پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 3

میرے خاندان کا تعارف 1

مصنف: علی رستمی
ترجمہ: افشین زہرا
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2023-11-24


میرے جد، قادر جو قادر آغا کے نام سے مشہور تھے، عراق کے شہر تویلہ کے ایک قبیلے "آقا لرہای" سے تعلق رکھتے تھے۔ میرے والد کی طرف سے میرا شجرہ (سلسلہ نسب اسطرح ہے: قادر ابن عباس و عباس ابن قادر و قادر ابن رسول و رسول ابن محمود و محمود ابن خالد آغا۔

ہمارا سلسلہ نسب کردستان عراق کے قبیلہ"تویلہ" سے تعلق رکھنے والے نقش بندیوں کے بزرگ مشائخ خاندان سے جا کر ملتا ہے۔ ہم اور وہ ایک خاندان ایک قبیلہ اور ایک ہی نسل سے ہیں ، نقش بندیوں کے سلسلہ نسب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا سلسلہ نسب بغداد کے نعیمی سادات سے جاکر ملتا ہے اور یہی اس خاندان کی اصل ہیں۔

 اس خاندان کی سب سے مشہور ترین شخصیت شیخ عثمان نقش بندی اول ہیں جن کالقب "سراج الدین" تھا۔ سراج الدین ، کردوں کی بلند مقام شخصیت مولانا خالد شہر زوری کے ممتاز خلفاء میں سے ایک تھے۔ شیخ سراج الدین قبیلہ تویلہ نے اور اورامان میں مسجد، خانقاه اور دینی مدارس تعمیر کروائے۔

 

میرے جد قادر آغا نے شوشمی سفلی میں وہاں کی ایک خاتون سے جن کا نام "زیبا" تھا شادی کرلی جس کے نتیجے میں میرے والدیعنی "عباس" متولد ہوئے، قادر آغا اور ان کی زوجہ کچھ عرصے بعد تویلہ آگئے مگر کچھ عرصےکے بعد کچھ اختلافات کا شکار ہو گئے اور اپنی اپنی زندگی کی راہیں ایک دوسرے سے جدا کر لیں ۔ اس جدائی کے بعد زیبا صاحبہ اپنے اکلوتے بیٹے عباس کو لے کر دوبارہ شوشمی آگئیں اور کچھ سال عباس کے ساتھ گزارنے کے بعد  ان کو اپنے والد کے رشتے داروں کے حوالے کر کے ، ہانی گرملہ گاؤں کے ایک اونچے خاندان میں شادی کرلی۔

 جب میرے والد کی عمر کمانے اور کام کرنے کی ہوئی تو اس وقت نو سود کے حاکموں میں جعفر سلطان پورے اورامان کا حاکم تھا ۔ جعفر سلطان نے میرے خاندان کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور میرے والد کے قبیلے کو دیکھتے ہوئے ان کو کام کرنے کی پیشکش کی اور ان کو اپنے خاندان سے قریب کر کے اپنے ماتحت رکھ لیا اور ان کو یہ کام دیا کہ بندوق برداری اور مسلح سپاہیوں سے متعلق تمام امور کو وہ خود دیکھیں گے اور اپنی نظارت میں ان کاموں کو کروائیں گے۔

جعفرسلطان کے بیس بیٹے تھے اس نے ہر ایک کو کسی نہ کسی  گاؤں کا حاکم مقرر کیا ہوا تھا میرے والد کے قبیلے کی وجہ سے اور میرے والد کے قبیلے اور نوسود کے بیگ زادوں (بیگوں) کے درمیان جو رشتہ تھا اس کی وجہ سے جعفر سلطان نے میرے والد کو جوانی ہی میں اپنے ایک بیٹے کے ہمراہ  اپنے سب سے بڑے بیٹے " سلطان محمد امین بیگ" کے پاس پاوہ بھیجا۔ جعفر سلطان کا یہ بڑا بیٹا محمد امین " سلطان پاوہ " کے نام سے مشہور تھا ۔ محمد امین بیگ نے بھی میرے والد کو مشاور اور حکومتی معاملات میں معاونت کی خاطر نور یاب (۱) گاؤں میں ماموریت دے دی۔

کچھ عرصے کے بعد سلطان محمد امین کا اثر و رسوخ کم ہو گیا تو میرے والد کو اپنی زندگی اور مستقبل کی فکر ہوئی اور انہوں نے اپنی زندگی کو آگے بڑھانے کیلئے ، نوریاب ہی میں مرحوم محمد مراد کی بیٹی سے جن کا نام زبیدہ تھا ، شادی کرلی۔ اس شادی کے نتیجے میں تین اولادیں ہوئیں جن کے نام طوبیٰ ، رابعہ اور صالح تھے۔ طوبیٰ اپنی شادی کے دس سال بعد اس سے پہلے کہ صاحب اولاد ہوتی شدید بیمار ہوئی اور مرگئی ، رابعہ نے احمد ولد بیگی نامی شخص سے شادی کی ان کی چند اولادیں ہوئیں  جن کے نام محمود اور ثوبیہ ہیں۔

میرے والد نے اسکے بعد کاشت کاری اور زراعت کے پیشے کو اپنا لیا مگر اس سے حاصل ہونے والی آمدنی اتنی کم تھی کہ میرے والد کو کوئی ایک دن بھی نصیب نہ ہوتا جس دن وہ گھر پر رہ کر تھوڑا آرام کر سکیں لہذا ہر روز کام پر جاتے اور اپنے اور اپنے گھر والوں کیلئے پیسہ کماتے۔ اسی سخت و دشوار زندگی اور بیوی بچوں کیلئے پیسہ کمانے کی تگ و دو کے دوران  زبیدہ خاتون انتقال کرگئیں اور اپنے خاندان کو سوگوار چھوڑ گئیں۔

میرے والد نے اسکے بعد  چالیس سال کی عمر میں دوبارہ شادی کا ارادہ کیا اور دوریسان (۲) گاؤں کی سلمٰی نادری نامی خاتون سے شادی کرلی ۔سلمی صاحبہ دور یسان گاؤں کے مشہورمذہبی شخص مولانا عبد اللہ کی پوتی اور ملا محمد کی بیٹی تھیں ۔ مولانا عبد الله نادرکے والد اور جد بھی سید حیدر تھے اور ان کے جد سید احمد حداد بھی میرے آباؤ اجداد  کی تحریر کے مطابق سید اور میرے اجداد میں سے بھی تھے ،۔یہ سلسلہ سات پشتوں کے بعد پیر شہر یار اورامان تک ملتا اور پہنچتا ہے۔

سلمیٰ خاتون جنکا تعلق اسی بزرگ خاندان سے تھا۔ تیس سال عباس صاحب کے ساتھ رشتہ ازدواج سے منسلک رہیں اور ان سے تین بیٹیاں زرین، سلطانہ اور غریبہ ہوئیں۔ ان تینوں کی بہت اچھے گھروں میں شادیاں ہوئیں۔ اللہ نے عمر کے آخری حصے میں ان کو ایک بیٹا عطا کیا جسکا نام انہوں نے"عبد القادر" رکھا کہ ہم ایرانی انکے نام کو مختصر کر کے صرف " قادر" کہتے ہیں۔

 میں ہی وہ "عبد القادر" ہوں، عباس آغا اور سلمی خاتون کا بیٹا اور قادر آغا کا پوتا  جو ۱۹۴۸ میں پیدا ہوا اس لحاظ سے پروردگار کا نہایت مشکور ہوں کہ والد ووالده دونوں کی طرف سے میرا شجرہ اہل  بیت رسول ﷺ سے جا کر ملتا ہے، دستاویزات و کاغذات کے مطابق میں صرف دو سال کا تھا جب میرے والد سن رسیدگی  کی وجہ سے ۷۵ سال کی عمر میں دار فانی سے کوچ کر گئے۔ میرے ذہن میں ان کی دھندلی سی تصویر ہے اور ایک خواب و خیال کی مانند وہ میرے ذہن میں ہیں۔



 
صارفین کی تعداد: 463


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔