پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 4
میرے خاندان کا تعارف 2
میرے والد بھی امیر نہیں تھے مگر عزت نفس کے مالک، اور عزت دار تھے لہذا ہمیشہ حرام کاموں سے دور رہے لوگوں میں ان کی پاک دامنی کے علاوہ مسائل فلکی اور ستاروں کے علم پر ان کی دسترس کے خوب چرچے تھےپاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 3
میرے خاندان کا تعارف 1
میں ہی وہ "عبد القادر" ہوں، عباس آغا اور سلمی خاتون کا بیٹا اور قادر آغا کا پوتا جو ۱۹۴۸ میں پیدا ہوا اس لحاظ سے پروردگار کا نہایت مشکور ہوں کہ والد ووالده دونوں کی طرف سے میرا شجرہ اہل بیت رسول ﷺ سے جا کر ملتا ہے،پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا: 2
مقدمہ: دوسرا حصہ
اس کتاب کو لکھتے وقت مصنف نے حتی الامکان کوشش کی ہے کہ اصل متن اور راوی کے اس کلام کے انداز کو ملحوظ رکھا جائے اور اسکے کردی لہجے اور زبان کو مخدوش نہ ہونے دیا جائے اور الفاظ میں بھی اس لہجے کی جھلک دکھائی دےپاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 1
مقدمہ: پہلا حصہ
وہ چند گھنٹے میرے لئے انتہائی لذت بخش تھے ! کیونکہ میرے لئے یہ پہلی بار تھا کہ میں کرمانشاہی زبان میں بات کر رہا تھا وہ بھی مریوان کے ایک کرد سے ، اور وہ بھی پوری کوشش کر رہا تھا کہ مجھے سے کرمانشاہی زبان میں بات کرے تاکہ اسکا ساتھ مجھے اچھا لگے ان چند گھنٹوں میں ،میں نے صرف خوبصورتی کو دیکھا ایسی خوبصورتی جو میرے ذہن میں نقش ہو گئی ۔ اللہ رب العزت کی خوبصورت مخلوقات کی خوبصورتی کومیں نے اپنے ہم وطنوں اور ہم مذہب لوگوں کے انداز برتاؤ ،اور سلوک میں مشاہدہ کیا۔ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد
ملتان کا مصلح، 56 واں حصہ
گولی چلنے کی آواز آئی لحظہ بھر کو درد محسوس ہوا اس کے بعد سکون ہی سکون تھا۔ ایسا لگتا تھا مجھے خلاء میں چھوڑ دیا گیا ہے، میں خود کو بہت ہلکا محسوس کر رہی تھی وہ کیا احساس تھا اس کا لفظوں میں بیان ممکن نہیںملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد
ملتان کا مصلح، 55 واں حصہ
مہدی پڑھائی بھی کر رہا تھااور کام بھی کر رہا تھا۔ وہ اپنی تمام تنخواہ ہم پر خرچ کرتا تھا میرا دل نہ مانتا تھاکہ اس سے پیسے لوں لیکن وہ کب ماننے والا تھا۔ مہدی نے اپنی تنخواہ سے روز مادر پر میرے لئے عقیق کی ایک تسبیح خریدی اس وقت یہ تسبیح ایک بہت مہنگا تحفہ تھاملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد
ملتان کا مصلح، 54 واں حصہ
جب ادارہ کا کام ختم ہوجاتا تو میں تھکی ماندی علی کے والد کے پیچھے پیچھے گھر کو چل پڑتی۔ ایک دن میں اپنی سوچوں میں گم علی کے والد کے پیچھے چلی جاتی تھی کہ ایک کھمبے سے ٹکرا گئی۔ سر اٹھا کر دیکھا تو علی میرے سامنے تھا۔ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد
ملتان کا مصلح، 53 واں حصہ
رہبر معظم باتیں کر رہے تھے اور میں ان کے وجود پرنور کی شفقت میں گم اشک بہا رہی تھی ایسا لگتا تھا کوئی بڑا بوجھ میری پیٹھ سے یک دم اتار لیا گیا ہو۔ تمام سختیوں کا بار ہٹ گیا ہو میں سبک بار ، ہلکی پھلکی ہو گئی ہوں۔ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد
ملتان کا مصلح، 52 واں حصہ
اس نے اپنے خواب کی تفصیل جس کی تعبیر کو اب وہ پا چکا تھا، کبھی مجھے نہ بتائی۔ اس واقعہ کو یاد کرکے جگر چھلنی ہو گیا۔ سب کس قدر جلدی گذر گیا تھا لگتا تھا ابھی علی نے کل ہی مجھ سے کہا ہوملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد
ملتان کا مصلح، 51 واں حصہ
معراج شہداء سے باہر آئے تو میں مسلسل اس فکر میں تھی کہ علی کا جسم ٹھنڈا ہے اس کو سردی لگ رہی ہوگی اور کوئی اتنا بھی نہیں کہ اس کو ایک کمبل ہی اڑھا دے وہ جب گھر میں ہوتا تھا اور سو جایا کرتا تھا اور اس کا جسم ٹھنڈا ہو جاتا تھا تو میں ہمیشہ متوجہ رہتی تھی اور اس کو چادر یا کمبل اڑھا دیا کرتی تھی3
...
گذشتہ مطالب
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
خمینی کا بیٹا کہاں ہے!
میں اٹھا، میں نے دیکھا کہ کوئی پچاس یا ساٹھ مسلح کمانڈوز ، ہمیں آگاہ کئے بغیر یا دروازہ کھٹکھٹائے بغیر، سیڑھیوں سے اندر داخل ہوئے اور صحن کے بیچوں بیچ چیخ کر سوال کرنے لگے، ’’خمینی کا بیٹا کہاں ہے؟‘‘حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے
"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام