شهید سید محمدعلی ‌جہاں آرا کی اہلیہ کی یادیں

انتخاب: فریبا الماسی
ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی

2025-12-16


محمد نے فون کیا اور ہم نے رسمی عقد کی تاریخ پر بات کی۔ طے پایا کہ ۹ شهریور، جو اس کی سالگرہ کا دن بھی تھا، ہمارے گھر میں ایک سادہ عقد کی تقریب منعقد کریں۔ یہ حسن اتفاق تھا، کوئی منصوبہ بندی نہیں۔ عقد کے دن صبح محمد آیا۔ پھل وہ لے آیا اور مٹھائی میں نے ایک دن پہلے خرید لی تھی۔ اس دن اس نے سفید قمیص پہنی جو نئی بھی نہیں تھی۔ بعد میں خود کہا: "میرے پاس اپنی قمیص نہیں تھی، یہ قمیض بھی میرے ماموں کی تھی۔" شلوار بھی ماموں کی تھی۔ کوٹ نہیں پہنا تھا۔ قمیض پینٹ پر پہنی ہوئی تھی۔ محمد زیادہ تر کاٹن پہنتا تھا اور اس کے پاس جوتے نہیں تھے۔ اس دن وہ سید اسماعیل بازار، تہران سے ایک جوڑا سیاہ جوتے خرید کر لایا۔ نائی کے پاس بھی نہیں گیا۔ میں خود اکیلی گئی تھی، لیکن عقد کے لیے نہیں بلکہ تھوڑے بال درست کرنے کے لیے۔ اتفاقاً اتنی بھیڑ تھی کہ بال کاٹنے کا موقع نہیں ملا۔ صرف بال سکھا لیے، چہرے پر کوئی آرائش نہیں کی۔ میرا خیال تھا کہ اس کی ضرورت نہیں۔ محمد کے لیے بھی یہ اہم نہیں تھا۔

عقد کے لیے محمد کی والدہ، دو بہنیں، دو خالائیں اور خرمشہر سے کچھ رشتہ دار آئے۔ اس کے بھائیوں میں سے کوئی نہیں آیا۔ والد بھی نہیں آئے۔ میں نے سات آٹھ دوستوں کو دعوت دی۔ میری والدہ اور بہنیں موجود تھیں۔ میرے بڑے بھائی اکبر نہیں آئے، لیکن چھوٹا بھائی حسین، آگیا تھا۔

ہمارا گھر 145 مربع میٹر اور ڈبل اسٹوری تھا۔ مرد اوپر چلے گئے اور عورتیں نیچے تھیں۔ محمد کے گھر والوں نے ایک دھات کی ٹرے اٹھائی اور رسم کے مطابق گانے اور اشعار پڑھنے لگے۔ میں ناراض ہوئی۔ محمد کو اوپر سے بلا کر کہا: "انہیں کچھ کہو، یہ مناسب نہیں!" اس نے کہا: "عالیہ سے کہو۔" میں نے کہا: "عالیہ خود اس میں شریک ہے۔" اس نے کہا: "پھر بھی تم اسے کہو۔" میں نے عالیہ کو کہا اور اس نے معاملہ ختم کر دیا۔

عاقد، آقای "مهدی‌پور" تھے، جو میرے یونیورسٹی کے ایک ہم جماعت کے والد تھے۔ میں نے تو انہیں دعوت نہیں دی تھی۔ محمد کے خالو، آقای زمانی نے انہیں بلایا تھا۔ وہ مهدی‌پور کے داماد کے دوست تھے اسی وجہ سے انہیں لائے تھے۔ میں نے انہیں پہلی بار عقد میں پہچانا۔ میرا ہم جماعت بھی اپنے والد کے ذریعے میری شادی سے باخبر ہوا۔ عاقد اوپر مردوں کے ساتھ تھے اور میں نیچے۔

عقد سے پہلے، آقای بصیرزاده نے، محمد کی چچا زاد بہن کے شوہر، جن کی قرائت اچھی تھی، قرآن پڑھا۔ جب خطبہ پڑھا گیا تو میرا بھائی نیچے آیا اور کہا: "مجھ سے پوچھا گیا ہے، کیا میں تمہارا وکیل ہوں؟" میں نے کہا: "ہاں۔" وہ اوپر گیا۔ جب مردوں کی صلوات کی آواز بلند ہوئی، تو سمجھ گئی کہ عقد ہو گیا۔

محمد نے میرے لیے پانچ سو تومان (پانچ ہزار ریال) کی ایک پلاٹین کی انگوٹھی خریدی۔ خود کوئی انگوٹھی نہیں لی۔ انگوٹھی میرے پاس تھی۔ "طاہره طالقانی"، آیت‌الله طالقانی کی بیٹی، جو میری مہمان تھیں، انہوں نے مجھے انگوٹھی پہنائی۔ جب عقد پڑھا گیا، میں نے خود انگوٹھی پہننا چاہی، لیکن دوستوں نے کہا: "طاہره خانم سیدہ ہیں، انہیں ہی پہنانے دو۔" محمد کے گھر والوں نے کوئی تحفہ نہیں دیا۔

یہ محفل دو گھنٹے چلی۔ مہمان آہستہ آہستہ رخصت ہوئے۔ محمد رکا۔ طے ہوا کہ باہر گھومنے جائیں۔ نکلنے سے پہلے اس نے مجھے ایک لفافہ دیا۔ میری ایک بہن، جو استاد تھی، اس نے مجھے ایک جوڑا کپڑے کا تحفہ دیا۔ میں نے شکریہ ادا کیا اور محمد کے ساتھ گھر سے نکلی۔ گاڑی میں لفافہ کھولا۔ پانچ ہزار تومان تھے۔ محمد ہنسا اور مذاق میں کہا: "ہمارے ایک مہینے کا خرچ نکل آیا۔" میں نے کہا: "میں یہ پیسہ نہیں لوں گی، واپس کرنا چاہتی ہوں۔" محمد نے کہا: "جیسا تم چاہو۔" وجہ یہ تھی کہ وہ شرعی وجوہات ادا نہیں کرتا تھا اور آمدنی میں کوئی پرہیز نہیں کرتا تھا۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ اس کا پیسہ اپنی نئی زندگی میں لاؤں۔ گھر آ کر لفافہ ماں کو دیا اور کہا: "میں نے اور محمد نے طے کیا ہے کہ کسی سے تحفہ نہیں لیں گے۔" اگلے دن ایک دوست آئی، میں نے بہن کا تحفہ بھی اسے دے دیا کیونکہ وہ بھی خمس نہیں دیتی تھی۔

اس دن ہم تجریش گئے۔ یاد ہے محمد نے ایک کباب کی دکان سے چند سیخ کباب خریدے اور گاڑی میں لایا، وہی ہمارا کھانا تھا۔ رات بارہ بجے کے قریب مجھے گھر چھوڑا اور خود چلا گیا۔

اگلے دن، میں محمد کے ساتھ عالیہ کے گھر گئی۔ صدیقه، محمد کی دوسری خالہ بھی وہاں تھیں۔ مجھے یاد ہے اس دن انہوں نے محمد سے کہا تھا: "محمد! خیال رکھنا، کوئی تمہیں ہم سے جدا نہیں کر سکتا۔" محمد خاموش رہا۔ لیکن میں دلگیر ہوئی۔ باہر آ کر محمد سے کہا: "تمہاری خالہ نے ایسا کیوں کہا؟ ان کی مراد میں تھی۔" محمد نے کہا: "زیادہ سنجیدہ نہ لو، یہ لوگ مجھ سے خاص محبت رکھتے ہیں، اسی وجہ سے کہا۔" یہ بات ایک بار محمد کی چچا زاد بہن کے گھر بھی ہوئی۔ اس نے کہا: "ہم پہلے تم سے زیادہ مل لیا کرتے تھے، لیکن شادی کے بعد ملاقات بھی نہیں ہوتی۔" اس بار محمد نے جواب دیا: "بھئی، جب میری بیوی ہی مجھ سے نہیں مل پاتی تو دوسرے لوگ کیسے ملیں گے!"



 
صارفین کی تعداد: 25


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

شهید سید محمدعلی ‌جہاں آرا کی اہلیہ کی یادیں

یہ بات ایک بار محمد کی چچا زاد بہن کے گھر بھی ہوئی۔ اس نے کہا: "ہم پہلے تم سے زیادہ مل لیا کرتے تھے، لیکن شادی کے بعد ملاقات بھی نہیں ہوتی۔" اس بار محمد نے جواب دیا: "بھئی، جب میری بیوی ہی مجھ سے نہیں مل پاتی تو دوسرے لوگ کیسے ملیں گے!"
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔