جدوجہد کے پیغامات

مترجم: سید مبارک حسنین زیدیvvvvvv

2019-6-26


امام کی پیرس میں موجودگی کے دوران ہم نے وہاں پر موجود فعال دوستوں، خاص طور سے جناب احمد خمینی سے بات کی اور امام خمینی کے پیغامات، پوسٹرز اور اُن کی تقریروں کی کیسٹوں کو سن کر لکھنا اور پھر انہیں چھپوانے کیلئے اپنی آمادگی کا اعلان کیا اور طے پایا کہ وہ لوگ راتوں کو ہمارے گھر کے ٹیلی فون نمبر پر رابطہ کریں گے  اور ہم بھی ٹیپ ریکارڈ تیار رکھ کر پیغامات کو ریکارڈ کریں۔ میں بھی اپنے آفس اور اپنے گھر کے ٹیلی فون سے پیغامات کو حاصل کرتا تھا۔

اُس موقع پر تقریباً بارہ جگہیں موجود تھیں جہاں پوسٹرز اور کیسٹوں کے مطالب کو ٹیلی فون کے ذریعے  حاصل کیا جاتا اور تمام د وستوں کے ساتھ اُسے چیک کرنے  اور ابہامات دور کرنے کے بعد، اُنھیں  تیار کرکے چھاپتے تھے۔ کام کا عملی طریقہ کار کچھ اس طرح سے تھا کہ ہمارے گھر– صادقیہ میں –  میں پیغامات کو ریکارڈ کیا جاتا، اُس کے بعد یہ کام میرے بھائی حاج احمد کے – تھران ویلا میں – گھر چلا جاتا اور وہاں ہم کیسٹوں سے سن کر لکھ لیتے تھے۔ اُس کے بعد ہمارے بہنوئی جناب احمد دستمالچیان کے – شہر آراء میں -  گھر لکھے ہوئے مطالب کی چھپائی ہوتی اور پھر انہیں کالی تھیلیوں کے اندر رکھ کر پیک کر دیا جاتا تھا۔ اس کے بعد ان پیکٹوں کو بازار لے جایا جاتا اور افراد کو دس سے پچاس نسخے تھما دیئے جاتے اور اس طرح یہ پیغامات پورے ایران میں بانٹ دیئے جاتے۔ عام طور سے پیغامات حاصل کرنے سے لیکر اُن کی چھپائی اور اُن کے پیکٹ بنانے تک ۸ سے ۹ گھنٹے کا وقت لگ جاتا تھا۔

میرے خیال سے اہواز، یزد اور شیراز میں مشخص مولوی حضرات کے قریبی اور جان پہچان والے لوگ اور اصفہان میں بھی مرحوم خادمی کے جان پہچانے والے افراد ان پیغامات کو حاصل کرتے  اور تہران میں بھی میں، جناب توکلی بینا اور ایک تیسرے آدمی – کہ جن کا نام اب مجھے یاد نہیں – اس کام کو انجام دیتے تھے۔ ٹیلی فون ایکسچینج میں بھی کچھ افراد ایسے تھے جن میں سے کچھ خواتین  تھیں جو ہماری بہت مدد کرتی تھیں، البتہ میں نے کبھی بھی نہ انھیں دیکھا ہے اور نہ ہی انھیں جانتا ہوں، لیکن پھر بھی انھوں نے بہت ہی خدمات انجام دی ہیں۔ ہمارے پیرس فون کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ جناب احمد خمینی اور کبھی کبھار دوسرے افراد میں سے کوئی، وہاں سے پیغام کو پڑھتے تھے اور وہ مراکز جہاں یہ پیغام بھیجے جاتے تھے وہ سب ایک ساتھ ان پیغامات کو ریکارڈ کرلیتے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ امام کی تقریر ہی ٹیلی فون پر ہوتی کہ جسے ہم ریکارڈ کرلیتے تھے اور کبھی اُس کی کیسٹ کو منتشر کر دیتے تھے۔ اس طریقے سے امام کے پیغامات چوبیس گھنٹے سے بھی کم وقت میں ایک سے دوسرے تک پہنچتے اور اُس کو نشر کرنے میں سب اپنے وظائف انجام دیتے تھے۔



 
صارفین کی تعداد: 2674


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔