پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 18
مصنف: علی رستمی
ترجمہ: افشین زہرا
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی
2024-5-17
میری نوریاب گاؤں میں قانون کی خلاف ورزی کی داستان کچھ اس طرح ہے کہ ہمارے گاؤں کے ایک رہائشی کے گھر شادی کی تقریب تھی ۔ اس تقریب میں ہمارے گاؤں کے علاوہ اطراف کے گاؤں سے بھی کئی مہمان آئے ہوئے تھے ۔ اس تقریب میں ، دشہ گاؤں کا ایک منچلا جوان بھی آیا ہوا تھا۔ تقریب زوروں پر تھی کر دی رقص کے دوران اس منچلے جو ان نے اپنی پستول نکال کر چند ہوائی فا ئر کر دئیے وہ بھی اس غرض سے کہ اس تقریب کی رونق میں اضافہ ہو سکے ، ہمارے گاؤں کےکچھ لوگوں کو اسکی یہ بات بالکل درست نہ لگی اور وہ اس جوان کے اسطرح ہوائی فائر کرنے اور لوگوں سے بھری اس محفل میں اسلحے کو بے دریغ اسطرح استعمال کرنے کے علاوہ ، اس لئے بھی ناراض ہوئے کہ یہ قا چاری اسلحہ اس جوان کے پاس کیوں ہے لہذا انہوں نے پاوہ شہر کے امنیتی ادارے کو اس اسلحے اور اس سے کی گئی فائرنگ کی اطلاع فوراًدے دی ۔ پاوہ شہر اور ہمارے گاوں نور یاب کے درمیان صرف تین گھنٹے کی مسافت تھی جو باعث بنی کہ ادارئے امنیت کے اہلکار جلد ہی شادی کی تقریب میں پہنچ گئے۔
ان افسران کے پہنچنے پر دشہ گاؤں کے اس منچلے جوان کو سمجھ آگیا کہ معاملہ کیا ہے اس نے اس پورے مجمعے میں نظر دوڑائی اور مجھے پہچان کر فورا میرے پاس آیا اور میرا ہاتھ پکڑ کر کھینچتا ہوا مجھے ایک کونے میں لے گیا، میں حیران وپریشان اسکے چہرے کو دیکھے جارہا تھا اس نے خوف سے لرزتے ہاتھوں سے اس پستول کو نکال کر میری ہتھیلی پر رکھ دیا اور آہستہ سے میرے کان میں بولا: مردانگی دکھاؤ اس کو خاموشی سے کہیں چھپا دو اور کسی کو کچھ نہ بتانا۔
میرے پورے وجود کو خوف نے گھیر لیا کیو نکہ میں جانتا تھا کہ یہ پستول غیر قانونی ہے اور غیرقا نونی اسلحہ رکھنا سنگین جرم ہے اور اسوقت اس کا میرے پاس ہونا مجھے اس سنگین جرم میں ملوث کر سکتا ہے مگر وہ جوان چونکہ اور امانات کے دیگر لوگوں کی طرح طلباء پر اعتماد اور بھروسہ رکھتا تھا اسی لئے وہ سارے مجمعے کو چھوڑ کر میری جانب آیا اس کا ایک طاب علم پر اعتماد کرنا مجھے مجبور کرگیا کہ اس کے اس بھرم کو ٹوٹنے نہ دوں لہذا میں نے اس کو مثبت جواب دیا اور فوراً اس پستول کو لے کر اپنے گھر آگیا اور اپنی والدہ سے کہا : یہ امانت ہے اسکے بارے میں کسی سے کچھ نہ کہئے گا اور اسکی خبر کسی کو ہونے نہ پائے ...
سرکاری اہلکاروں نے ، اس جگہ کی پوری تلاشی لی اور ارد گرد بھی تفتیش کی اور تلاشی لی مگر کچھ نہ مل سکا تو بالآخر خالی ہاتھ ہی دوبارہ پا وہ لوٹ گئے۔ دوسرے دن میں نے وہ پستول نکالی اور اپنے سامان میں اسکو چھپا لیا مگر میرا دل بری طرح ڈر رہا تھا اور ہزار خیال اور وسو سے میرے دل کو پریشان کر رہے تھے اسی خوف کے عالم میں میں دشہ پہنچ گیا اور اسلحہ لے کر اس لڑکے کے پاس پہنچا اور اسکو واپس کر دیا۔ یہ واقعہ میری زندگی کا پہلا واقعہ یا حادثہ تھا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی میں اسکاحصہ بن گیا تھا۔
صارفین کی تعداد: 621
گذشتہ مطالب
- جنوب سے آئے ہوئے بھائیوں کی جانب سے جواہرات کا ہدیہ
- گوهرالشریعه دستغیب کی یادیں
- خمینی کا بیٹا کہاں ہے!
- سید ناصر حسینی اور الرشید جیل کی یادیں
- آیت اللہ مدنی کے بارے میں سردار محمد جعفر اسدی کی یادداشتیں
- جنگ شروع ہونے سے پہلے عراق کی سرگرمیاں
- مایوس عوام کی اربعین کے جلوس میں شرکت
- زبانی تاریخ سے آشنائی – 13