پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 26

ایران سے ایک خوشخبری

میں نے عَنَب کو خوشگوار یادوں کے ساتھ خیرباد کہہ دیا اور عراق کے کردستان کے درہ شیش، تائرہ، ہاوار گاؤں سے گزرتا ہوا ایران میں داخل ہوگیا اور دریائے سیروان کے کنارے سے شیخان اور ہیروی گاؤں سے ہوتا ہوا، پل دوآب اور گنجگہ کے راستے نوریاب پہنچ گیا۔

پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملا قادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 25

رضا خان نے 35 سال پہلے نوریاب میں، میرے خاندان کے 4 افراد کو گرفتار کرکے تہران میں پھانسی دے دی تھی۔ میں اس وقت ایک 25 سالہ کنواری لڑکی تھی

پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 24

ہمارے استاد محترم کا تکیہ کلام تھا وہ ہم سب طلباء کو میرا چشم و چراغ " کہہ کر پکارتےتھے اور ہمیں اپنے بیٹا مانتے تھے . انہوں نے ہمارے اس سوال کے جواب میں کہا " میرے بچوں صرف نماز پڑھنا اور اسکا پا بند ہونا کافی نہیں۔

پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 23

یہ خبر پورے گاوں میں جنگل کی آگ کی طرح  پھیل گئی  سب ہی ناراض اور غصے میں تھے  اخوان المسلمین گروپ جس میں جناب مولا محمود صاحب سر فہرست تھے جو ڈیمو کریٹک پارٹی اور ملڑی کے حامی اور کمیونسٹ پارٹی کے اصل رقیب تھےملا محمود صاحب اس غیر مذہبی نشست کے مسجد کے  ساتھ ہی  منعقد ہونے اور بلانے والوں اور تشکیل دینے والوں سے سخت ناراض تھے اور شدید برہم ہو رہتے تھے ۔

پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 22

عراق میں کردستان کا چپہ چپہ شاگردوں سے بھرا ہوا تھا جسمیں کچھ ابتدائی تعلیمی دور میں تھے جبکہ کچھ آخری منازل پر اور کچھ اب خود استاد بن چکے تھے ان میں ایرانی اور عراقی دونوں طرح کے شاگرد شامل تھے

پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 21

جب میں نے بتایا کہ میرا تعلق نور یاب گاؤں سے ہے تو اس نے بہت خوشی سے مجھے بتایا کہ " میں بھی نور یاب گاؤں کا ہی ہوں" اور خدا تمہارے والد صاحب کی مغفرت فرمائے وہ ایک نیک انسان تھے اور میں ان کو اچھی طرح جانتا ہوں اور اگر میرا اختلاف نوریاب کے خان اور حاکم سے نہ ہوا ہوتا تو میں کبھی بھی نور یاب گاؤں اور اسکے لوگوں کو چھوڑ کر یہاں نہ آتا۔

پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 20

 بارزانی خود ماسکو گیا اور علوم سیاسی و نظامی کی تحصیل کے سلسلے میں وہاں شہر بدر کئے جانے والے کردیوں سے رابطہ استوار کیا اسکو سال ۱۹۵۸ میں عبد الکریم قاسم نے عراق بلوا لیا اور وہ شایان شان استقبال کے ساتھ دوبارہ عراق آگیا اور عراق کے شمالی حصے میں کرد نشینوں کے استقلال کے حامیان میں شمار ہونے لگا۔

پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 19

مجھے کوئی امید بھی نہ تھی کہ میری والدہ وقت رخصت کچھ پیسے مجھے دے پائیں گی۔ لہذا وہ ۳۰ اپریل ۱۹۶۶ کا دن تھا جب میں، خدا کا نام لے کر اور اسکے توکل کے ہی سہارے صرف و نحو کی دو کتابوں کو لے کر، اس قرآن کریم کو سینے سے لگائے گھر سے نکلا جو میری ماں نے مجھے تحفہمیں  دیا تھا اور بغیر کسی زاد راہ کے عراق کے سفر پر روانہ ہو گیا

پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 18

وہ جوان چونکہ اور امانات کے دیگر لوگوں کی طرح طلباء پر اعتماد اور بھروسہ رکھتا تھا اسی لئے وہ سارے مجمعے کو چھوڑ کر میری جانب آیا اس کا ایک طاب علم پر اعتماد کرنا مجھے مجبور کرگیا کہ اس کے اس بھرم کو ٹوٹنے نہ دوں لہذا میں نے اس کو مثبت جواب دیا اور فوراً اس پستول کو لے کر اپنے گھر آگیا اور اپنی والدہ سے کہا : یہ امانت ہے اسکے بارے میں کسی سے کچھ نہ کہئے گا اور اسکی خبر کسی کو ہونے نہ پائے ...

پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 17

اس رات کا کافی حصہ مویشی ڈھونڈنے میں گزر گیا، لوگ اپنے اپنے مویشیوں کو ڈھونڈنے نکلے ہوئے تھے اونچے نیچے راستے پہاڑ چٹانیں اور بلوط کے گھنے در ختوں  کے درمیان کوئی کہیں تو کوئی کہیں ۔ اپنے مویشی ڈھونڈ رہا تھا اور پکڑ پکڑ کر ان کو واپس لا رہا تھا غرضیکہ  وہ رات اسی طرح گزر گئی۔
1
...
 
قم میں اسلامی انقلاب کے ایک مبارز(سیاسی جدوجہد کرنے والے)

حاجی ابو الفضل الماسی کی یادیں

تاجروں اور عوام سے اپنے تعلقات کے ذریعے میں انہیں امداد جمع کرنے کی ترغیب دیتا تھا اور وہ لوگ بھی بڑے شوق اور رغبت سے اپنی امداد ہمیں سونپ دیا کرتے تھے۔ حاجی داؤد زند، حاجی محمد خوش نژاد اور رضا محسنی صاحب ان لوگوں میں سے تھے جو ان رابطوں اور امداد جمع کرنے میں میری مدد کرتے تھے۔ جب اچھی خاصی رقم جمع ہوجاتی تھی تو میں سبزی منڈی جاتا تھا اور جن سبزیوں اور پھلوں کو مجاہدین کے لیے بھیجنا ضروری ہوتا تھا، ان کا آرڈر دے دیتا تھا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔