خمینی کا بیٹا کہاں ہے!

ترجمہ: سیدہ رومیلہ حیدر

2024-10-3


حاج مصطفیٰ خمینی کی گرفتاری کا ماجرا

جب امام خمینی کو جلاوطن کیا گیا تو مرحوم آیت اللہ حاج آغا مصطفیٰ آیات عظام کی رہائش گاہ پر جاتے تھے اور ان سے تقاضہ کرتے تھے کہ اس مسئلے کا حل نکالنا چاہئیے۔ وہ میرے والد کے گھر بھی آئے اور ہم اپنے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے [حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر سید محمود مراشی نجفی]۔ وہ گفتگو کرنے لگے اور کہنے لگے: "ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ہم سمجھ نہیں پارہے کہ کیا کرنا ہے۔" ابھی ہم بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ اچانک صحن سے آواز آئی۔ میں اٹھا، میں نے دیکھا کہ کوئی پچاس یا ساٹھ مسلح کمانڈوز ، ہمیں آگاہ کئے بغیر یا دروازہ کھٹکھٹائے بغیر، سیڑھیوں سے اندر داخل ہوئے اور صحن کے بیچوں بیچ چیخ کر سوال کرنے لگے، ’’خمینی کا بیٹا کہاں ہے؟‘‘ مرحوم حاج آغا مصطفیٰ اٹھے اور میں نے چھلانگ لگاتے ہوئے کہا: تمہیں کس سے کام ہے؟ کہنے لگے: خمینی کے بیٹے سے! وہ کہہ رہے تھے کہ وہ اسی کمرے میں ہے جس میں آپ لوگ ہیں۔ وہ بوٹوں سمیت کمرے میں داخل ہوئے اور کتابوں کے اوپر سے گزر کر حاج آغا مصطفیٰ کا ہاتھ پکڑ لیا۔ میرے مرحوم والد آگے بڑھے اور کہا: "یہ میرا عزیز مہمان ہے۔" میرے گھر میں موجود کسی کو گرفتار کرنے کا تمہیں کوئی حق نہیں۔ اگر گرفتار ہی کرنا ہے تو مجھے کرلو لیکن میں تمہیں اپنے مہمان کو گرفتار کرنے کی اجازت نہیں دوں گا۔" انہوں نے میرے والد کے سینے پر دونوں ہاتھوں سے دھکا دیا اور وہ کتابوں پر گر پڑے۔

پھر وہ مرحوم حاجی آغا مصطفیٰ کو ساتھ لے جانے لگے۔ میرے والد نے انہیں دوبارہ روکنے کی کوشش کی لیکن سپاہیوں نے انہیں لاتیں ماریں اور وہ سیڑھیوں پر گر گئے۔ میں بھی حاجی آغا مصطفیٰ کے پیچھے بھاگا لیکن انہوں نے بندوق میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا: "اگر تم حرکت کرو گے تو ہم تمہیں گولی مار دیں گے۔" پھر وہ انہیں گھر سے نکال کر ساتھ لے گئے۔

اس کے بعد میں نے نوکرانی سے پوچھا کہ کیا صحن کا دروازہ بند نہیں تھا! وہ صحن میں کیسے داخل ہوئے؟ اس نے کہا: "انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا لیکن ہم نے نہیں کھولا۔ وہ دیوار پھلانگ کر گھر میں داخل ہوئے۔ انہوں نے فوراً مجھ پر بندوق رکھ دی اور پوچھا کہ خمینی کا بیٹا کہاں ہے؟ ہم نے کہا کہ وہ اندر ہیں۔"

حاج آغا مصطفی کو جب لے جایا گیا، تو کچھ دنوں کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ امام کو ترکی کے شہر "بورسا" جلاوطن کر دیا گیا ہے۔ آیت اللہ آغا سید احمد خوانساری سمیت بعض علماء اور مراجع نے امام کا حال احوال دریافت کرنے کے لیے نمائندے ترکی بھیجے اور میرے والد مرحوم نے بھی مجھ سے کہا کہ جا کر ان کا حال معلوم کرو۔ لیکن حکومت ہمارے ترکی کے سفر سے متفق نہیں تھی۔ لیکن تین چار لوگ جو علماء اور بزرگوں کی طرف سے آپ کی خدمت میں پہنچے، میرے والد نے امام کو خطوط لکھے اور میرے والد کو امام کی جانب سے بھیجے گئے جوابات اب بھی ہمارے پاس دستیاب ہیں۔



 
صارفین کی تعداد: 180


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

فاو کے اسپتال کے میل نرس

راوی نے 1989(1368) میں شادی کی اور اس وقت وہ بیرجند میں امام رضا(ع) اسپتال میں ہیڈ نرس تھے. وہ اپنی ریٹائرمنٹ(سن2017 یا 1396) تک بیرجند کے رازی اسپتال میں خدمات انجام دیتے رہے. وہ اس وقت بیرجند یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کے ریٹائرڈ افراد کےمرکز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز(هیئت مدیره کانون بازنشستگان دانشگاه علوم پزشکی بیرجند) کا حصہ ہیں.
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔