پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 10
مصنف: علی رستمی
ترجمہ: افشین زہرا
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2024-1-13
میں انتہائی غصے کی حالت میں ہائی اسکول سے باہر آیا اور پاوہ کے ادارئے تعلیم و تربیت (خانہ فرہنگ) کے مدیر اعلیٰ کے دفتر جا پہنچا، یہ ادارہ آغا غفار بکری (جو پا وہ کے رہائشی تھے) کی عمارت میں ہی تھا ، میں دفتر میں داخل ہوا اور ادارے کے مدیر اعلی آغارشنوآبادی کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا اور پرنسپل کے اس روئیے پر شدید اعتراض کرتے ہوئے گویا ہوا کہ میں نوریاب گاؤں سے آیا ہوں، ہزار زحمتیں اٹھا کر ہائی اسکول کی کتاب اور کاپی خرید سکا ہوں آج جب کلاس میں گیا ہوں تو مجھے کہا جا رہا ہے کہ کلاس کے ایک کونے میں زمین پر بیٹھ جاو ، نہ پورے سال چھٹی کرو گے، نہ ٹیچر سے(استاد )سے کوئی سوال کرو گے نہ کسی شاگرد سے کوئی بات کرو گے یہاں تک کہ اپنی کرسی بھی خود خرید کر لا ؤ۔ جناب محترم باقی شرائط تو ہو سکتا تھا کہ میں قبول کر لوں اور اپنی پوری کوشش کروں کہ ان کی رعایت بھی کروں مگر میری جیب اجازت نہیں دے رہی کہ اس مالی حیثیت کے ساتھ ایک کرسی خریدوں میں کرسی کہاں سے لاؤں ؟
مدیر اعلیٰ بھی میری پوری بات سننے کے بعد، پرنسپل آغا ملک شاہی کی ہی طرف داری کرتے ہوئے غصے سے بولے " ہمارے پاس تم جیسے بڑے لڑکوں کے لئے کرسی نہیں خود جاؤ اور خرید کر لاؤ"
ابھی یہی بحث جاری تھی کہ اسی دفتر میں ، شہر کے متدین و معروف تاجر حاجی ہدایت شیانی بھی موجود تھے۔ آغا شیانی اس دن میرے لئے فرشتہ نجات ثابت ہوئے کیونکہ اگر وہ اس بحث کے درمیان میں دخل نہ دیتے تو میرا لہجہ غصہ اور الفاظ وہ بھی ادارے کے مدیر اعلیٰ کے سامنے، کافی تھے کہ اسی دن مجھے اسکول سے باہر نکال دیا جاتا۔
حاجی ہدایت شیانی نے جب بحث و تکرار کو سنا تو وہ میرے قریب آئے میرا نام حال احوال پوچھا جب میں نے والد کا نام اور پتہ وغیرہ بنایا، تو وہ میرے والد کو پہچان گئے ، مجھ سے بات مکمل کر کے وہ ادارے کے مدیر اعلیٰ سے گویا ہوئے "آغارشنوادی صاحب، میں اس لڑکے کے خاندان کو اچھی طرح جانتا ہوں یہ یتیم ہے اس کی ماں بھی متدین اورتنگد ست ہے بے چاری کہاں سے اتنے پیسےلائے گی جو اپنے بچے کو دے اور وہ آپ کو کرسی خرید کر لا کر دے یا خود خرید کر لا دے ؟ اگر اس بچے کے اسکول میں پڑھنے کی مشکلات صرف ایک کرسی کی وجہ سے ہیں تو میں یہ مشکل حل کر دیتا ہوں۔
اس کے بعد انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور دفتر سے نکل کر سیدھا بازار میں اپنی دکان پر لے آئے ان کی دکان پر ایک لکڑی کی کرسی فالتو پڑی ہوئی تھی انہوں نے وہی لکڑی کی کرسی اٹھائی اور مجھے دے دی۔ میں نے اس کرسی کو اپنے کندھے پر رکھا اور ہائی اسکول آگیا ۔کلاس کے دروازے کو کھولا اور اندر آنے کی اجازت طالب کی اور کرسی سمیت کلاس میں داخل ہو گیا۔
کلاس میں موجود ساری کرسیاں ایک سائز اور ایک ہی رنگ کی تھیں سوائے میری کرسی کے پھر بھی مجھے آگے بیٹھنے کی اجازت نہ ملی اور کہا گیا کلاس میں سب سے پیچھے بیٹھ جاؤں کوئی سوال پوچھوں نہ جواب دوں بس دیکھوں اور سنوں۔ انہی حالات میں ا سی بوجھل دل کے ساتھ تین ماہ گزر گئے میں کلاس کے آخر میں بیٹھا بلیک بورڈ کو دیکھتا رہتا اساتذہ کے الفاظ ہوتے اور میری سماعتیں شاگردوں کے صحیح اور غلط جوابات کو برداشت کرتی رہتیں مگر ذہن میں آنے والے ہزاروں سوالات کو پو چھنے کا حق نہیں رکھتا تھا۔ لہذا میں جو صبح سویرے روزانہ شاداب چہرہ اور شوق لئے کلاس میں داخل ہوتا تو کلاس کا ماحول ، ہم جماعتیوں کا ساتھ نہ دینا۔ جبری خاموشی اور سکوت دوپہر تک میرے حوصلے کو سرد اور میرے احساسات کو مجروح اور لہجے کو تلخ بنا دیتا اور یہ وقت رنج اور غم میں مبتلا کر دیتا تھا۔
اسی زمانے میں ایک رات میں نے ایک عجیب خواب دیکھا جس نے میرے ذہن کو بری طرح الجھا دیا ۔ گرچہ ان دنوں مذہبی و دینی مسائل سے میری زیادہ آشنائی اور آگاہی نہ تھی مگر آج جب میں اس خواب کو سوچتا ہوں اور اس کی جزئیات پر نظر ڈالتا ہوں تو یہی نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ میرا وہ خواب " سچے خوابوں" کا مصداق تھا جس کو میں کبھی کبھی بھول نہیں سکتا میں نے جو خواب دیکھا وہ کچھ اس طرح تھا کہ "میں اور محمد ولد بیگی کام کیلئے صحرا گئے ہیں اس صحرا میں ہم کھیل رہے ہیں اور ایک درخت کے اوپر چڑھ رہے ہیں، اچانک میں نے دیکھا محمد ولد بیگی ایک دفعہ ہی میں بہت آسانی سے درخت کے اوپر چڑھ گیا مگر میں جتنی بھی کوشش کر رہا ہوں نہیں چڑھ پا رہا ہوں تھوڑا اوپر جاتا ہوں مگر کیونکہ درخت کا تنا چکنا ہے تو پھسل کر دوبارہ نیچے آجاتا ہوں اور لاکھ کوشش کے باوجود میں اوپر نہیں چڑھ پاتا ہوں تو غم اور نا امیدی مجھے گھیر لیتی ہے اور میں افسردہ ہو جاتا ہوں کہ اچانک خواب میں ایک آواز سنتا ہوں جو مجھ سے کہہ رہی ہوتی ہے " قادر !یہ تمہارا راستہ نہیں ہے۔ اس درخت کے اوپر چڑھنے میں خود کو ہلکان نہ کرو اور خود کو زحمت میں نہ ڈالو"
اچانک پریشانی کے عالم میں ایک دم میری آنکھ کھل جاتی ہے اور میں سمجھ جاتا ہوں کہ یہ ایک خواب تھا جو میں دیکھ رہا تھا مگر مجھے فوراً اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ کوئی معمولی یا بے تعبیر خواب نہیں تھا تھوڑا اوسان بحال ہوتے ہیں تو مجھے اطمینان ہو جاتا ہے کہ یہ خواب ایک اشارہ تھا کہ اس ہائی اسکول میں پڑھنے میں میں کامیاب نہیں ہو سکوں گا مگر مجھے نہیں معلوم تھا میری تقدیر میں کیا ہے آگے کیا ہونے والا ہے؟ میں پریشان تھا میرے دل میں ہزاروں طرح کے خیال اور وسوسے آرہے تھے(۱)
حوالہ جات:
۱۔ محمد ولد بیگی دو سال بعد ہائی اسکول کی ڈگری لے کر بندر عباس میں ٹیچرز ٹر ینگ انسٹی ٹیوٹ میں بھرتی ہو گیا اور وہاں ٹرینر کے فرائض انجام دینے لگا ۔
صارفین کی تعداد: 835