پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 14
ہم دشہ گاؤں کے طلباء کی زندگی پھر بھی ایسی تھی کہ ہم پورے دن میں یا تو دوپہر یا پھر رات کا کھانا مکمل طور پر یعنی پورا کھاتے تھے اور جب کبھی دوپہر یا شام کا کھانا اچھا ملتا تو باقی وقتوں میں ہمیں صرفخالی روٹی پر گزارا کرنا پڑتا تھا اور باقی وقتوں میں صرف روٹی سے ہی بھوک مٹا لیتے ہیں تھےپاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 13
ابھی مجھے دشہ گاؤں میں آئے ہوئے ایک سال ہی ہوا تھا کہ مجھے خبر ملی کہ مجھے بھی اس تربیتی پروگرام میں حصہ لینا ہے۔ میں اس کو ضروری اور اہم نہیں سمجھتا تھا لہذا میں نے اس خبر پر کان نہ دھرے اور نہ ہی گیا کہ میرے پاس کچھ طلباء آئے اور کہنے لگے " تم نے نام لکھوایا ہے تو اب تم مجبور ہو کہ ان کلاسز اور مشقوں میں لازمی شرکت کرو" ۔پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 12
طالب علمی کے دور کا آغاز اوراس کی مشکلات:
طالب علموں کو شروع کے چند سالوں میں "سوختہ" کہا جاتا تھا، شاید اسکا مطلب یہ تھا کہ اس طالب علمی کے شروع کے چند سالوں میں طالب علم اتنی ریاضت کریں، سختیاں جھیلیں اپنے گھر اور گھر والوں سے دور، آسائشوں اور آرام کو چھوڑ کر اپنی ذات کی ایسی تربیت کریں کہ یہ خام اور ناپختہ نفس ان سختیوں اور آزمائشوں کی تپش میں پک کر پختہ، مضبوط، غیر متزلزل ،مستحکم انسان کی صورت میں سامنے آئے۔پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 11
محمد سلیم اچھے انسان تھے وہ حلیم میں کوئی ملاوٹ نہیں کرتے تھے نہ کہیں ڈنڈی مارتے تھے بس بعض دفعہ اچھے صاف گوشت کی جگہ سری پائے دیگ میں ڈلواتے تھے تاکہ ان کو سستا پڑے اور زیادہ منافع حاصل ہو سکے مگر مجھے ان کا یہ کام پسند نہیں تھا اور جب وہ مجھ سے اسطرح پکواتے تھے تو میں دکان میں آنے والے لوگوں سے سخت شرمندگی کا احساس کرتا تھاپاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 10
اچانک پریشانی کے عالم میں ایک دم میری آنکھ کھل جاتی ہے اور میں سمجھ جاتا ہوں کہ یہ ایک خواب تھا جو میں دیکھ رہا تھا مگر مجھے فوراً اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ کوئی معمولی یا بے تعبیر خواب نہیں تھا تھوڑا اوسان بحال ہوتے ہیں تو مجھے اطمینان ہو جاتا ہے کہ یہ خواب ایک اشارہ تھا کہ اس ہائی اسکول میں پڑھنے میں میں کامیاب نہیں ہو سکوں گا مگر مجھے نہیں معلوم تھا میری تقدیر میں کیا ہے آگے کیا ہونے والا ہے؟پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 9
یہ ستمبر ۱۹۶۴ کی بات ہے میں نے چھٹی جماعت بھی پاس کرلی، اور نہایت خوشی اور مسرت کے ساتھ میں ہائی اسکول گیا جسکا نام پہلوی ہائی اسکول تھا۔ میں بلند قد و قامت کا لمبا چوڑا نوجوان تھا جسکی وجہ سے دوسرے شاگردوں کی نسبت بڑا دکھائی دیتا تھا یہی وجہ باعث بنی کہ آغا ملک شاہی نے جو ہائی اسکول کے پرنسپل تھے میرے قد و قامت اور دوسرے شاگردوں سے بڑا ہونے کی وجہ سے میرا ایڈمیشن لینے سے انکار کر دیا۔پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 8
میری مالی حالت بھی دوسرے طلباء سے بہتر نہ تھی مگر میں ذہین ہوشیار اور قابل تھا گرمیوں میں جب اسکول کی تعطیلات ہوتیں تو میں لوگوں کی زمینوں پر جا کر زمینوں پر سے جھاڑیوں اور گھانس کو اکھاڑ کر زمینوں کی تیاری کا کام کرتاپاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 7
نو ریاب میں اسکول کا افتتاح
کلاس میں شاگردوں کی عمر اور قدو قامت میں اختلاف کے باوجود بھی ہمارے اسکول میں سب شاگرد ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے کیونکہ صرف ایک ہی کمرہ دستیاب تھا جس میں ایک طرف کچھ شاگرد میز اور بینچ پر بیٹھتے تھے باقی دری پر یا پتھروں کے چھوٹے ٹکڑوں پر بیٹھتے تھے اور دیوار یا لکڑی کے تختوں سے ٹیک لگا کر اپنا پورا دھیان آغا شیانی کی طرف مرکوز رکھتے تھے،پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 6
اورامانات میں پہلوی حکومت
علاقے اور قبائل کی ممتاز اور اہم شخصیات کی گرفتاری کے بعد، ظالم پہلوی نظام کے ناپاک قدموں کے نشانات تمام گزرگاہوں . داخلی خارجی راستوں پراستوار ہو گئے اور آہستہ آہستہ ، حکومتی خدمات کے نام پر ، فری تعلیمی پروجیکٹس صحت اور میڈیکل کی سہولیات اور سڑکوں کی تعمیر اور علاقے کی فلاح و بہبود اور ترقی کے نام پر کئے جانے والے نام نہاد کاموں کے پیچھے چھپے عزائم اور مقاصد ساکنان اور اہلیان علاقہ پر بھی واضح اور آشکار ہونا شروع ہو گئے مگر اب یہ نظام پہلے سے قوی تر اور مضبوط ہو چکا تھا لہذا کچھ نہیں کیا جاسکتا تھا ۔پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں
ماموستا 5
میرے خاندان کا تعارف 3
طوفانی برف باری نے میری والدہ کے ان چالیس بدھوں کی منت اور مناجات میں رخنہ ڈال دیا تھا اور ان کا وہ سلسلہ اس دن نہ جانے کی وجہ سے ٹوٹ گیا تھا مجھے نہیں معلوم انہوں نے کس کام کے لئے وہ منت مانی تھی مگر مجھے یاد ہے کہ اگلے سال کے پہلے مہینے کے اختتام سے ہی انہوں نے دوبارہ اس چالیس روزه زیارت کی منت کو دوبارہ شروع کیا اور چالیس بدھ، عصر کے وقت مولانا مقصود کے مزار کی زیارت کی منت کو پورا کرنے میں کامیاب بھی ہو گئیں2
...
گذشتہ مطالب
سب سے زیادہ دیکھے جانے والے
خمینی کا بیٹا کہاں ہے!
میں اٹھا، میں نے دیکھا کہ کوئی پچاس یا ساٹھ مسلح کمانڈوز ، ہمیں آگاہ کئے بغیر یا دروازہ کھٹکھٹائے بغیر، سیڑھیوں سے اندر داخل ہوئے اور صحن کے بیچوں بیچ چیخ کر سوال کرنے لگے، ’’خمینی کا بیٹا کہاں ہے؟‘‘حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے
"1987 میں حج کا خونی واقعہ"
دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیںساواکی افراد کے ساتھ سفر!
اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!
کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام