آیت‌الله عبدالله محمدی کی یادداشتیں

خرم شہر کے پولیس اسٹیشن پر قبضہ

سلام علیک اور خیریت وغیرہ پوچھنے کے بعد مجھ سے اس طرح مخاطب ہوئے : جناب محمدی! پولیس اسٹیشن آپ کے اور دوسرے علماء کے اختیار میں ہے۔ ہم بھی آپ کے تابعدار ہیں۔ میں نے کہا ، "ٹھیک ہے ، میں پولیس اسٹیشن آرہا ہوں۔"

حکومت کے بائیکاٹ کے لئے دعائے توسل کا اہتمام

کچھ راتوں کے بعد دوبارہ آئے اور ہمارے بیٹھنے کی جگہ پر پانی گرادیا تاکہ کوئی نہ بیٹھ سکے اس کے باوجود بھی ہم کسی اور جگہ کا انتخاب کرتے جو خشک ہوتی وہاں بیٹھ جاتے۔ اس طرح اس دعا کا انعقاد حکومت کے خلاف ایک حربہ ثابت ہوا

مسجد گوہر شاد میں ہونے والا دوسرا حادثہ

قم میں آیت اللہ گلپایگانی، مشہد میں آیت اللہ شیرازی نے کل عوامی سوگ کا اعلان کیا ہے اور یہ ممکن ہے کہ دوسرے شہروں میں اس کے اثرات مرتب ہوں، اطلاعات کے مطابق آیت اللہ شریعت مداری اور قم کے باقی علماء نے ایک بیان جاری کرکے اس واقعہ کی شدید مذمت کی ہے

امام خمینی ؒ کی تقریر کو ریکارڈ کرکے منتشر کرنے کا طریقه

سن ۱۹۶۳  اور ۱۹۶۴ میں میرے اہم ترین کاموں میں سے ایک، امام خمینی ؒ کے خطابات اور جلسات میں شرکت کرنا تھا۔ بنیادی طور پر ہم قم میں پیش آنے والے ہر حادثے سے مطلع ہوجاتے تھے اور کوشش کرتے کہ قم جائیں اور پیش آنے والے حادثات کے بارے میں معلومات حاصل کریں اور تحریک کے آغاز سے ہی همارا طریقہ کار تھا۔ قم میں امام خمینی ؒکے خطابات کو ریکارڈ کرنا اور ریکارڈ شدہ کیسٹوں  کو تہران منتقل کرنا میرے ذمہ دار یوں میں سے ایک تھا۔ اور یہی وجہ تھی کہ میں ہمیشہ امام خمینی ؒ...

سفید انقلاب کے خلاف احتجاج میں آیہ اللہ بھبھانی کے گھر پناہ لینا

جب امام خمینی کی طرف سے سفید انقلاب نامی ریفرنڈم کے بائیکاٹ کا اعلان ہوا تو علماء اور مراجع نے بھی اس کا مقابلہ شروع کیا اور لوگوں کو اعلانات اور انقلابی بیانات کے ذریعے اس ریفرنڈم میں شرکت سے منع کرنے لگے

حادثہ فیضیہ کی یاد میں ہونے والی مجلس

۲۵ شوال والے دن، شہداء مدرسہ فیضیہ کی یاد منانے والا چوتھا سال تھا۔ جیسا کہ میں خود اُس دن کا مشاہدہ کرچکا تھا میرا دل ٹوٹا ہوا تھا۔ اُس سے پہلے تین سالوں میں شہداء کی یاد میں مجالس منعقد ہوئی تھیں؛ لیکن چوتھے سال شام چار بجے تک اس کام کی اجازت نہیں دی گئی اور ساواک اور پولیس کے افراد، مدرسہ کو مکمل طور پر کنٹرول کر رہے تھے۔ لیکن اس کے بعد، چوتھی مجلس کا پروگرام بہت ہی شاندار انداز میں منعقد ہوا۔

ایران کے عام لوگوں کے ذہن میں شاہ کی تصویر

ایک دن صبح کے وقت بی بی جان ہانپتے ہوئے بالائی منزل سے سیڑھیاں اترتی ہوئی نیچے آئیں اور اُونو صاحب سے اپنے خواب کو بیان کرنے لگیں جو انہوں نے صبح کے نزدیک دیکھا تھا۔ اس خواب میں بی بی جان نے "اعلی حضرت شہنشاہ" سے ملاقات کی اور ان سے مکالمے کا شرف حاصل کیا۔

وہ چیف ایڈیٹر جو استاد تھے

میں خود سے پوچھتا ہوں اگر جناب گوردزیانی ہوتے، کیا وہ لکھتے؟ اگر وہ اس وقت ہوتے اور میں اُن سے لکھنے کی اجازت لیتا، وہ ہونٹوں پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہتے جیسے تمہاری مرضی؟ میں نے اتنا سوچا کہ مجھے آیا وہ خود بھی لوگوں کے لئے لکھتے تھے۔ لیکن اُن کی تحریر کہاں اور میری کہاں!

سٹی پولیس کی عارضی جیل کے واقعات

مجھے اس جیل میں بزرگوں سے علمی، سیاسی، معاشرتی اور خصوصاً مذہبی بحثوں سے بہت سے روحانی فائدے حاصل ہوئے۔ روزانہ، ہم ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کے علاوه، کبھی کبھی سات آٹھ لوگ مل کر کسی علمی- اخلاقی موضوع پر بحث کیا کرتے تھے

قذافی، قابل بھروسہ نہیں!

پیرس میں، اسی چھوٹے سے کمرے میں جہاں امام کی رہائش تھی ان کے پاس پہنچے، سفر کی تفصیلات اور قذافی سے ہونے والی گفتگو کو ان کی خدمت میں عرض کیا۔ ہماری توقع کے برعکس کہ ہم سوچ رہے تھے کہ امام خوش ہوں گے، انھوں نے کچھ سوچا اور فرمایا:"قذافی قابل بھروسہ نہیں"
...
19
...
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔