عبدالحمید رؤفی نژاد کی یادداشت
حسن باقری کے شناسائی کے گروہ کی رہنمائی
انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی
2025-12-10
فتحالمبین آپریشن سے تقریباً تین ماہ قبل، حسن باقری نے اہواز میں منعقدہ ایک گلف اجلاس میں مجھ سے کہا کہ دو افراد ہیڈکوارٹر سے آئیں گے اور دشتِ عباس کے عمومی علاقے کی کلی شناسائی کریں گے۔ انہوں نے تاکید کی کہ یہ ٹیم براہِ راست ان کی نگرانی میں کام کرے گی اور میری ذمہ داری صرف ان کی رہنمائی کرنا ہوگی۔
حسن داناییفر اور مهدی زینالدین، جو حسن باقری کے زیرِ نظر کام کرتے تھے، اس ٹیم میں شامل تھے۔ زینالدین کو میں ہفتہ وار اجلاسوں میں دیکھ چکا تھا اور ان سے عمومی آشنائی تھی، لیکن داناییفر کو کم دیکھا تھا۔ یہ دونوں افراد اطلاعاتی ٹیم کے رکن تھے اور ایک محور کی شناسائی کے ذمہ دار تھے جو براہِ راست گلف کے زیرِ نظر تھا۔
یہ ٹیم ایک وائرلیس رابطہ چاہتی تھی تاکہ ہم سے مسلسل رابطے میں رہ سکے۔ کچھ سامان اور راشن بھی طلب کیا۔ ان کا پڑاؤ کا مرکز دالپری کی بلندیوں پر تھا۔ وہ ایسی جگہ چاہتے تھے جہاں سے دشت عباس سے لے کر عینخوش تک عراقی نقل و حرکت پر نظر رکھ سکیں۔ انہوں نے تیشهکن کی بلندیوں کو منتخب کیا۔ ایک جیپ اور ایک ہفتے کا خشک راشن بھی انہیں دیا گیا۔ وہ ہفتہ وار نہانے اور رپورٹ دینے کے لیے گلف ہیڈکوارٹر واپس آتے تھے۔
اس محور کی سڑک بہت خراب تھی۔ ایک دن میں سپاہ دزفول کے احاطے میں تھا کہ مهدی زینالدین جیپ کے ساتھ آئے اور کچھ بوریوں کا تقاضا کیا۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ بوریوں کی کیا ضرورت ہے، کیونکہ مورچے کے لیے تو علاقے کی قدرتی حالت استعمال کی جاتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ جیپ کو وزنی بنانے کے لیے بوریوں کی ضرورت ہے تاکہ سڑک پر جم کر چل سکے۔ بیچارے شدید کمر درد میں مبتلا ہو گئے تھے۔ اس طرح گاڑی کچھ بھاری ہو جاتی اور کم اذیت دیتی۔
علاقے کی کلیت پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی اطلاعات مغربِ دزفول سے حاصل ہوئیں۔
ایک موقع پر خود حسن باقری نے جسر نادری محاذ کا دورہ کیا۔ مجھے یاد ہے کہ آخری مورچے سے، جو عراقیوں کی سمت تھا، انہوں نے دیکھا کہ هندلی خندق واحد زمینی عارضہ ہے اور عراقی اس کے پیچھے مستقر ہیں۔ انہوں نے کہا: "اگر ہم یہ علاقہ آپریشن سے پہلے لے سکیں تو اس کا آپریشن کے نتائج پر بڑا اثر ہوگا۔" انہوں نے دشت عباس کا بھی دورہ کیا اور ہم "جسر شجاع" بھی گئے۔ شجاع گاؤں میں ایک مرکزِ صحت یا مدرسہ تھا جسے ہم نے عقبه کے طور پر استعمال کیا۔ ہم تقریباً دوپہر سے پہلے وہاں پہنچے اور مختصر آرام کیا۔ دزفول سے وہاں تک جیپ پر گئے اور پھر راستے سے آشنا جوانوں کے ساتھ موٹر سائیکل پر آگے بڑھے۔
حسن باقری نے جنگ کے ہنگاموں میں بھی اپنی فطری اور ہنری ذوق کو محفوظ رکھا تھا۔ شجاع گاؤں کی عمارت میں ایک کمرہ تدارکات کے لیے تھا۔ جب ہم موٹر سائیکل پر سوار ہونے لگے تو دیکھا کہ وہ دوبارہ کمرے میں گئے۔ میں انتظار کرتا رہا لیکن وہ نہیں آئے۔ واپس گیا تو دیکھا کہ ایک ایمونیشن کے صندوق پر کھڑے ہیں، اور کیمرہ نکال کر تصویر لے رہے ہیں۔ کمرے کی چھت میں چڑیوں نے گھونسلے بنا رکھے تھے اور حسن مختلف زاویوں سے ان کی تصویریں لے رہے تھے۔ وہاں مجھے حسن باقری کا ہنری ذوق سمجھ آیا۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے خود پوچھا: " رئوفینژاد صاحب، وہ تصویریں جو میں نے لی تھیں، اخبار میں دیکھیں؟" میں نے نہیں دیکھیں تھیں، لیکن گویا وہ ایک اخبار (شاید جمهوری اسلامی) میں شائع ہوئی تھیں۔
حاشیہ
[1] حسن داناییفر: سن 1962 میں شوشتر میں پیدا ہوئے۔ وہ حسن باقری کی اطلاعاتی ٹیم کے رکن تھے۔ کچھ عرصہ ولیعصر(عج) ساتویں بریگیڈ میں محور دزفول پر رہے۔ عملیات فتحالمبین میں قدس ہیڈکوارٹر کے اطلاعات کے مسئول تھے۔ 1982 میں فوج کے دافوس کورس میں شرکت کی۔ بعد ازاں نصر ہیڈکوارٹر کے منصوبہ و عملیات کے انچارج رہے۔ خاتمالانبیا(ص) ہیڈکوارٹر کے منصوبہ و عملیات یونٹ کے بھی انچارج رہے۔ رمضان آپریشن میں حسن باقری کے ساتھ تھے اور بدر، خیبر اور والفجر 8 میں مؤثر کردار ادا کیا۔ 1986 میں کربلا ہیڈکوارٹر کے ڈپٹی انچارج بنے۔ بعد میں ولیعصر(عج) ڈویژن کے سربراہ، سپاه بحریه کے ڈپٹی کمانڈر اور خاتمالانبیا(ص) تعمیراتی ہیڈکوارٹر کے سربراہ رہے۔ کچھ عرصہ عراق میں ایران کے سفیر بھی رہے۔
صارفین کی تعداد: 19
گذشتہ مطالب
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
حسن باقری کے شناسائی کے گروہ کی رہنمائی
حسن باقری نے جنگ کے ہنگاموں میں بھی اپنی فطری اور ہنری ذوق کو محفوظ رکھا تھا۔ شجاع گاؤں کی عمارت میں ایک کمرہ تدارکات کے لیے تھا۔ جب ہم موٹر سائیکل پر سوار ہونے لگے تو دیکھا کہ وہ دوبارہ کمرے میں گئے۔ میں انتظار کرتا رہا لیکن وہ نہیں آئے"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح
دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔
