فضائیہ کے ایک پائلٹ کی یادداشت

فائزہ ساسانی خواہ

2025-12-25


میں اپنے دفتر میں ہلکی سی اونگھ لے رہا تھا کہ اچانک دروازہ کھلا اور ایک سپاہی اندر داخل ہوا۔ میں فوراً کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا اور کپڑے درست کر کے خبر سننے کے لیے تیار ہو گیا۔ سپاہی نے سیلوٹ کیا اور کہا:

"جناب کیپٹن، کمانڈ میں آپ کو بلا رہے ہیں۔"

یہ کہہ کر اس نے دوبارہ سیلوٹ اور کمرے سے باہر نکل گیا۔

سپاہی کے جانے کے بعد میں نے ہاتھ سے اپنے بال درست کیے، فائل بغل میں دبائی اور کمرے سے باہر نکل آیا۔

جب کمانڈ کے دفتر میں داخل ہوا تو میری نظر میجر صاحب پر پڑی۔ وہ مسکراتے ہوئے میز کے پیچھے بیٹھے تھے۔ میرے داخل ہوتے ہی فون بجنے لگا اور میجر صاحب نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کی دعوت دی اور خود فون پر بات کرنے لگے۔

مجھے حیرت تھی کہ میجر صاحب نے مجھے کیوں طلب کیا ہے۔ یقیناً کوئی اہم واقعہ پیش آیا ہوگا، ورنہ...

میں سوچ ہی رہا تھا کہ میجر صاحب کی آواز نے مجھے چونکا دیا:

"اچھا، لگتا ہے کہ خوب سوئے ہو!"

میں سیدھا اور مؤدب ہو کر بیٹھ گیا اور کہا: "نیند نہیں، بس ایک چھوٹی سی جھپکی لی تھی۔"

میجر صاحب نے نرم لہجے میں پوچھا: "وقت کیا ہوا ہے؟"

میں نے گھڑی دیکھی۔ سہ پہر کے تین بجے تھے اور لگتا تھا کہ تمام عملہ جا چکا ہے۔ اس وقت تک سونے پر مجھے تعجب ہوا۔ میں نے شرمندگی سے میجر صاحب کی طرف دیکھا اور عذر پیش کرنا چاہا مگر انہوں نے دلسوزی سے کہا:

"جانتا ہوں کہ صبح سے کام میں مصروف رہے ہو۔ ایک جھپکی تمہارے لیے ضروری تھی۔ اب تازہ دم ہو کر ایک ہیلی کاپٹر لے کر علاقے میں جاؤ۔ جوانوں کو سامان کی ضرورت ہے۔"

میں نے حیرت سے پوچھا: "میجر صاحب، کیا جنگ ختم نہیں ہوئی؟!"

میجر صاحب نے افسوس سے سر ہلایا اور کہا:

"نہیں رضا صاحب! ہمارے طرف سے معاہدہ قبول کرنے کے باوجود عراق نے کئی محاذوں سے شدید حملہ شروع کر دیا ہے اور بعض مقامات پر ہماری سرزمین میں بھی داخل ہو گیا ہے۔"

وہ کچھ لمحے رکے اور پھر بولے:

"اسی لیے علاقے میں مزید مدد کی ضرورت ہے۔ تمہیں ایلام جانا ہوگا اور صالح آباد کے محاذ پر جوانوں کے ساتھ شامل ہونا ہوگا۔"

میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔ سلامی دے کر، حیرت زدہ حالت میں دفتر سے نکل آیا اور اپنے کمرے میں واپس گیا۔

کمرے میں پہنچتے ہی سب سے پہلے "علی" کو فون کیا، جو بیس کے پائلٹوں میں سے ایک تھا، اور اسے فوراً آنے کو کہا۔

علی توقع سے بھی جلدی پہنچ گیا۔ وہ بھی اس اچانک طلبی پر حیران تھا اور وضاحت چاہتا تھا۔ مجبوراً میں نے ہیلی کاپٹر کی طرف جاتے ہوئے مختصر طور پر اسے ماجرا بتایا۔

انجن اسٹارٹ کرنے کے بعد ہیلی کاپٹر آسمان کی بلندیوں پر پرواز کرنے لگا۔ دورانِ پرواز میرا سارا دھیان بعثیوں کی نامردی پر تھا۔ جتنا سوچتا، غصہ اور نفرت بڑھتی جاتی۔ دانت بھینچتے ہوئے راکٹ لانچر کی طرف دیکھا اور زیر لب کہا:

"آج ان نامردوں کا کام تمام کرنا ہے۔ خدا کرے یہ صحیح کام کریں۔"

علی جو سامنے بیٹھا ریڈیو سے کھیل رہا تھا، بولا: "رضا، کس سے بات کر رہے ہو؟ پاگل ہو گئے ہو؟"

میں نے کہا: "ان لعنتیوں کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ ہم نے معاہدہ قبول کر لیا ہے، پھر بھی یہ نامرد بعثی باز نہیں آتے۔ اس بار ان کا قلع قمع کر دوں گا۔"

ہیلی کاپٹر کے سامنے چند پرندے تیزی سے گزر گئے، مگر میں بے پرواہ ہو کر عراقی ٹھکانوں پر حملے کے خیال میں ڈوبا رہا۔ نیچے دیکھا تو گاؤں والے اپنے کاموں میں مصروف تھے اور بچے کھیل چھوڑ کر ہمیں ہاتھ ہلا رہے تھے۔ یہ سب مناظر مجھے مزید پُرعزم کر رہے تھے کہ بعثیوں کے خلاف سخت کارروائی کروں۔

آسمان صاف تھا، صرف ہیلی کاپٹر کے پروں کی ایک جیسی آواز سکوت کو توڑ رہی تھی۔ علی خاموشی میں اپنے خیالات میں گم تھا۔

ہم آہستہ آہستہ محاذ کے قریب پہنچ رہے تھے۔ پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق کئی ہیلی کاپٹر اس کارروائی میں شامل ہونے والے تھے۔

علاقے کی فضا آگ اور دھوئیں سے بھری ہوئی تھی۔ ہمارے ساتھ بسیج رضاکار فورس، فوج اور سپاہ کے جوان بھی دشمن پر غضبناک حملے کر رہے تھے۔

پہلے ہی حملے میں ہم نے کئی ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں تباہ کر دیں۔ اگلے حملوں میں ان کے لیے علاقہ جہنم بن گیا۔

بعثیوں کی توپوں کے گولے ہیلی کاپٹر کے اطراف سے گزر رہے تھے، مگر میں مسلسل پرواز کرتے ہوئے ان پر آگ برسا رہا تھا۔

عراقی فوج اس اچانک اور بے باک حملے سے بوکھلا گئی اور ابتدائی لمحوں میں ہی پسپا ہو گئی۔ یہی وہ موقع تھا کہ ہمارے جوان گروہ در گروہ انہیں گرفتار کر لیں۔

کارروائی بالکل ویسی ہی کامیاب رہی جیسی میں چاہتا تھا اور ہم بخیریت واپس بیس پہنچ گئے۔

رات کو ہم سب مل بیٹھے اور کامیابیوں پر گفتگو کی۔ سب خوش تھے۔

اگلے دن کمانڈ کی طرف سے نیا حکم آیا کہ ایک ہیلی کاپٹر جو فنی خرابی کے باعث جنگی مشن کے قابل نہیں رہا، اسے باختران واپس لے جایا جائے۔ اس لیے میں اور علی دوبارہ اس خراب ہیلی کاپٹر پر سوار ہوئے اور باختران کی طرف پرواز کی۔ راستے میں پھر گاؤں والوں کو کام کرتے اور بچوں کو کھیلتے دیکھا۔ دل چاہا کہ ہیلی کاپٹر سے سر باہر نکال کر چیخ کر کہوں:

"اطمینان رکھو کہ فضائیہ کے عقابوں نے بعثی مزدوروں کو روک دیا ہے اور انہیں ایسا سبق دیا ہے جو کبھی نہیں بھولیں گے۔"

بیس پہنچ کر کمانڈ کے دفتر گیا۔ وہ نتیجے سے خوش تھے اور ہمیں گھر جا کر آرام کرنے کی اجازت دی۔ میں نے علی سے خداحافظی کی اور گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔



 
صارفین کی تعداد: 26


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

فضائیہ کے ایک پائلٹ کی یادداشت

ہیلی کاپٹر کے سامنے چند پرندے تیزی سے گزر گئے، مگر میں بے پرواہ ہو کر عراقی ٹھکانوں پر حملے کے خیال میں ڈوبا رہا۔ نیچے دیکھا تو گاؤں والے اپنے کاموں میں مصروف تھے اور بچے کھیل چھوڑ کر ہمیں ہاتھ ہلا رہے تھے۔ یہ سب مناظر مجھے مزید پُرعزم کر رہے تھے کہ بعثیوں کے خلاف سخت کارروائی کروں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔