پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 24

مصنف: علی رستمی
ترجمہ: افشین زہرا
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2024-7-14


ہمارے استاد محترم کا تکیہ کلام تھا وہ ہم سب طلباء کو میرا چشم و چراغ " کہہ کر پکارتےتھے اور ہمیں اپنے بیٹا مانتے تھے . انہوں نے ہمارے اس سوال کے جواب میں کہا " میرے بچوں صرف نماز پڑھنا اور اسکا پا بند ہونا کافی نہیں۔ اپنے مطالعے کو دین کے حوالے سے وسیع کرو اور عمیق طور پر دین کے احکامات اور اس کے فلسفے پر غور کرو ۔ یہی تضاد اور نقص، دین کے کئی نیکو کاروں میں نظر آتا ہے جو دین کو سطحی اور اوپری طور پر مان کر اس پر عمل کرتے ہیں اور تقلیدی طور پر دین پر عمل کرتے ہیں. سارے مسلمان جو ہمارے پیچھے نماز پڑھتے ہیں، کیونکہ اسلام کی تعلیمات سےکلی طور پر اور مکمل طور پر آگاہی نہیں رکھتے ، تو صرف کہنے اور دکھلانے کی حد تک مسلمان ہیں اور مسلمان ہونے کے ناطے مسلمانوں کی تقلید کرتے ہوئے کچھ کاموں اور احکامات کو بجالاتے ہیں اور انجام دیتے ہیں اور اگر شیاطین ان کو پکاریں تو یہ ان کے پیچھے بھی چل پڑتے ہیں ، تم سب کوشش کرو۔ کہ اپنی زندگیوں میں لوگوں کا ظاہر دیکھ کر دھوکہ نہ کھا جاؤ، اور جب تک کسی شخص کے بارے میں خوب تحقیق نہ کر لو اور اس کو جان نہ لوتو اسکے بارے میں کوئی رائے قائم نہ کرنا اور اس کے لفظوں اور اسکی باتوں پر یقین نہ کرنا.

ہم۱۹۶۷ کی گرمیوں میں اپنے ایک دوست کے ساتھ حلبچہ شہر گئے تھے وہاں اپنے کچھ رشتے داروں سے بھی ملاقات ہوئی جو وہیں رہتے تھے۔ ہمارے ایک دوست نے  ایک خاتون سے بات چیت شروع کر دی جو وہاں پر دکان کی مالکہ تھی وہ خاتون نوریاب گاؤں کی تھی اور قطعہ خانم نام تھا اسکا مگر قطعہ چتہ(۱) کے نام سے مشہور تھی اس نے مجھ سے کہا تم آکر مجھ سے ملو میں نے حامی بھر لی اور اسکے گھر ہم گئے ۔ وہ تقریباً ساٹھ سالہ 60 بوڑھی عورت تھی جو عربی قمیض پہنے ہوئی تھی اور عام عورتوں سے ہٹ کر اسکے چہرے پر ہلکی سی داڑھی اور مونچھیں بھی تھیں اس نے مجھ سے سوال کیا تم کس خاندان کے ہو ؟ میں نے اپنا مکمل تعارف کروایا ، وہ فوراً میرے خاندان کو پہچان گئی اور بولی " خدا تمہارے والد پر رحمت کرے اور ایک قابل اعتماد شخص تھا "

 اس کے بعد اس نے میرے گھر والوں ، رشتہ داروں اور اپنی بہن زبیدہ خانم کا حال احوال پوچھا جو اب بھی نوریاب ہی میں رہتی تھیں، میں نے جواب دیا " مجھے آج کل ان کے حالات کی کوئی تازہ خبر نہیں ملی ہے مگر پچھلے سال جب تک میں نوریاب آتا جاتا تھا ۔ آپ کی بہن الحمد لله ٹھیک ٹھاک تھیں اور ان کو کوئی مشکل نہ تھی"



 
صارفین کی تعداد: 366


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
مریم بہروزی کی یادوں کا ٹکڑا

جنوب سے آئے ہوئے بھائیوں کی جانب سے جواہرات کا ہدیہ

جب انہوں نے دیکھا کہ خواتین اپنے زیورات ہدیہ کر رہی ہیں، تو انہوں نے اپنی جیبوں سے نوٹون کی گڈیاں نکالیں جو شاید ان کی ماہانہ تنخواہ تھی،اور اسے ہدیہ کرنے کے لیے اصرار کرنے لگے۔ انہیں بتایا  بھی گیا کہ ہم رقم نہیں لیں گے، لیکن انہوں نے اصرار کیا: "خدا کے لیے، یہ زیورات کی جگہ پر لے لیں اور خواتین کے زیورات کے ساتھانہیں بھی  جمع کرلیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔