محمد؛ کردستان کا مسیحا
انتخاب: فاطمہ بہشتی
ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی
2025-12-1
سنندج میں گہماگہمی اور بحرانی صورتحال ہے۔
بروجردی نے فورا درویش سے کہا، "کچھ لوگوں کو تیار کرو تاکہ ہم جا سکیں۔"
پھر وہ مصطفیٰ کے پاس گئے، جو کردستان کے نقشے پر کام کر رہے تھے۔ مصطفیٰ نے اپنی کمر سیدھی کی اور کہا، "جب میں فوج میں خدمات انجام دے رہا تھا، تو میں نے کردستان میں ایک مکمل جنگ کا سامنا کیا تھا۔ کردستان میں گوریلا جنگ – وہ بھی گوریلا جنگ – اس سے نمٹنے کے لئے خاص حساب کتاب ہوتا ہے۔ ضد انقلاب قوتوں کے کمانڈر ہمیں اپنی مرضی کی جنگ میں گھسیٹنا چاہتے ہیں۔"
ہمیں کسی اور طریقے سے داخل ہونا ہوگا۔ یہ جو کردستان کے بارے میں سن رہا ہوں اس میں کہیں نقص موجود ہے۔ ہمیں عوام کے اصل ردعمل کو سمجھنا ہوگا۔
وہ فورا کمرے سے نکل گئے۔ وہ سیمرغ کے اسٹیئرنگ کے پیچھے بیٹھے اور مسلسل ہارن بجا کر انہوں نے جوانوں کو منی بس کی طرف دھکیل دیا جو روانہ ہونے کے لیے تیار تھی۔ جب وہ شہر سے روانہ ہوئے، بروجردی نے سرعت دکھائی۔ مسلسل سبقت لئے جارہے تھے۔ ان کی رفتار ایک سو بیس سے کم نہ تھی۔ درویش دونوں ہاتھوں سے ڈیش بورڈ سے چمٹا ہوا تھا اور سڑک اور ان گاڑیوں کو گھور رہا تھا جنہیں وہ پیچھے چھوڑتے جارہے تھے۔ اچانک، بروجردی کو ایک ٹرالر کے مسلسل ہارن کی آواز نے متوجہ کیا اور وہ سڑک کے دائیں طرف مڑ گئے۔ کج نگاہوں سے درویش کی طرف دیکھا، جس کا چہرہ زرد تھا، اور کہنے لگے، "ڈرو مت، تم عادی ہو جاؤ گے۔"
اس طرح شاید ہم کبھی نہ پہنچ سکیں۔
ہم پہنچ جائیں گے۔ میں جانتا ہوں کہ میں کیا کر رہا ہوں۔
اور پھر خاموشی۔ بروجردی کسی گہری سوچ میں چلے گئے۔ وہ اسی آزادی کے بارے میں سوچ رہے تھے جس کا آیت اللہ طالبانی نے جمعہ کے خطبات میں تجزیہ کیا تھا۔ شاید وہ ایسی جگہ کی تلاش میں تھے جو ولی عصر کیمپ سے زیادہ اہم ہو۔ جب انہوں نے سنندج کا سائن بورڈ دیکھا تو ہوش میں آئے اور ایکسیلریٹر پر سے پاؤں ہٹا لیا۔
دور سے گولیوں کی آواز آ رہی تھی۔ شہر کا ماحول دھوئیں کے ہالے میں ڈوبا ہوا تھا۔ بروجردی نے گولہ باری کی آواز کا پیچھا کیا یہاں تک کہ وہ گورنر اسٹریٹ تک پہنچ گئے۔ وہ چوراہے پر کھڑے ہوئے اور جوانوں کو ہتھیار سمیت اترنے کا حکم دیا۔
- گلی کے دونوں طرف پوزیشنیں لے لیں۔ جب تک میں حکم نہ دوں گولی مت چلانا۔ دیکھتا ہوں کون دوست ہے اور کون دشمن۔"
درویش نے انکی گفتگو کے دوران لقمہ دیتے ہوئے کہا، "کیا تم یہ مسلح ہجوم نہیں دیکھ رہے جو نعرے لگا رہا ہے اور فائرنگ کر رہا ہے؟"
تقریبا 300 لوگ سڑک کے بیچ میں صفیں بنا کر کھڑے تھے، مٹھی بھینچ کر نعرے لگا رہے تھے اور لمبے اور گنے چنے قدموں سے آگے بڑھ رہے تھے۔ بروجردی سڑک کے بیچ میں کھڑے ہر ایک کو گھور رہے تھے۔ انہوں نے ان کے کپڑے، عمر، نعرے لگانے کا انداز، نعروں پر یقین کرنے کی حد، اور یہاں تک کہ چلنے کے انداز کا اندازہ لگاتے ہوئے کہا۔ "ان کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ یہ سب انقلاب مخالف ہوں۔ اس شہر کے لوگوں نے ابھی تک نظام سے کوئی برائی نہیں دیکھی۔ تو ان کا غصہ عمیق نہیں ہو سکتا،" انہوں نے درویش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، "وہ لاؤڈ اسپیکر لے آؤ۔"
اسپیکر کا کیا کرنا ہے؟ ہمیں بندوق برداروں کی ضرورت ہے۔ یہ لوگ ہمیں فائرنگ کر کے چھلنی کرنا چاہتے ہیں۔
فائرنگ کو آخری مرحلے کے لیے چھوڑ دینا چاہیے۔
درویش منی بس میں گیا اور وہی لاؤڈ اسپیکر لے کر واپس آیا جس کی انہوں نے پیش گوئی کی تھی۔ بروجردی سڑک کے بیچوں بیچ سینہ تان کر کھڑے تھے۔ ہجوم کو گھورتے ہوئے غصے نے ان کے پورے وجود کا احاطہ کیا ہوا تھا۔ فائرنگ کی آواز کے درمیان ان کی آواز لاؤڈ اسپیکر پر گونجنے لگی۔ "میں تم سے چند الفاظ کہنا چاہتا ہوں۔ بس چند منٹ کے لیے نعرے لگانا بند کرو۔"
ایک ضد انقلابی، جو سفید رومال اور امریکی اوور کوٹ پہنے ہوئے تھا، نے اپنی کلاشنکوف ہوا میں لہراتے ہوئے چلا کر کہا: "کرائے کے سپاہی، دفع ہو جاؤ۔ اپنی شکل غائب کرو یہاں سے۔"
بروجردی نے چند قدم آگے بڑھائے اور وہی الفاظ دوبارہ دہرائے۔ اچانک، ایک شخص نے ہاتھ اٹھایا اور اپنے لوگوں سے کہا: "خاموش، خاموش۔ اسے اپنی بات کہنے دیں۔ شاید اس کے پاس کچھ کہنا ہے۔"
فائرنگ کی آواز رک گئی۔ اب بروجردی کی آواز سڑک کے آخری کونے تک جارہی تھی: "طاغوت کا ہدف واضح تھا اور ہم سب نے اسے نکال دیا اور اس کی ناک مٹی میں رگڑدی۔ امام نے ہماری قوم کو جگایا تاکہ فتح ہماری ہو۔ "اب وقت ہے کہ علاقے کو محفوظ بنایا جائے تاکہ ناکامیوں کا ازالہ کیا جا سکے۔"
اچانک، وہی نوجوان جس کے چہرے پر سفید کپڑا بندھا ہوا تھا، ہاتھ اٹھا کر چلانے لگا، "کرائے کے سپاہی، دفع ہو جاؤ، کرائے کے سپاہی، دفع ہو جاؤ۔"
اس بار، سب نے جواب نہیں دیا۔ بروجردی نے مسکراتے ہوئے لیکن پرسکون اور احترام کے ساتھ کہا: "میں جانتا ہوں کہ آپ مسلمان اور مذہبی ہیں۔ آپ کا یہ اقدام نظام کے اصول کی مخالفت سمجھا جاتا ہے، جبکہ آپ میں سے بہت سے لوگ اس پر یقین نہیں رکھتے۔"
بروجردی خاموش ہوگئے۔ مظاہرین ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔
اب، جو لوگ میرے الفاظ پر یقین رکھتے ہیں وہ نظام اور اسلام کی خاطر اس ہجوم کو ترک کردیں۔
دوبارہ پوری سڑک میں خاموشی چھا گئی۔ آہستہ آہستہ گھروں کے دروازے کھلنے لگے اور لوگ گھروں سے باہر نکلنا شروع ہوگئے۔ کچھ لوگ چھت سے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ آدھے مظاہرین جتھے سے الگ ہو کر چلے گئے۔ آہستہ آہستہ، بروجردی کا لہجہ سنجیدہ ہو گیا اور انہوں نے کہا، "اور آپ لوگ! آپ کے سلسلے میں ہماری کیا ذمہ داری ہے؟ ہم چاہتے ہیں کہ سنندج کے لوگ تحفظ کے ساتھ رہیں، ایک حق جو آپ نے ان سے چھین لیا ہے۔ چھتوں پر نظر ڈالیں اور عورتوں اور بچوں کے مظلوم چہروں پر توجہ کریں۔ جو لوگ امنیت اور نظام کے حامی ہیں انہیں اس گروپ کو چھوڑ کر زندگی گزارنے کی طرف جانا چاہیے۔"
تقریبا ستر لوگ جتھے سے الگ ہو کر اپنے اپنے راستے چلے گئے، جیسے بٹالین کی قطاریں ہوں اور ان کے نام کمانڈر نے بعض کے نام پکارے ہوں۔ اب بروجردی 70 یا 80 لوگوں کے سامنے کھڑے تھے جن کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ وہ تھوڑے بدتمیز تھے اور انہیں مختلف طریقے سے سمجھانا تھا۔ انہوں نے اپنی آواز بلند کی اور کہا، "آپ کی اس جتھے میں موجودگی کا مطلب ہے کہ آپ نظام کے خلاف کھلی جدوجہد کر رہے ہیں۔ تو آپ سے ہمیں لڑنا ہوگا۔ اب جو لوگ ہمارے خلاف لڑنا نہیں چاہتے انہیں پیچھے ہٹ جانا چاہیے۔ ہم اب تک آپ لوگوں کو مورد الزام نہیں ٹہرا رہے۔"
دوبارہ، کچھ لوگ جتھے سے باہر نکل گئے۔ اب ایسے لوگ بچ گئے تھے جن میں سے اکثر مسلح تھے اور زیادہ جوش و خروش سے نعرے لگا رہے تھے۔ جیسے ہی درویش نے کمپنی کو آگے بلایا، بروجردی نے کہا، "مارو، لیکن صرف گھٹنے کے نیچے۔ ان کے دلوں میں خوف پیدا کرو تاکہ وہ فرار کرجائیں اور پھر جلد پلٹ کر شہر میں داخل نہ ہوں۔"
جتھےکے سامنے کھڑے لوگ پہلے حملے پر حیران رہ گئے، اس لیے وہ فورا بھاگ اٹھے۔ سڑک پرسکون ہو گئی اور لوگوں نے دکانوں کے شٹر اٹھا کر سکون کا سانس لیا۔
اگلے دن، تہران کو ان لوگوں کی جانب سے کئی رپورٹس بھیجی گئیں جو بروجردی کے رویے کو بدگمانی سے دیکھ رہے تھے۔ "بروجردی نے سنندج کے لوگوں کو سڑکوں پر مار ڈالا۔"
جب بروجردی تہران واپس آئے تو انہوں نے اپنے دفاع میں کوئی تحریری جواب نہیں لکھا، حتیٰ جب سپاہ کے کوآرڈینیشن آفس میں سوالات پوچھے گئے تو انہوں نے بہت پرسکون انداز میں رپورٹ پیش کی اور ان پریشان چہروں کو پرسکون کیا۔ ان افراد کے ہجوم میں، انہوں نے داؤود کریمی کا چہرہ بغور دیکھا۔ دونوں نے چند لمحے ایک دوسرے کو دیکھا۔ "بروجردی سازمان مجاہدین انقلاب میں کیا کر رہا ہے؟ یہ لوگ سازمان منافقین سے کم نہیں ہیں۔ وہ ان بہادرانہ رویوں سے حکام کی توجہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ بروجردی، ایک ایسا شخص جسے اس سے دور رہنا چاہیے۔"
بروجردی اپنے پرانے دوست کی نیت کو سمجھے بغیر وہاں سے نکل آئے۔ انہوں نے نہیں سوچا تھا کہ کردستان کے اس مختصر مشن کی وجہ سے وہ کوئی اور کام نکلوائیں گے۔ انہیں ایک مشن پر جانا تھا جسے وہ سمجھ نہیں پا رہے ہوں۔ انہوں نے اپنا سامان باندھا اور ولی العصر چھاؤنی کو اطلاع دیے بغیر سیستان چلے گئے۔ [1]
[1] محمودزاده، نصرتالله، محمد؛ مسیح کردستان، تهران، روایت فتح، چ هشتم، 1402، ص 162.
صارفین کی تعداد: 15
گذشتہ مطالب
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
محمد؛ کردستان کا مسیحا
جتھےکے سامنے کھڑے لوگ پہلے حملے پر حیران رہ گئے، اس لیے وہ فورا بھاگ اٹھے۔ سڑک پرسکون ہو گئی اور لوگوں نے دکانوں کے شٹر اٹھا کر سکون کا سانس لیا۔"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔
