پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 4

میرے خاندان کا تعارف 2

مصنف: علی رستمی
ترجمہ: افشین زہرا
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2023-12-1


میری والدہ کہتی ہیں تمہارے والد ایک مذہبی نیک انسان تھے جب سے میں شادی ہو کر ان کے گھر میں آئی میں نے دیکھا وہ امانت دار قابل اعتماد اور دین دار تھے۔ شوق عبادت کا یہ عالم تھا کہ ہمارے گاؤں نوریاب میں نماز جمعہ نہیں ہوتی تھی تو تمہارے والد ہر جمعے دو رکعت نماز جمعہ پڑھنے اور اسکا خطبہ سننے  پیدل نوریاب سے پاوہ پیدل جاتے تھے۔

پاوہ کے معتمدین و بزرگ افراد میں سے ایک، آغا صوفی مدرسی، مجھ سے کہتے تھے "تمہارےوالد مرحوم  نماز جمعہ ادا کرنے کے  بعد اکثر ہمارے گھر آتے تھے اور دو پہر کا کھانا ہم ساتھ کھاتے تھے اور پھر وہ نوریاب واپس لوٹ جاتے تھے۔"

میرے والد کے انتقال کے بعد، ہمارے پاس صرف  چھ بکریاں تھیں کہ جن کے دودھ اور دہی کے ذریعے ہم اپنی غذا اور کھانے کا انتظام کرتے تھے . ہم مجبور تھے کہ ہر سال کسی اور کے باغ میں اسکی زمین پر کاشتکاری کریں اور جب سال کا اختتام ہوتا اور فصل اور پھل پک کر تیار ہو جاتے تو طے شدہ معاہدے کے مطابق  حاصل شده فصل اور پھلوں کا آدھا  حصہ کو مالک کو دے  کرباقی آدھے میں گزارا کرتے ۔

 اگر غور کریں تو نور یاب گاؤں کے زیادہ تر لوگوں کی زندگی اور معیار زندگی یہی تھا۔ سوائے چند لوگوں کے جو متوسط طبقہ تھا اور مالکوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ اسکے علاوہ تقریباًسب ہی لوگ فقر و فاقہ اور تنگ دستی کی زندگی گزارتے تھے مگر یہ فقر و فاقہ اور تنگ دستی ان کی زندگیوں کے سکون اور آپس کے تعلقات پر اثر انداز نہیں ہوتا تھا ہر خاندان عزت دار اور قناعت پسند زندگی پر راضی تھا اور یہی نور یاب کے تمام رہنے والوں کی شخصیت کا خاصہ تھا۔

میرے والد بھی امیر نہیں تھے مگر عزت نفس کے مالک، اور عزت دار تھے لہذا ہمیشہ حرام کاموں سے دور رہے لوگوں میں ان کی پاک دامنی کے علاوہ مسائل فلکی اور ستاروں کے علم پر ان کی دسترس کے خوب چرچے تھے۔ انہوں نے بہت محنت اور بار ہا تجربات کر کے علم نجوم سیکھا تھا، یہی وجہ تھی کہ جب کوئی کاروان راستہ بھٹک جاتا تھا تو پاوہ پہنچ کر میرے والد سے رابطہ کرتا تھا اور اسی طرح برف باری اور بارشوں کے متعلق پیشن گوئی کا ضرور معلوم کرتا تھا جبکہ یہ سارا علم اور پیشن گوئیاں ان کے ذاتی تجربات کا نتیجہ تھیں اور انہوں نے اسکا باقاعدہ علم کہیں سے نہیں سیکھا تھا مگر پھر بھی اپنے تجربات کی روشنی میں وہ ہر سال موسم گرماہی میں موسم سرما کی شدت اور حالت کے بارے میں پیشن گوئی کردیا کرتے تھے کا روان ،کاروان سالار اور ڈاکئے (پوسٹ مین) ، گزرگاہوں سے نزدیک ہوتے مختلف علاقوں تک جانے اور خطرناک راستوں پر سفر شروع کرنے سے پہلے میرے والد سے ضرور مشورہ لیتے تھے۔

سال میں کچھ مہینے ایسے بھی تھےجن میں کچھ گزر گاہوں کو عبور کرنا نا ممکن ہوتا تھا ۔اپنی منزل پر پہنچنے کیلئے  اپنے راستے کو تبدیل کرتے تھے جسکی وجہ سے ان کی مسافت کئی گنا زیادہ ہو جاتی تھی ایک بزرگ نے مجھے بتایا " ایک دفعہ میں لرُستان اور ہرسین ( کرمان شاہ کا گاؤں) سے تعلق رکھنے والے ایک کاروان ( قافلے کے ساتھ واپس آرہا تھا کہ پاوہ پہنچنے سے پہلے ہی منصور آغا کے گاؤں میں تین ہفتے تک برف باری اور شدید برفانی طوفان اور ہواؤں میں گھرے رہے۔ وہاں کے مسن (سن رسیدہ افراد نے ہمیں بتایا کہ بہار کے پہلے مہینے سے پہلے بہت مشکل ہے کہ یہ راستہ آپ کو کھلا ہوا اور صاف ملے ۔ جس کے پیش نظر ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم جوانرود دوبارہ واپس جائیں اور پھر ہم جوانرود واپس پلٹے اور دس دن کی تھکا دینے والی مسافت کے بعد جو ثلاث باباجانی، گرمسیری کے علاقے ، درو لہ ہروی، سیروان کے دریا کے کنارے کے راستے سے ہوتی ہوئی نوریاب آتی تھی اور اس طرح بالآخرنور یاب پہنچے۔

میرے والد کے انتقال کے بعد ہماری زندگی کی مشکلات اور بڑھ گئیں اور میری پرورش اور میری والدہ کی سرپرستی میرے بھائی صالح کے کندھوں پر آگئی۔ میرے بھائی صالح، میرے والد کی پہلی زوجہ زبیدہ صاحبہ کی اولادوں میں سے تنہا وہ اولاد تھے جو بہ قید حیات تھے۔ انہوں نے واقعاً مجھے اور میری بہن کو باپ کی کمی محسوس نہ ہونے دی اور کردارِ پدری بہ خوبی نبھایا اور اس کے ساتھ ساتھ میری ماں، جو ان کی بھی شرعی ماں تھیں، ان کے بھی حقوق بھی احسن طریقے سے ادا کئے اور ان کی ہر مشکل کے آگے سینہ سپر ہو گئے اور حق مادری کو ادا کرنے میں کوئی کسر نہ  چھوڑی۔

صالح بھائی میرے والد کے پہلے بیٹے تھے اور میں دوسرا ، مگر ہم دونوں کی عمروں میں چالیس سال کا فرق تھا.

 



 
صارفین کی تعداد: 486


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔