وابستگی کی شدت

مترجم: ابو میرآب زیدی

2019-7-22


سن ۱۹۶۵ء کے اوائل میں، میں ایک رات کو اس اصفہان کے علاقے دروازہ دولت کی  مسجد  میں گیا۔ حالانکہ اس مسجد میں بہت زیادہ لوگ آئے ہوئے تھے؛ نماز مغرب حجت الاسلام علی اکبر ہاشمی طال غنچہ کی امامت میں پڑھی۔  اُس کے بعد انھوں نے مجھ سے تقریر کرنے کو کہا۔ مجھے  اُس مجمع میں بیان کرنے کیلئے سب سے بہترین موضوع،  نجاسات کا موضوع لگا۔ میں نے اسلام میں موجود گیارہ نجاسات کی وضاحت پیش کی۔ میں کافر کے موضوع پر رک گیا اور اُس کی وضاحت دی۔ میں نے کافر کے مصادیق کو گننا شروع کیا؛ "کمیونسٹ ۔۔۔ آمریکا ۔۔۔ چونکہ مسلمان نہیں  ہیں، پس نجس ہیں اور اُن سے گفتگو کرنا حرام ہے۔" میں نے کہا: "امریکا کافر ہے، لیکن یہ ملک امریکا کا گھر ہے۔ ایران میں امریکائی بھرے پڑے ہیں۔" آخر میں دعا کروائی اور خداوند متعال سے مطالبہ کیا کہ اس ملک کے والی و وارث، اُس جلا وطن ہونے والے عزیز (امام خمینی) کو  جلد سے جلد وطن واپس لوٹا دے۔ عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد، ایک شخص نے آکر مجھ سے کہا کہ مسجد کے باہر کچھ لوگوں کو آپ سے کام ہے۔  دو پولیس والے مجھے وہاں کے تھانے لے گئے جو مسجد کے قریب تھا اور وہاں سے تھانے کے انچارج کے کمرے میں لے گئے، جس کا نام کیانی تھا۔

اُن نے لوگوں نے میری تقریر کی رپورٹ تیار کی ہوئی تھی جو میز پر رکھی ہوئی تھی۔ اُس نے سر ہلایا اور کہا: "اے مولانا اگر میرے پاس  مکمل اختیار ہوتا تو میں گدی سے تمہاری زبان کھینچ لیتا، امریکا کی توہین کرتے ہو؟! ایسا لگتا ہے کہ تم لوگ اس دنیا میں رہتے ہی نہیں ہو؟ اس ملک کا اصلی والی و وارث امریکا ہے! اگر ہمارا حکیم رہبر ہمیں اجازت دے تو ہم امریکا کو سجدہ کریں! اگر امریکا نہیں ہو تو کمیونسٹ اس ملک پر قبضہ کرلیں۔ اور آپ کے وہ عزیز جلا وطن ہونے والے صاحب بھی اب واپس نہیں پلٹیں گے اور تم اپنی یہ خواہش قبر میں لیکر جاؤ گے! "

خلاصہ یہ کہ اُس نے مجھے جھاڑ پلائی، میں نے بھی اُسے جواب دیئے لیکن جیسا کہ جناب ہاشمی طال غنچہ ای نے سفارش کردی تھی، مجھے آزاد کردیا گیا۔ یہاں سے مجھے پہلوی حکومت کی امریکا سے شدت کی وابستگی کا پتہ چلا۔



 
صارفین کی تعداد: 2677


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔