے حل کیلئے ، مجھے دوسرے سفر کی مشقت اٹھانی پڑی اور دوبارہ پاوہ جا کر ان کو حل کرنا پڑا۔

 یہ کتاب میرے پاوہ کی جانب چودہ سفروں کا حاصل ہے ، جن میں سے ہر سفر چار پانچ یا چھ روزہ تھا مگر ان میں سے میرا ایک سفر جو گیارہ دن پر محیط تھا نا قابل فراموش ہے جو ماہ رمضان (سال ۲۰۱۵ )گرمیوں کی چھٹیوں کے گیارہ دن میں نے پاوہ میں گزارے اور درحقیقت یہی وہ ایام تھے جسمیں استاد حاج ملا قادر قادری کی یادوں سے بھر پور ان واقعات نے ایک کتاب کی شکل اختیار کی اور استاد حاج ملا قادر قادری کی سوانح حیات پر یہ کتاب وجود میں آگئ۔

اس کتاب میں مصنف نے بعض یادوں اور واقعات کو مکمل اور تفصیلی طور پر جاننے کیلئے اپنے پڑھنے والوں کیلئے کچھ مطبوعات اور ایسی کتابوں کا بھی حوالہ دیا ہے جن سے استاد حاج ملا قادر قادری نے بھی مراجع کیا تھا۔ جسکی وجہ سے بعض مقامات پر یہ یاد دہانی ، مفید مطالب میں اضافے کے سبب کے ساتھ ساتھ بعض اوقات خودایسے فراموش شده واقعات کو بھی بیان کرتی نظر آتی ہیں جو قابل ذکر ہیں جسکا ذکر یہاں کرنا میں بہتر نہیں سمجھتا۔

باوجوداس کے ، کہ مصنف کی کئی مذہبی طلاب سے نسبتاً واقفیت تھی مگر ان سب میں جناب علی شعبانی (مذہبی مدرسے سے فارغ التحصیل طالب علم) سے رجوع کیا اور ان سے اس سلسلے میں مدد کی درخواست کی ۔ انہوں نے ایک ایک قدم پر، ایک ایک کتاب کے ذریعے ، اور استاد حاج ملا قادری کی زندگی کے ادوار کے ایک ایک سال پر دقیق اور عمیق تشریح کر کے میری مدد کی۔

 گرچہ استاد حاج ملا قادری کی اس سوانح حیات میں ان کی ماں (والدہ) بیوی بھائی اور اولادوں کا کردار ، ان کی علمی ، عملی زندگی میں ان کا عمل دخل ، دوران طلبگی ان سب کا اثر اور جہاد اور جنگ کے دور میں ان رشتوں کا ساتھ  اور تعاون ، کافی حد تک کتاب میں بیان کیا گیا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ مولویوں (دین سے تعلق رکھنے والے افراد) کی نجی زندگیوں کو اس طرح بیان کرنے کیلئے کچھ حدود کی رعایت لازمی ہوتی ہے جس طرح استاد حاج ملا قادر قادری نے اپنی زندگی کی بہت سی مشکلات اور پر یشانیوں بالخصوص اقتصادی مسائل کو بیان کرنے سے گریز فرمایا ہے اور بعض اوقات انسان ان معاملات کو اس طرح انٹرویو کے دوران بیان کرنے سے ، اور خود انٹرویو لینے والے شخص سے حیا و شرم کی بنیاد پر ان معاملات کو اس سے بیان نہیں کر پاتا اسی نکتے کومد نظر رکھتے ہوئے میں نے پاوہ کے ایک سفر کے دوران حاج ملا قادری کی زوجہ سے اس حوالے سے مدد لی اور چاہا کہ وہ نکات جو حاج ملا قادر نہیں بیان کر سکے ان پر کچھ روشنی ڈالیں۔گرچہ ان کی زوجہ اور بیٹیوں سے انٹرویو کے دوران بہت سے اہم مطالب سامنے آئے لیکن ان کی زوجہ کے اصرار کیوجہ سے ان میں سے اکثر واقعات و مطالب سے چشم پوشی کرنی پڑی۔ ملا استاد قادر قادری کہتے ہیں " طالب علمی کے دور میں آنے والی مشکلات اور پریشانیاں صرف مجھ سے منسوب اور مربوط نہیں ہیں بلکہ یہ ہر اس شخص کی زندگی کا حصہ ہیں جو اس راہ پر خدمت دین کی نیت کے ساتھ قدم رکھتا ہے اور یہاں اس کتاب میں ان مشکلات کو بیان کرنا میری نظر میں کتاب کے لکھنے کے اصل مقصد اور ہدف سے ہمیں دور کر دے گا ! "

 اس کتاب کو لکھتے وقت مصنف نے حتی الامکان کوشش کی ہے کہ اصل متن اور راوی کے اس کلام کے انداز کو ملحوظ رکھا جائے اور اسکے کردی لہجے اور زبان کو مخدوش نہ ہونے دیا جائے اور الفاظ میں بھی اس لہجے کی جھلک دکھائی دے ، حتی بعض اوقات ملا قادری  اپنے بیان میں اتنا محو ہو جاتے تھے کہ اپنی مادری زبان میں بات کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس وقت مصنف کو ایسا لگتا کہ شاید کتاب کو لکھتے وقت ،ان تمام مطالب کی ضرورت ہی نہ پڑے مگر جب اس کتاب کو کمپوز کیا جا رہا تھا تو پروف ریڈ نگ اور ایڈیٹنگ کے دوران ایڈٹیر صاحب کی درخواست پر ان مطالب کو جو مادری زبان میں بیان ہوئے تھے ترجمہ کروایا گیا اور اسکو کتاب کے حوالہ جات کے ساتھ صفحات کے نیچے  لکھ دیا گیا ۔

یہ کتاب دو سو گھنٹوں (۲۰۰) کی گفتگو کا نچوڑ ہے جو کبھی ٹیلیفون پر کی گئی اور کبھی پاوہ جاکر انٹرویو کی صورت میں ریکارڈ کی گئی اور راوی کے ہر ہر لفظ کو بطور امانت محفوظ کیا گیا۔ایک ایسی امانت کے طور پر جسکو قارئین کے سپرد کرتے وقت حرمت قلم کا خیال رکھا جائے گا، ایک ایسی امانت جسمیں راوی کے بیان کردہ ہر لفظ کو اسکے احساسات اور تحفظات کا خیال رکھتے ہوئے کا غذ پر منتقل کیا جائے گا۔

اس کتاب کی تصنیف میں کئی دفعہ ایسا ہوا کہ متن اور بیان تبدیل کئے گئے / راوی کی طرف سے تبدیل کروائے گئے یہ تبدیلی واقعات اور متن کو حذف یا کم کرنے کی وجہ سے نہیں تھی نہ اسلئے تھی کہ الفاظ تبدیل کر کے اس کی جگہ نیا واقعہ یا الفاظ ڈلوائے گئے ہوں بلکہ اصل واقعے کو محفوظ کرتے ہوئے کسی مومن کی عزت و آبرو پر حرف نہ آئے اس لئے افراد کے نام ، قوم و قبیلوں ، گاؤں علاقوں کے کچھ نام حذف کروائے گئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ نام و شناخت کسی کیلئے تمسخر کا سبب بن جاۓ یا اس قوم و قبیلے یا فرد کی شخصیت پر کوئی سوال اٹھے یا بعض دفعہ بار بار کوئی نام تکرار ہوا تو اس کو کم کروایا گیا تاکہ پڑھنے والے کو لطف آۓ ، مصنف نے اس نقص کو دور کرنے کیلئے  علامت [....] کو کتاب میں استعمال کرکے مطالب کے باہمی ربط کو قائم رکھا ہے اس علامت [....] کے ذریعے یہ بھی نشاندہی کر دی ہے کہ یہاں کچھ مطالب موجود تھے اسکے علاوہ ایک اور چیز جو اس مقصد کے لئے استعمال کی گئی ہے وہ یہ کہ لکھا گیا ہے " اس علاقے کے باشندوں میں سے ایک " فلاں علاقے کے گاؤں میں سے ایک گاؤں " وغیرہ وغیرہ اور اسطرح مطالب کی چاشنی کو برقرار رکھتے ہوئے اصل واقعے کو مکمل طور پر بیان کر دیا گیا ہے !

اس کتاب میں مصنف نے اہل سنت اور اہل تشیع علماء کے عناوین اور مراتب کو بیان کرنے میں کوئی کوشش نہیں کی  ہے بلکہ کتاب کے راوی نے خود اس مشکل  مسئلے کو اس طرح حل کیا ہے کہ اپنے بیان کے دوران ہی اہل سنت اور اہل تشیع علماء کو الگ الگ مراتب اور عناوین سےمشخص کر کے ایک دوسرے سے الگ کر دیا ہےجیسا کہ ملا، مفتی ، آغا کے القابات اہل سنت علماء کیلئے استعمال کئے ہیں جبکہ آیت الله ، حاجی آغا وغیرہ کے القابات شیعہ علماء کے ناموں پہلے استعمال کر کے یا برادر محترم وغیرہ ناموں کے ساتھ لگا کر یہ واضح کردیا ہے کہ ان کا تعلق مکتب تشیع سے ہے۔

اس کتاب کے حوالہ جات  کوترتیب دیتے وقت کتاب کے مصنف نے تحقیقی کتابوں کے کئی ماہرین سے مشورہ لیا ہے اور خود بھی کئی دفعہ اس کتاب کا مطالعہ کر کے ان کلیدی کلمات کی توضیح و تشریح کی ہے جو قاری کو مطالعے کے وقت فہم مطالب میں مشکل سے دو چار کر سکتے تھے اور ان کی جگہ تشریح و توضیح کے ساتھ کچھ ایسے الفاظ کو لکھا ہے جو اس سے تناسب رکھتے تھے، اس طریقہ تحریر و روش نے نہ صرف اس کتاب کے مطالعے کی کشش کو بڑھا دیا ہے بلکہ واقعات و مطالب کو مکمل اور صحیح طور پر محسوس کرواکر اس کتاب کو پر لطف اور لذت بخش بنا دیا ہے۔

کتاب کے حوالہ جات تقریباً مندرجہ ذیل مواد پر مبنی ہیں۔

  •  کچھ شہروں، گاؤں اور علاقوں کے نام ، قاری کی آشنائی کیلئے
  • نام ،قدیم عبارتیں ، غیر استعمال ( مستعمل) الفاظ، جیسے باختران (مغرب) کمیتہ انقلاب (انقلابی کمیٹی) وغیرہ وغیرہ ۔
  •  کچھ ایسے سیاسی و مذہبی گروہوں کے نام جو ملک سے باہر اور اندر وجود میں آئے ۔

راوی نے اپنے انٹرویوز میں ان گروہوں کے نام بیان کئے جو اس وقت بنے یاوجود میں آئے تھے اور ان کا عمل دخل اس وقت کی سیاست پر اثر انداز ہو رہا تھا۔ جیسے کر دی مسلمان، رزگاری گروه ،  مقامی گوریلا گروه کردستان کا ڈیمو کر ٹیک گروه ،کوملہ ، میہنی کا اتحادی گروہ وغیرہ وغیرہ۔

  •  سیاسی، روحانی، حکومتی ،شخصیات، ممتاز و معروف شہداء ، صدر وغیرہ جیسے مہدی بازرگان، عزالدین حسینی ، عبدالرحمان قاسملو ، فخر الدین حجازیعطاء الله اشرفی اصفہانی، جلال طالبانی ، مصطفی بارزانی و دیگر ۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مصنف نے بہت ہی معروف شخصیات جیسے حضرت امام خمینی رضوان اللہ علیہ اور رہبر معظم آیت الله سید علی خامنہ ای کی سوانح حیات کو کلام کے طولانی ہونے کے باعث ذکر نہیں کیا ہے۔

غرضیکہ ملا قادر قادری کی تمام دستاویزات اور انٹرویوز کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ وہ دور اندیش اور صاحب نظر شخص ہیں جن کا کتابوں کو جمع کرنے کا شوق۔ ان کے ہاتھوں کی تحریریں، ان کی آوازوں سے بھری ہوئی  کیسیٹیں(ریکارڈ نگس) ان کی تصاویر ، اور ان سب پر ان کا عمیق مطالعہ ، گہری نظر اور سوچ اس بات کا باعث بنی کہ میرے ذہن میں ہزاروں سوالوں نے جنم لیا اور پھر ان کے جوابات کی تلاش و جستجو میں یہ کتاب بن گئی ، ان شاء اللہ کچھ باہمت بلند حوصلہ لوگ ضرور آئیں گے آگے جن کی بدولت یہ دستاویزات  مکتوب حالت میں تاریخ کا حصہ بنیں گی۔ اگر ان دستاویزات کی بات کی جائے تو یہ تقریباً ایک ہزار نو سو (۱۹۰۰)کیسٹیں ہیں جن میں سب سے زیادہ ان کے خطبات توجہ طلب ہیں ۔

اب میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ ہر اس عزیز کا شکریہ ادا کروں جس نے اس کام کو اختتام تک پہنچانے میں کسی نہ کسی طرح زحمت اٹھائی اور میری مدد کی ان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔

 میرے پرانے دوست اور بھائی حسین نصرالله زنجانی بھی ان میں سے ایک ہیں۔جنہوں نے نہ صرف یہ کہ اس گفتگو (انٹرویوز ) میں تعاون کیا اور میرے ساتھ شامل رہے بلکہ میرے لکھے گئے ایک ایک صفحے کا بغور مطالعہ کیا اور میری رہنمائی میں اپنی قیمتی وقت کو صرف کرنے سے دریغ نہ کیا۔

  • ملا حاج قادر قادری کے اہل خانہ ، بالخصوص ان کے بیٹے ، محترم مسلم صاحب، محترم مکرم صاحب، محترم مصلح صاحب جن سے بہت دوستی ہوگئی اور انہوں نے اول تا آخر اس کام میں میرے ساتھ تعاون کیا اور اس دوران تمام مشکلات کے باوجود مجھے اور میری گفتگو کو برداشت کیا، اگر یہ نہ کہوں تو انصاف نہ ہوگا کہ حقیقت اور حق تو یہ ہے کہ اگر ان عزیزوں کی ہمدردانہ ہمراہی اور تعاون نہ ہوتا تو یہ کتاب اختتام تک نہیں پہنچ پاتی۔
  • کردستان کے ثقافتی انسٹیٹیوٹ کے مدیر اعلیٰ محترم بہرام ولد بیگی صاحب جن کی مدد کے بغیر اس کتاب میں  یہ وزن نہ ہوتا جنہوں نے پاوہ کی سیاسی تاریخ، ناموں، جگہوں، مقامات و واقعات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ تمام مطالب کو درست اور معتبر انداز سے پیش کر کے اس کتاب کی اہمیت  میں اضافہ کیا۔
  • پاوه کی ثقافتی و علمی شخصیات  ، علاقائی و انقلابی تنظیمیں،  انجمنیں ، بالخصوص دینی و مذہبی مدارس کے استاد ، علماء ، ادارۂ نقل و حمل ،شہداء فاؤنڈیشن، پاوہ کے گورنر اور میرے عزیز ترین بھائی محترم مظفر بہشتی زاده صاحب وہ اہم اراکین ہیں جن کی حمایت کے بغیر اس کام کا مکمل ہونا  انتہائی مشکل تھا۔

محترم مظفر بہشتی زاده  صاحب جو انتہائی مخلصانہ انداز میں، دن رات وقت بے وقت کھلے دل اور قابل ذکر خوش اخلاقی کے ساتھ میرے ہر فونکال کا جواب دیتے تھے اور میری رہنمائی کرتے تھے۔

  •  سردار محترم جمیل بابائی جو کچھ واقعات کو مکمل کرنے کیلئے راوی بنے جنہوں نے ادھورے واقعات کو مکمل کرنے میں میری رہنمائی کی۔
  •  محترمہ خانم مژگان پورویسی صاحبہ ، جن کی دور رس نگاہ ، اس کتاب کی پہلی ا شاعت میں معاون ثابت ہوئی۔
  • اور سب سے آخر میں نہایت مشکور ہوں ، صوبائی فن و ادب کے انسٹیٹیوٹ کے مدیر اعلیٰ جناب محترم قاسمی پور اور ان کی اہلیہ محترمہ کا ، اور اس انسٹیٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور محققین کا ، جن کی بدولت یہ کتاب اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ سکی۔

خدایا ، کچھ ایسا کر، کاموں کا انجام کہ تو خوشنود ہو ہم سے، اور ہم کامیاب۔

۲۵ جون ۲۰۱۷

علی رستمی



 
صارفین کی تعداد: 1336


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔